بی جے پی جیتے یا کانگریس اونچی ذاتیں بدستور غالب

رویش کمار
انتخابات میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ انتخابی عمل کو سمجھتے بھی رہنا چاہئے۔ عام طور پر ہماری پوری توجہ حکومت بدلنے اور نئی حکومت کی تشکیل پر مرکوز رہتی ہے، لیکن ان اسباب پر بھی کچھ توجہ دینا ضروری ہے جو سیاست کو طے کرتے ہیں۔ وہ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے سیاسی تبدیلی ناممکن بن چکی ہے۔ اشوکا یونیورسٹی سے وابستہ اسسٹنٹ پروفیسر گل ورنیئر کا ایک طویل تحقیقی مضمون ’انڈیا ٹوڈے‘ کی ویب سائٹ پر شائع ہوا ہے۔ اس آرٹیکل سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ خاص سیاسی طبقہ کی پیدائش عام گھرانوں میں ہوتی ہے۔ ورنیئر نے اپنے آرٹیکل میں روایتی خاص طبقہ کا ذکر کیا ہے۔ اب ہمیں سمجھنا ہوگا کہ کس طرح روایتی سیاستدان نامی گرامی بن گئے۔ بے شک، یہ اونچی ذاتوں سے ہیں۔ مختلف نوعیت کے کنٹراکٹ منصوبوں سے وابستگی نے انھیں آزادی کے بعد سے تاحال خاصی مدت میں وسائل پر کنٹرول دلایا ہے۔ مقامی سطح پر آپ دیکھیں گے کہ سیاستدانوں کا خاص طبقہ ہی ہوتا ہے جو اِس پارٹی سے اُس پارٹی کو منتقل ہوتا رہتا ہے اور اپنا مقام بنانے میں جٹا رہتا ہے۔ ایسے لیڈروں کی بے شمار مثالیں مل جائیں گے جو کبھی کانگریس میں تھے اور اب بی جے پی میں ہیں۔ ایسی دل بدلی میں کئی غیرقانونی۔ قانونی مفادات پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو آسانی سے پارٹی ٹکٹ مل جاتے ہیں۔
کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی ایسے سیاستدانوں کو استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اس سے انھیں اقتدار حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ایسے دل بدلو لیڈروں کو کانگریس اور بی جے پی اپنے واجبی اور غیرقانونی دونوں نوعیت کے مفادات کی تکمیل کرلینے کی چھوٹ دیتے ہیں۔ اس لئے آپ دیکھیں گے کہ اکثر و بیشتر کسی حلقہ میں ایم پی کی شکست یا جیت سے حالات میں کوئی بدلاؤ نہیں آتا، وہ جوں کے توں برقرار رہتے ہیں اور پریشان عوام بس دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ایسے ایم پیز کے مفادات عوام سے ہرگز جڑے نہیں ہوتے ہیں۔ ایک اور پہلو پر غور کیجئے۔ اگر آپ باریک بینی سے جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ لیڈر آج اِدھر تو کل اُدھر ہونے سے آج امیدواری کی اہمیت ختم ہوگئی ہے۔ عوام کا یہ بھی کہنا ہے کہ اُن کا مطلب محض امیدوار نہیں ہے۔ ان کا عمومی مطلب مودی ہے۔ مودی کا چہرہ ہر طرف دکھائی دیتا ہے، نہ کہ امیدوار۔ اس طرح امیدوار کی انتخابی کامیابیوں میں ضمنی حیثیت ہوگئی ہے، لیکن وسائل پر کنٹرول اور اسے وسعت دینے کے عمل میں کامیاب امیدوار کی اہمیت تو ہنوز رہتی ہے۔ الیکشن مودی کے نام پر جیتنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن کام کا ذمہ تو ایم پی کا ہوتا ہے۔
