بیگم اختر کی یاد میں (صد سالہ سالگرہ اور چالیسویں یوم وفات کے موقع پر)

میرا کالم سید امتیاز الدین
زمانہ کس تیزی سے گزرتا ہے ۔ بیگم اختر کو دنیا سے گزرے ہوئے چالیس برس ہوگئے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس وقت جن لوگوں کی عمریں چالیس پچاس سال کے لگ بھگ ہیں ، ان کو اس عظیم گلوکارہ کا نام بھی معلوم نہ ہوتا ، لیکن اس ملکۂ غزل کی آواز کا جادو ایسا ہے کہ جدید طرز موسیقی کے دلدادہ نوجوان بھی اس کے ریکارڈ ، کیسٹس اور سی ڈی سن کر مسحور ہوجاتے ہیں ۔ غزل خود ایک حسین صنفِ سخن ہے ، جس کو بیگم اختر نے اپنی رسیلی آواز ، خوبصورت سُروں اور بے مثال ادائیگی سے حسین تر بنادیا تھا ۔ ویسے تو صرف ساٹھ سال کی عمر پائی لیکن بہت کم عمری ہی میں اس نے اپنے فن کا سکّہ جمادیا تھا ۔ بیگم اختر نے اپنے فن کا مظاہرہ اُس وقت کیا جب اُس کی عمر بمشکل بیس سال کی رہی ہوگی ۔ بہار کے زلزلے کے متاثرین کی امداد کے لئے کلکتے کے الفریڈ تھیٹر میں موسیقی کا ایک شاندار پروگرام منعقد ہوا تھا ۔ ابتدا میں مشہور شہنائی نواز امان علی خاں صاحب اور بسم اللہ خاں صاحب نے (جو اس وقت امان علی خاں کے ہونہار شاگرد تھے) اپنے فن کا مظاہرہ کیا ۔ ان کے بعد جس مشہور فن کار کو موسیقی کا پروگرام پیش کرنا تھا ۔ اس نے منتظمین کو اچانک اطلاع بھیجی کہ وہ شرکت سے قاصر ہے ۔ منتظمین کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ ہزاروں کا مجمع ٹکٹ خرید کر آیا تھا اور بے قابو ہورہا تھا ۔ ایسے میں بیگم اختر کے استاد عطا محمد خاں صاحب نے تجویز پیش کی کہ اگر منتظمین اجازت دیں تو وہ اس مشہور فن کار کی جگہ اپنی شاگردہ اختری بائی کو گانے کے لئے کہیں ۔ منتظمین کے لئے اور کوئی راستہ نہیں تھا ۔ اختری اس غیر متوقع اعزاز کے لئے مطلق تیار نہیں تھیں ۔ بہرحال اسٹیج کا پردہ اٹھا اور سازندوں نے سُر ملانا شروع کیا ۔ بیس سالہ اختری خدا کے حضور دعا مانگنے لگیں کہ مالک میری عزت تیرے ہاتھ ہے ۔ اختری نے غزل چھیڑی

