بی جے پی اقتدار میں جنگل راج خواتین کے حقوق پر دوہرے معیارات آشکار

خلیل قادری
ہندوستان ایسا لگتا ہے کہ دھیرے دھیرے جنگل راج کی سمت بڑھ رہا ہے ۔ اس ملک میں ‘جس کی روایات اور تہذیب صدیوں تک ساری دنیا کیلئے مثال رہی ہیں ‘ اب اس کی اپنی بیٹیاں اور خواتین ہی محفوظ نہیں ہیں۔ بیمار ذہنیت نے اس قدر عروج پالیا ہے کہ اب عصمت ریزی کرنے والوں اور انسانیت و ہندوستانی روایات کی دھجیاں اڑانے والوں کی مدافعت میں حکومتوں کے وزیر تک احتجاج کرنے سڑکوں پر آ رہے ہیںاور برسر اقتدار جماعت کے بدکار ارکان اسمبلی کو اس کے گھناؤنے جرم سے بچانے کیلئے متاثرہ لڑکیوں کے کردار کو سرعام داغدار کیا جا رہا ہے اور اس کی کردار کشی ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر کی جا رہی ہے ۔ یہ ایسا ہندوستان بن کر ابھر رہا ہے جو دنیا بھر میں اپنی روایات اور تہذیب کیلئے جانا نہیں جاتا ۔ ہندوستان کی روایات اور اس کی شناخت ایک روادار اور تہذیب و اخلاق کے گہوارہ کے طور پر رہی ہے ۔ یہاں خواتین کی عزت و احترام کی مثالیں ہیں جو ساری دنیا تسلیم کرتی ہے ۔ ہندوستان کے کلچر کو دنیا بھر میں مہذب مانا جاتا ہے ۔ یہاں کے عوام کو ایک دوسرے کا خیال کرنے اور عزت و احترام کے ساتھ پرامن بقائے باہم کے اصولوں پر عمل کرنے والے مانا جاتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ گذشتہ تین تا چار سال میں بی جے پی کے اقتدار نے ملک کی اصل روایات کو ہی بدلنے کا کام کیا ہے اور یہاں عوام کی ذہنیت متاثر کرکے رکھ دی گئی ہے ۔ یہاںصرف اکثریتی غلبہ کو اہمیت دی جا رہی ہے اور اقلیتوں و پسماندہ طبقات اور دلتوں کو زندہ رہنے کے حق سے اور اپنی عزت و آبرو کیلئے آواز اٹھانے کے حق سے بھی محروم کیا جا رہا ہے ۔ یہ انتہائی نراج اور بے چینی کی کیفیت ہے اور یہ ہندوستانی روایات اور اقدار کے یکسر منافی ہے ۔ جس ملک میں عدم تشدد اور خواتین کی عزت و احترام کو اہمیت دی جاتی تھی وہاں اب خواتین کی عزت و عصمت کو تار تار کیا جا رہا ہے اور ایسا کرنے والے خاطیوں کو بچانے کیلئے وزرا تک سڑکوں پر اتر کر احتجاج کر رہے ہیں۔

جموں و کشمیر میں کٹھوا اور اترپردیش میں اناؤ میں پیش آئے عصمت ریزی کے واقعات نے سارے ملک کے عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ ملک کے عوام کی ایک بڑی اکثریت اب بھی روایتی اقدار اور اصولوں کی پابند ہے اور وہ عزت و احترام کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ وہ پرامن بقائے باہم کے اصولوں پر عمل پیرا رہنا چاہتے ہیں۔ اس کے باوجود حکومتیں اور اقتدار کے نشہ میں دھت سیاسی قائدین ملک میں اقدار کے علاوہ قانون کی دھجیاں بھی اڑانے میں مصروف ہیں۔ کٹھوا میں ایک آٹھ سالہ معصوم لڑکی کا اغوا کیا جاتا ہے ‘ اسے منشیات کے ذریعہ غشی کا شکار کیا جاتا ہے ‘ اس کی عصمت کو تار تار کیا جاتا ہے اور پھر اسے انتہائی سفاکی سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔ یہ ایسا انسانیت کو شرمسار کرنے والا جرم ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور اس کے خاطیوں کو سزائے موت دی جانی چاہئے ۔ یہ صرف ایک لڑکی کے ساتھ پیش آنے والا اتفاقی واقعہ نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ ایک سازش کا حصہ ہے اور یہ ایک ایسی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جس سے ہندوستان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ۔ یہاں علاقہ سے ایک مخصوص طبقہ اور برادری کو خوف و دہشت کار شکار کرتے ہوئے نقل مقامی کرنے پر مجبور کرنے کیلئے سازش رچی گئی تھی اور ایک مندر میں لڑکی کو یرغمال رکھتے ہوئے اسے انسانیت سوز اور بہیمانہ و سفاکانہ جرم کا نشانہ بنایا گیا ۔ حالات اس وقت اور بھی سنگین محسوس ہونے لگتے ہیں جب یہ انکشاف ہوتا ہے کہ قانون کے رکھوالے ہی مجرمین سے ساز باز کرتے ہوئے انہیں بچانے اور متاثرین کو انصاف سے محروم کرنے کیلئے ثبوت و شواہد کو مٹانے میں سرگرم ہوجاتے ہیں اور مجرمین سے اپنے اس عمل کی قیمت وصول کرلیتے ہیں۔ کٹھوامعاملہ میںایسا ہی ہوا ہے اور دو اسپیشل پولیس عہدیداروں ‘ ایک سب انسپکٹر اور ایک کانسٹیبل نے ملزمین سے چار لاکھ روپئے رشوت لیتے ہوئے ثبوت و شواہد کو مٹانے میں سرگرم رول ادا کیا تھا لیکن وہ بھی اب گرفتار کرلئے گئے ہیں۔

دوسری جانب اناؤ میں ایک نابالغ لڑکی کی عصمت ریزی کا واقعہ پیش آتا ہے ۔ یہاں ایک 17 سالہ لڑکی ملازمت کی تلاش میں رکن اسمبلی سے رجوع ہوتی ہے ۔ اس لڑکی کی عصمت ریزی کی جاتی ہے ۔ جب لڑکی عدالت سے رجوع ہوتی ہے تو اس کے والد کو آرمس ایکٹ میں ماخوذ کرتے ہوئے جیل بھیج دیا جاتا ہے ۔ اس پر بھی لڑکی جب اپنی جدوجہد ترک نہیں کرتی تو اس کے والد کو عدالتی تحویل میں قتل کردیا جاتا ہے ۔ اب تک پولیس تحویل میںاموات ہوا کرتی تھیں لیکن اب تو عدالتی تحویل میں ایک شخص کو پیٹ پیٹ کر قتل کردیا گیا اور رکن اسمبلی پوری طمطراق کے ساتھ گھومتے رہے ۔ وہ قانون کا مذاق اڑاتے رہے ۔ متاثرین کو دھمکاتے رہے ۔ ان کے کارندے اور کارکن ثبوت و شواہد کو مٹانے میں جٹے رہے ۔ کٹھوا معاملہ میں جب خاطیوں کو گرفتار کیا گیا تو ریاست کے وزیر انسانیت سوز جرم کے ملزمین کی تائید میں اور انہیں بچانے کیلئے سڑکوں پر احتجاج میں شامل ہوگئے ۔ یہ بھونڈا دعوی کیا کہ ہندووں کو پھانسنے کیلئے کوشش کی جا رہی ہے ۔ دوسری طرف اناؤ معاملہ میں اترپردیش کی آدتیہ ناتھ حکومت نے اپنے ہی رکن اسمبلی کے خلاف کارروائی سے معذوری ظاہر کی ۔ مسلسل عوامی برہمی اور میڈیا کی توجہ دہانی کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر مباحث میں حصہ لینے والے بیمار ذہنیت کے حامل فرقہ پرست عناصر نے جموںو کشمیر کے وزیر اور یو پی میں بی جے پی کے ملزم رکن اسمبلی کی دھڑلے سے مدافعت کی اور انہیں بچانے کی کوشش کی گئی ۔ اگر خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم اور انسانیت سوز حرکات کو بھی فرقہ پرستی کی عینک سے دیکھا جانے لگا تو پھر اس ملک میں قانون اور عزت و احترام اور اقدار کی پامالی سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔ اناؤ معاملہ میں تو ملزم بی جے پی رکن اسمبلی ہنستے مسکراتے قانون کا مذاق اڑاتے متاثرین کو دھمکانے میں مصروف رہے تھے اور ان کے حامی اور رشتہ داروں کی جانب سے متاثرہ لڑکی کی کردار کشی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ۔ اس کے والد کو عدالتی تحویل میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اس کے باوجود عوامی سطح پر اقدار اور اخلاق کا درس دینے میں شہرت رکھنے والی بی جے پی کے وزیر اعظم اور اسی پارٹی کے چیف منسٹر نے زبان کھولنا تک ضروری نہیں سمجھا اور نہ ہی متاثرین سے اظہار ہمدردی کیا ۔ خاطیوں کے خلاف کارروائی کے معاملہ میں تو بی جے پی کے تمام ہی قائدین ایسا لگتا ہے کہ خاموشی اختیار کرلینے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ سے لے کر مقامی ارکان اسمبلی اور بلاک و منڈل سطح کے قائدین بھی میڈیا میں اس مسئلہ کوئی رائے دینے تیار نہیں ہیں۔ ان کی زبانیں بند ہوگئی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ انہیں سانپ سونگھ گیا ہے ۔ انہیں خواتین اور لڑکیوں کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ انہیں صرف اپنے ایجنڈہ اور اپنے قائدین و کارکنوں سے ہی مطلب ہے اور انہیں باقی کسی چیز کی فکر نہیں ہے ۔ بی جے پی اور اس کے وزیر اعظم نے چند دن قبل محض مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور شریعت میں مداخلت کرنے کے مقصد سے تین طلاق کا مسئلہ چھیڑ دیا تھا اور یہ دعوی کیا تھا کہ یہ سب کچھ مسلم خواتین کو ان کے حقوق دلانے اور ان کا تحفظ کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے ۔ یہ خوش کن نعرے تھے جن کے ذریعہ بی جے پی اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل میں کامیاب رہی لیکن اب عصمت ریزی کا شکار خواتین کے مسئلہ میں اس کی دوہری ذہنیت اور ڈوغلا پن ظاہر ہوگیا ہے ۔ وہ خواتین کی عزت و عفت کو تار تار ہوتے تو برداشت کر رہی ہے لیکن ایسا کرنے والے خاطیوںاور ملزمین کے خلاف کارروائی کرنے کے معاملہ میں پس و پیش کا شکار ہے ۔ ایسے گھناؤنے جرم کرنے والوں کو بچانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے ۔ قانونی گنجائش سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے اور سر عام امتیاز برتا جا رہا ہے ۔
یہ ایسی ذہنیت ہے جو ہندوستانی سماجی اقدار کو تار تار کر رہی ہے ۔ خواتین کی عزت و عفت کی حفاظت کیلئے اب سماج کو اپنے طور پر چوکس ہونے کی ضرورت ہے ۔ حکومتوں اور برسر اقتدار جماعتوں سے وابستگی کی بنیاد پر ملزمین کو کھلی چھوٹ نہیں ملنی چاہئے ۔ انہیں بھی قرار واقعی سزائیں دی جانی چاہئیں۔ ان کے خلاف بھی قانون کے مطابق بڑی تیزی سے کارروائی ہونی چاہئے ۔ جب تک ملک کے عوام اور خاص طور پر حقیقی معنوں میں خواتین کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والی تنظیمیں آگے نہیں آئیں گی اس وقت تک ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا ۔ صرف حکومتوں پر تکیہ اور انحصار کیا جاتا رہا تو اور بھی کئی کٹھوا اور اور بھی کئی اناؤ پیش آسکتے ہیں اور اس کی ذمہ داری خاطیوں ‘ حکومت کے اہلکاروں کے ساتھ سماج کے ٹھیکے داروں پر بھی عائد ہوگی اگر وہ بروقت حرکت میں نہ آئیں۔