پروفیسر ورنیئر نے اپنی ریسرچ میں بیان کیا ہے کہ بی جے پی کا عروج 2017ء میں 32.4 فیصد سے بڑھ کر 42.7 فیصد ہوا۔ ہریانہ میں جاٹ طبقات کی نمائندگی 52 سے 62 فیصد سے بڑھ گئی۔ آسام اسمبلی میں 47% لیجسلیٹرز اونچی ذات سے ہیں، یعنی ہر دو ارکان اسمبلی میں سے ایک کا تعلق اونچی ذات سے ہے۔ حتیٰ کہ اُن ریاستوں میں بھی جہاں بی جے پی نے اچھا مظاہرہ پیش نہیں کیا ہے، روایتی سیاسی طبقہ نے مقننہ جات میں اپنی سبقت برقرار رکھی ہے۔ بہار میں 54 فیصد بی جے پی ایم ایل ایز اونچی ذات کے ہیں، جبکہ پوری اسمبلی میں اونچی ذات کی نمائندگی 21% ہے۔ راجستھان میں 57.6 فیصد لیجسلیٹرز مقامی طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں اُن کا تناسب 53% ہے۔ جہاں اونچی ذاتوں کو روایتی برتری حاصل ہے، وہ غالب ہیں، اور جہاں او بی سی اور دیگر طبقات روایتی طور پر طاقتور سیاسی موقف رکھتے ہیں، انھیں بی جے پی نے غالب پوزیشن دی ہے اور انھیں نمائندگی بھی دی ہے۔ گجرات میں ایسے 51% لیجسلیٹرز ہیں جبکہ کانگریس کے صرف 34.6% ہیں۔ ایک لحاظ سے دیکھیں تو یہ طبقات دو بڑی پارٹیوں میں غالب ہیں۔
بی جے پی کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ اس نے اُن طبقات کو بڑھاوا دیا ہے جن کو ایس پی، بی ایس پی یا دیگر پارٹیوں میں نمائندگی حاصل نہیں ہوئی، لیکن اعداد و شمار کچھ اور اشارہ کہتے ہیں۔ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی سیاست سے فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان طبقات میں بی جے پی کے تعلق سے مودی کی باتوں کو زیادہ سنا گیا۔ 2017ء کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے ٹکٹوں کی تقسیم میں 48.2 فیصد ٹکٹس اونچی ذاتوں کو دیئے۔ او بی سی اور جاٹ امیدواروں کا تناسب 31.2 فیصد رہا۔ ان 31.2% میں سے دو تہائی نمائندگی جاٹ، یادو، کرمی اور گجر طبقات کو دی گئی۔ بقیہ ٹکٹ نشاد، راج بھر، کشواہا، لودھا کمیونٹی کو حاصل ہوئے۔ کانگریس نے 35 فیصد ٹکٹس اونچی ذاتوں کو دیئے۔
پروفیسر ورنیئر نے خود اسمبلی میں بی جے پی کے اندرون روایتی اعلیٰ سیاستدانوں کا تناسب بڑھتا ہوا نہیں پایا ہے۔ اُن کی تحقیق کے مطابق یوگی آدتیہ ناتھ نے اڈمنسٹریشن اور مختلف اداروں میں ٹھاکر کمیونٹی کو بڑی اہمیت دی ہے۔ پانچ ریاستوں میں بی جے پی کے پانچوں چیف منسٹرس ٹھاکر رہے ہیں۔ کانگریس میں بھی یہی رجحانات دیکھنے میں آئیں گے۔ اگر کہیں برہمن کو پس منظر میں ڈالا جائے تو کہیں اور ٹھاکر کو ماند رکھا جاتا ہے۔ کیا صرف بی جے پی ہی ایسا کرتی ہے؟ نہیں۔ یہ سارے ہندوستان میں عمومی رجحان ہے۔ جہاں مقامی اور روایتی سیاستدان ہے، وہ وہاں سیاست پر چھایا رہتا ہے۔ وہاں اونچی ذاتوں کا دبدبہ رہتا ہے۔ وسائل پر وہی اول حق جتاتے ہیں۔ بی جے پی اور کانگریس دونوں ہی اس فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔ او بی سی اور دلت سیاست پر اونچی ذات کے غلبہ کو قابل لحاظ حد تک گھٹایا گیا تھا، لیکن بی جے پی فارمولے نے دوبارہ پرانی روش بحال کردی ہے۔