تُو نے مرے ہرجائی کچھ ایسی ادا پائی
تکتا ہے تری صورت ہر ایک تماشائی
اختری کی آواز نے سماں باندھ دیا ۔ سارا مجمع ہمہ تن گوش تھا ۔ ہر ایک شخص یہ محسوس کررہا تھا جیسے اس نے اس سے پہلے ایسی دل نشین آواز سنی ہی نہ تھی ۔ یکے بعد دیگرے اختری نے چار غزلیں ، پانچ دادرے بغیر دم لئے سنادئے ۔ بے شمار مداحوں نے انھیں گھیرلیا ۔ ان مداحوں میں ایک خاتون نے اختری سے کہا ’آج میں صرف تھوڑی دیر کے لئے آئی تھی ، لیکن تمہاری آواز نے مجھے آخر تک باندھے رکھا ۔ کل اسی جگہ میری تقریر ہے ۔ تم کل پھر آنا اور مجھے سننا‘ ۔ یہ خاتون تھیں بلبلِ ہند سروجنی نائیڈو جو اگلے دن اختری کے لئے ایک خوبصورت کھدر کی ساڑی بطور تحفہ لائیں ۔
اختری (جنھیں اب ہم بیگم اختر کے نام سے جانتے ہیں) 1914 ء میں فیض آباد یو پی میں پیدا ہوئیں ۔ ان کی ایک جڑواں بہن انوری بھی تھیں ، جن کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا ۔ بیگم اختر کی والدہ کا نام مشتری بائی اور والد کا نام اصغر علی تھا ۔ شادی کے چند سال بعد ہی مشتری بائی اور اصغر علی میں علحدگی ہوگئی تھی ۔ مشتری نے بڑی تکلیف سے اپنی بیٹی کی پرورش کی ۔
مشتری بائی چاہتی تھیں کہ ان کی بیٹی پڑھ لکھ کر کسی اچھے گھر کی ہوجائے ، لیکن اختری کھیل کود اور گانے بجانے کی شوقین تھی ۔ موسیقی کے ریاض میں بھی اس کا دل نہیں لگتا تھا ۔ اس کے ابتدائی استاد امداد خان آگرے والے نے ایک دن کئی گھنٹے تک راگ کامود کا ریاض کرایا ۔ ننھی اختری الاپ لیتے لیتے تھک گئی اور روتے ہوئے کمرہ سے باہر چلی گئی ۔ کچھ عرصے بعد اختر استاد عطا محمد خاں کے زیر تربیت آئیں ، جن کا تعلق تان رس گھرانے سے تھا ۔ استاد سے انھوں نے خیال ، ٹھمری ،دادرے اور غزل گائیکی میں مہارت حاصل کی ۔ اس کے بعد ماں بیٹی کلکتے چلی گئیں ۔

کلکتے میں بھی بیگم اختر اور ان کی والدہ مالی پریشانیوں کا شکار تھیں ۔ ماں کی اجازت کے بغیر انھوں نے فیصلہ کرلیا کہ وہ گراموفون کمپنیوں کے لئے ریکارڈ بنانے کا کانٹریکٹ کرلیں گی ۔ چنانچہ ان کی پہلی ریکارڈنگ ایچ ایم وی کمپنی نے کی ۔ اس کے بعد جے این گھوش نے جو میگافون ریکارڈ کمپنی کے مالک تھے ، بیگم اختر کو ریکارڈنگ کے لئے مدعو کیا ۔ بیگم اختر نے ان کے اصرار پر کچھ غزلیں اور کچھ بنگالی گانے بھی ریکارڈ کرائے جو بہت مقبول ہوئے ۔ نرگس کی والدہ جدّن بائی بیگم اختر کو آل انڈیا ریڈیو کلکتہ لے گئیں ، جہاں سے بیگم اختر نے کئی پروگرام پیش کئے ۔
بیگم اختر نامور گلوکارہ بنتی جارہی تھیں ، لیکن ان کی والدہ چاہتی تھیں کہ وہ شادی کرلیں اور گھر گرہستی سنبھالیں ۔ بیٹی کا رجحان کسی طرح بدلے ، اس خیال سے وہ اختر کو ایک صوفی پیر کے پاس بریلی شریف لے گئیں ۔ پیر صاحب نے اپنی پسندیدہ غزلوں کی کتاب کھولی اور بیگم اختر سے کہا کہ وہ اس میں لکھی ہوئی غزلوں میں سے کسی غزل پر ہاتھ رکھیں ۔ بیگم اختر نے جس غزل پر ہاتھ رکھا اس کا مطلع تھا

دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنادے
ورنہ کہیں تقدیر تماشا نہ بنادے
یہ بہزاد لکھنوی کی غزل تھی ، جس نے بیگم اختر کو ملک کی مقبول ترین گلوکارہ بنادیا ۔ یہ ریکارڈ اتنا فروخت ہوا کہ ایچ ایم وی کمپنی کو فوراً لندن سے ریکارڈ پریسنگ یونٹ درآمد کرنا پڑا ، تاکہ زیادہ سے زیادہ ریکارڈ جلد سے جلد تیار کئے جائیں اور شائقین کی بڑھتی ہوئی مانگ پوری کی جاسکے ۔
فلم کمپنیوں نے بیگم اختر کوایکٹنگ کے لئے اتنا مجبور کردیا کہ انھوں نے نل دمینتی ، ناچ رنگ ، ایک دن کی بادشاہت (1933) ممتاز بیگم (1934) امینہ (1934) ،نصیب کاچکر (1935) وغیرہ میں کام کیا ۔ ایسٹ انڈیا فلم کمپنی کلکتہ انھیں دو ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دیتی تھی جو اس زمانے میں بہت بڑی تنخواہ تھی ۔
بیگم اختر کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ محبوب خاں جیسا ڈائرکٹر خود ان سے ملنے کے لئے ان کے گھر گیا اور فلم ’روٹی‘ کی ہیروئن کی پیشکش کی ۔ یہ فلم 1942 میں بنی ۔ انیل بسواس نے اس کی موسیقی ترتیب دی ۔ بیگم اختر کی آواز میں اس کا ایک گانا ’پھر جوش مسرت میں اک نعرہ مستانہ‘ لوگوں کو ان دنوں دیوانہ کردیتا تھا ۔ اسی فلم کا ایک اور نغمہ تھا ’رہنے لگا ہے دل میں اندھیرا ترے بغیر ،بے نور ہوگئی مری دنیا ترے بغیر‘ ۔ اس کے بعد بیگم اختر نے فلم میں کام کرنا بند کردیا تھا لیکن میوزک ڈائرکٹر مدن موہن بیگم اختر کے پرستاروں میں تھے ۔ مدن موہن کے اصرار پر بیگم اختر نے ان کے لئے فلم دانہ پانی (1953) میں اے عشق مجھے اور تو کچھ یاد نہیں ہے اور فلم احسان (1954) کے لئے ایک نغمہ ’ہمیں دل میں بسا بھی لو‘ ریکارڈ کرایا تھا ۔ بیگم اختر کی آخری فلم ستیہ جیت رے کی جلسہ گھر (1958) تھی ۔

1942 میں بیگم اختر فلم اور اسٹیج کی زندگی سے بڑی حد تک اُکتا چکی تھیں ۔ انھیں مالی آسودگی بھی حاصل تھی ، وہ لکھنؤ لوٹ آئیں اور پھر ایک بار کلاسیکی موسیقی کے ریاض میں ہمہ تن مصروف ہوگئیں ۔ انھوں نے استاد عبدالوحید خاں کی شاگردی اختیار کی ۔ مختلف راگ راگنیوں پر بیگم اختر کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ پنڈت روی شنکر جیسے ستار نواز بھی ان کے فن کے دل سے معترف تھے ۔ اپنی کتاب انوراگ میں روی شنکر نے لکھا ہے کہ مختلف راگوں کے امتزاج سے بیگم اختر وہ سُر پیدا کرتی تھیں جو خالصتاً ان کا مخصوص سُر ہوتا تھا ۔ ان کی لَے ان کے سننے والوں پر براہ راست اثر کرتی تھی ۔
بیگم اختر کا تلفظ اور الفاظ کی ادائی نہایت عمدہ تھی ۔ غالب کی غزل آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک اور کوئی امید بر نہیں آتی ، ان کے کمالِ فن کا بہترین نمونہ ہیں ۔ میرؔ و سوداؔ سے لے کر فراق ، جگر ، بہزاد ، فیض ، سدرشن فاخر ، شکیل بدایونی ، کیفی اعظمی اور کئی شاعروں کا کلام بیگم اختر نے اپنی خوبصورت آواز میں پیش کیا ہے ۔ کہتے ہیں کہ جس وقت وہ شکیل بدایونی کی غزل ’اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا‘ ریکارڈ کرارہی تھیں تو انھیں شدید زکام تھا ۔ بیگم اختر خود پوری طرح مطمئن نہیں تھیں کہ ریکارڈنگ کیسی ہوگی ،لیکن خاص بات یہ ہے کہ یہ ریکارڈ آج بھی ہر ایک کو مسحور کردیتا ہے ۔ بیگم اختر نوجوان شعراء کے کلام کو بھی شوق سے گاتی تھیں ۔ شاذ تمکنت کی ایک غزل ’مرے نصیب نے جب مجھ سے انتقام لیا‘ کو بھی انھوں نے نہایت عمدگی سے ریکارڈ کرایا تھا ۔ ریکارڈنگ کمپنی سے کانٹریکٹ کرتے وقت وہ اس بات کا خیال رکھتی تھیں کہ شاعر کی رائلٹی بھی معقول ہو اور ہر سال ملتی رہے ۔ چنانچہ شاذ تمکنت صاحب کی غزل کی رائلٹی شاذ صاحب کی اہلیہ کو ابھی حال حال تک ملتی رہی ۔

