بیکنی کی تائید و مخالفت ، کویتی پارلیمنٹ میں تلخ بحث

پابندی کے خلاف انتباہ، استعفیٰ دینے آزاد خیال ایم پی کی دھمکی
کویت ۔ 30 مئی (سیاست ڈاٹ کام) کویت کے ایک رکن پارلیمان نبیل الفضل نے پیراکی کے حوضوں اور عوامی مقامات پر خواتین کی عریانیت کو روکنے کے لیے مجوزہ قانون کی مجلس الاْمہ (قومی اسمبلی) سے منظوری کی صورت میں مستعفی ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ کویتی روزنامے الشاہد میں جمعہ کو شائع ہونے والے ایک بیان میں نبیل الفضل نے کہا ہے کہ ’’بیکنی پر پابندی کے لیے نیا مجوزہ بل شخصی آزادی پر ایک کھلا حملہ ہے۔اگر اس کی منظوری دی جاتی ہے تو میں استعفیٰ دے دوں گا کیونکہ میرے نیابتی حلقے کے لوگوں نے آزادانہ نظریات اور خیالات کی وجہ سے مجھے ووٹ دیے تھے‘‘۔ کویت کی قومی اسمبلی کی متعلقہ کمیٹی کے سربراہ حمدان العازمی نے اگلے روز پیراکی کے حوضوں اور عوامی مقامات پر عورتوں کی عریانیت پر پابندی لگانے کی تجویز پیش کی ہے جس کی منظوری کی صورت میں سیاح اور مقامی شہری خواتین بیکنیاں نہیں اوڑھ سکیں گی۔اس پابندی کا ہوٹلوں میں بھی خواتین پر اطلاق ہوگا۔

حمدان اسلامی حلقے سے تعلق رکھتے ہیں مگر انھوں نے اپنی مجوزہ تجویز میں ’’عریانیت‘‘ کی تعریف نہیں کی تھی۔ اس اصطلاح میں نامناسب لباس اور جسمانی اعضاء کا اظہاربھی شامل ہے۔انھوں نے چند روز قبل ایک بیان جاری کیا تھا جس میں ساحل سمندر پر پیراکی کے حوضوں اور ہوٹلوں میں بیکنیاں پہننے والی عورتوں پر کڑی تنقید کی تھی۔ تاہم اس قرارداد کے قانون بننے کے لیے ضروری ہیکہ اسمبلی اس کی منظوری دے اور حکومت بھی اس کی توثیق کرے‘‘۔اس کے قانون بننے کی صورت میں خواتین ساحل سمندر پر بیکنیاں اور عریانیت کا مظہر لباس نہیں پہن سکیں گی اور جو کوئی اس کی خلاف ورزی کرے گی،اس کو ایک سال تک قید اور جرمانے کی سزا سنائی جاسکے گی۔یاد رہے کہ 2011ء میں کویت کی ایک پارلیمانی کمیٹی نے بیکنیوں پر پابندی کی تجویز مسترد کردی تھی اور یہ موقف اختیار کیا تھا کہ یہ غیر آئینی ہے۔

کویت خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کا واحد رکن ملک نہیں ہے جہاں ثقافت اور قدامت پسندی کے حوالے سے ایشوز زیر بحث ہیں۔اسی ہفتے اس کی پڑوسی ریاست قطر سے یہ خبر آئی ہے کہ وہاں بھی خواتین کے بھڑکیلے لباس کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے اور اس مہم کے محرکین نے غیرملکی سیاحوں اور تارکین وطن سے کہا ہے کہ وہ ملک کے لباس کے سخت ضابطے کی پاسداری کریں۔اس پر اس ننھی خلیجی ریاست میں مقیم غیر ملکی تارکین وطن کی اکثریت میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ قطر میں مقیم ایک امریکی نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ لباس کے اس نئے ضابطے کا ’’مذہبی اور سرکاری جگہوں‘‘ پر اطلاق کیا جانا چاہیے کیونکہ انھیں شاپنگ مالز،ساحل سمندر یا بازاروں میں لباس کے اس ضابطے کی پابندی پر مجبور کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ دریں اثناء ایک اور خلیجی ریاست بحرین سے یہ خبر آئی ہے کہ وہاں ارکان پارلیمان نے شراب کی فروخت پر بتدریج پابندی عاید کرنے اور اس کو غیر قانونی قرار دینے کی تجویز کی حمایت کردی ہے اور شراب کی فروخت کو قحبہ گری کے مشابہ قراردیا ہے۔