پسماندہ ذات کے لیڈر کی حیثیت سے وزیراعظم مودی کو برتری ملی اور وہ بڑھ کر روایتی اقتدارِ خاص میں تبدیل ہوگئی، نیز انھیں بالخصوص ہندی زبان والی ریاستوں سے فائدہ ہوا۔ مختلف طبقات کو فوائد ضرور حاصل ہوئے لیکن مذہب اور قوم پرستی کے موضوعات چھیڑ کر جرمن اندازِ فکر و عمل کو گھسا دیا گیا ہے جس کے ذریعے اونچی ذاتوں کو سیاسی واپسی کرنے کا موقع ملا ہے۔ دِقت (مشکل) یہ ہے کہ بی جے پی اور کانگریس میں دیگر طبقات بدستور پست ہیں اور انھیں اُبھرنے کا موقع نہیں مل رہا ہے۔ یہ پارٹیاں روایتی قوم پرستی جیسے مسائل پر ووٹ بٹور لیں گے لیکن وسائل کی تقسیم کے معاملے میں کمتر طبقات کو مستحقہ حصہ نہیں ملے گا بلکہ دیگر امیدواروں کو کامیابی مل جائے گی۔
کئی دہوں بعد روایتی خاص لیڈروں کی سیاست میں واپسی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت کی معاشی محاذ پر ناکامی کے باوجود یہ طبقہ اقتدار کو اپنے قبضے سے چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہے۔وہ پوری طرح مودی سے جڑے ہوئے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر مودی دوبارہ برسراقتدار نہ آئے تو ان کیلئے سب کچھ بکھر جائے گا۔ شروعات میں وہ دیگر طبقات کے تئیں نفرت کے اظہار میں محتاط نظر آئے، اور اب انھیں اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ انھوں نے قوم پرستی اور فرقہ وارانہ مسائل کے نام پر عوام کو ورغلانا اور لالچ دینا معمول بنارکھا ہے۔
پروفیسر ورنیئر کا کہنا ہے کہ طبقات کی کمتر تعداد میں نمائندگی نے سارے انتخابی عمل کو گھٹا دیا ہے۔ یادو اور جاتو طبقات نے طویل عرصہ سماج پر غلبہ برقرار رکھا۔ اب اسی طرح اونچی ذاتیں غالب ہورہی ہیں۔ کسی سیاسی پارٹی میں حامیوں کا کچھ دخل نہیں ہوتا۔ ورکر کا کوئی رول نہیں ہوتا۔ شاید اسی لئے سیاست میں کوئی نئی قیادت نہیں اُبھر رہی ہے۔ روایتی خاص طبقہ اس قدر طاقتور ہوچکا ہے کہ آپ زیادہ تر پسپا ہورہے ہیں۔ پروفیسر ورنیئر نے کہا ہے کہ پارٹی تو یکساں ہوتی ہے، لیکن امیدوار طے کرنے والا گروپ محدود ہوتا ہے اور وہ اپنے مفادات کو مقدم رکھتا ہے۔ فیملی ممبرز بی جے پی اور کانگریس دونوں جگہ نظر آئیں گے۔ آپ بی جے پی اور کانگریس کو تو شکست دے سکتے ہیں، لیکن آپ روایتی خاص طبقہ کو نہیں ہرا سکتے۔ وہ آپ کو شکست دیتا ہے، آپ کو اُلو بناتا ہے!
ravish@ndtv.com