بیک وقت دہشت گردی اور امن مذاکرات ناممکن

اسلام آباد 29 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) پاکستانی طالبان کو بات چیت کی میز پر آنے کا تازہ موقع دینے کی کوشش کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے کہاکہ ایک چار رکنی کمیٹی امن مذاکرات کی نگرانی کے لئے آج تشکیل دی گئی ہے۔ اِس طرح اُنھوں نے ممنوعہ عسکریت پسند گروپ کے خلاف فوجی کارروائی کے یقینی امکانات کی قیاس آرائیوں کو مسترد کردیا۔ تاہم واضح کیاکہ دہشت گرد حملے روک دیئے جانے چاہئیں۔ بات چیت اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی۔ اُنھوں نے یہ بھی کہاکہ حکومت کے تمام ہتھیار تیار ہیں اور حکومت قبائیلی علاقہ میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی سے گریز نہیں کرے گی۔

لیکن چاہتی ہے کہ تمام متعلقہ فریقین دہشت گردی کو کچلنے کے لئے بات چیت پر آمادہ ہوجائیں۔ اُنھوں نے کہاکہ کُل جماعتی کانفرنس طلب کی گئی ہے تاکہ دہشت گردی کے خلاف اتفاق رائے پیدا کیا جاسکے۔ حکومت نے ایک واضح حکمت عملی تیار کی ہے تاکہ دہشت گردی کی لعنت سے نمٹا جاسکے۔ اُنھوں نے کہاکہ وزیرداخلہ پاکستان چودھری نثار خان کمیٹی کی کارکردگی میں تعاون کریں گے۔ اُنھوں نے کہاکہ مذاکرات کے سابقہ تجربے ’’تلخ‘‘ ثابت ہوئے ہیں۔ حکومت نے تمام افراد کو بات چیت کے لئے مدعو کیا ہے لیکن اُنھیں عوام کی جان و مال سے کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اُنھیں دستور کی پابندی کرنی ہوگی۔

بدقسمتی سے ماضی میں اُنھوں نے ہماری بات نہیں سنی اور فوج اور شہریوں کو نشانہ بنانا جاری رکھا۔ طالبان کے ساتھ بات چیت کے کُل جماعتی کانفرنس کے فیصلہ کے بعد بھی کئی بے قصور جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ اِس صورتحال کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ نواز شریف کے اِس اعلان سے طالبان کے خونریز حملوں کی لہر کے بعد فوری طور پر جارحانہ کارروائی کے امکانات ختم ہوگئے ہیں۔ نواز شریف نے کہاکہ امن ہمارا انتقام نہیں ہماری منزل ہے۔ بہرقیمت امن قائم کیا جائے گا۔ حکومت عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی پابند ہے۔ پاکستان کے ادارے اور عوام دہشت گردوں کے حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں جبکہ اسلام نے بے قصور افراد کی ہلاکتوں کی مذمت کی ہے۔ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