بیگم اختر کی شادی بھی بہت دلچسپ انداز سے ہوئی ۔ اشتیاق احمد عباسی انگلستان کے تعلیم یافتہ بیرسٹر تھے ۔ ایک مرتبہ بیگم اختر اپنی کار میں لکھنؤ کی کسی سڑک پر سے گزر رہی تھیں ۔ اشتیاق احمد عباسی بھی سڑک سے گزر رہے تھے ۔ ذرا سی چوک ہوتی تو عباسی صاحب کار کی زد میں آجاتے ۔ بہرحال وہ سڑک کے حادثے سے تو بچ گئے ، لیکن حادثۂ محبت سے بچ نہیں سکے ۔ عباسی اور بیگم اختر آپس میں ملنے لگے ۔ ایک دن شہرت اور مقبولیت کے موضوع پر دونوں میں بات ہورہی تھی ۔ بیگم اختر نے کہا کہ ایک عورت کے لئے شہرت اور مقبولیت سے بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ وہ اچھی بیوی اور اچھی خاتون خانہ ہو ۔ عباسی صاحب یہ سن کر حیرت زدہ رہ گئے ۔ جب بیگم اختر نے اس رشتے کے لئے رضامندی ظاہر کردی تو اشتیاق عباسی نے پوچھا ’آپ نے مجھ سے شادی کا فیصلہ کیسے کیا‘ بیگم اختر نے یہ شعر پڑھا

چاہئے اچھے کو جتنا چاہئے
یہ اگر چاہے تو پھر کیا چاہئے
1945 میں دونوں کی شادی ہوگئی ۔ بیگم اختر نے بالکلیہ گھریلو زندگی اختیار کرلی ۔ لیکن روز بروز ان کی طبیعت مرجھائی ہوئی رہنے لگی ۔ 1950 کے آس پاس ڈاکٹروں نے عباسی صاحب سے کہہ دیا کہ اگر ان کو نغمہ سرائی سے روک دیا جائے تو یہ مرجائیں گی یا دیوانی ہوجائیں گی ۔ عباسی نے پھر سے گانے کی اجازت دے دی اور ہندوستانی موسیقی کو اس کا کھویا ہوا خزانہ مل گیا ۔ 1950 سے تادم مرگ بیگم اختر برصغیر کی واحد عظیم ملکۂ غزل کی حیثیت سے راج کرتی رہیں ۔ ان کو کئی انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا ۔
افسوس اس کا ہے کہ یہ خوش مزاج ، ملنسار اور منکسر المزاج فنکار صحت کے تعلق سے بالکل بے پروا تھیں ۔ 1967 میں پہلی بار ان کے قلب پر حملہ ہوا ، لیکن ان کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ جولائی 1974 میں دوسرا ہارٹ اٹیک ہوا ۔ ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود اکٹوبر 1974 میں بیگم اختر احمدآباد گئیں ، جہاں ان کے پرستاروں نے ایک کانسرٹ کااہتمام کیا تھا ۔ 26 اکٹوبر 1974 کو اسٹیج پر نغمہ سرا بیگم اختر کے قلب پر تیسرا حملہ ہوا ۔ 30 اکٹوبر 1974 کو یہ عظیم گلوکارہ دنیا سے رخصت ہوگئی ۔ صدر جمہوریہ فخر الدین علی احمد کی خصوصی دلچسپی اور توجہ سے میت بذریعہ ہوائی جہاز لکھنو لے جائی گئی اور وہیں تدفین عمل میں آئی ۔
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا