بیٹے کے گھر نہ جانے کی قسم کھانا

سوال : میرے لڑکے نے ایک مرتبہ اپنی والدہ کے ساتھ اونچی آواز میں گفتگو کی اور بحث و تکرار کرنے لگا۔ اس وقت میں نے اس سے کہا کہ اگر تمہاری آواز تمہاری ماں کی آواز سے بلند ہوگی تو میں تمہارے گھر کبھی نہیں آؤں گا اور میں نے اس کے گھر نہ جانے کی قسم کھائی ۔ ایک عرصہ ہوگیا ۔ اب لڑکا اپنے کئے پر نادم ہے۔ معافی بھی اس نے مانگ لی ، ماں سے اس کے تعلقات بھی ٹھیک ہوگئے ۔ اب اس لڑکے کا اصرار ہے کہ ہم دونوں اس کے گھر جائیں اور کچھ دن اس کے پاس قیام کریں۔ ا یسی صورت میں شرعی نقطہ نظر سے کیا احکام ہیں، رہنمائی فرمائیں۔
ڈاکٹر حمزہ ، قلعہ گولکنڈہ

جواب : جن کاموں کا کرنا چھوڑ دینے سے بہتر ہے ، اگر کوئی شحص ان کاموں کے نہ کرنے کی قسم کھائے تو ایسے شحص کو چاہئے کہ قسم توڑکر ان کاموں کو کرے اور قسم کا کفارہ ادا کرے ۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار کتاب الایمان میں ہے: و حاصلہ ان المحلوف علیہ اما فعل او ترک و کل منھما اما معصیۃ وھی مسالۃ المتن او ولحب کحلفۃ لیصلین الظھر الیوم و برہ فرض أو ھو اولی من غیرہ او غیرہ اولی منہ کحلفہ علی ترک وطئی زوجتہ شھرا و نحوہ و … اولی۔

پس صورت مسئول عنہا میں اگر آپ اپنے بیٹے کے گھر چلے جائیں تو آپ کی قسم ٹوٹ جائے گی اور اس کا کفارہ آپ کو ادا کرنا ہوگا اور قسم کا کفارہ شریعت میں ایک غلام آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو صبح و شام پیٹ بھر کھانا کھلانا یا صبح و شام یعنی پورے ایک دن کے کھانے کی قیمت دینا یا دس مسکینوں کو بدن ڈھکنے سے موافق متوسط لباس دینا ہے ۔ اگر کوئی شخص ان تمام کفاروں سے عاجز ہے تو اس کو چاہئے کہ تین روزکے پے در پے روزہ رکھے۔ اگر روزوں کے درمیان بھی اس کو کہیں سے روپیہ مل جا ئے یا ملنے کی قوی امید ہو تو اس حسب تفصیل سابق تین چیزوں میں سے ایک چیز واجب ہے۔ اسی میں ہے (و کفارتہ تحریر رقبۃ او اطعام عشرۃ مساکین) کما مر فی الظھار ( او کسوتھم بما) فیصلح للاوساط و ینتفع بہ فوق ثلاثۃ اشھر و (یستر عامۃ البدن وان عجز عنھا) کلھا (وقت الادا، صیام ثلاثۃ ایام ولاء والشرط استمر ار العجز الی الفراغ من الصوم فلو صام المعسر یومین ثم) قبل فراغہ ولو بساعۃ (الیسر) ولو بموت سورۃ مؤسرا (لا یجوز لہ الصوم) ویستأنف بالمال۔

سیاہنامہ کی ترتیب کے چار ماہ بعد ولادت
سوال: لڑکا لڑکی نے دو گواہوں کی موجودگی میں شرعی لحاظ سے عقد نکاح کیا اور چھ ماہ بعد باضابطہ قاضی کے پاس نکاح کیا گیا اور قاضی کے پاس جو نکاح کیا گیا اس کے چار ماہ بعد ہی لڑکے کی ولادت ہوئی۔ باپ اقرار کرتا ہے کہ وہ لڑکا اسی کا ہے اور ماں کو بھی اس کا اقرار ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو خانگی نکاح لڑکا و لڑکی نے کیا تھا کیا اس کی وجہ سے لڑکے کے نسب پر کوئی اثر پڑے گا یا نہیں ؟
نام …

جواب : خانگی نکاح اگر گواہوں کے روبرو احکام شرعیہ کے مطابق ہوا ہے تو وہ شرعی نکاح ہے ، جس کی وجہ سے نسب ثابت ہے ۔ قطع نظر اس کے جبکہ لڑکے کو اس بچے کے نسب کا اقرار ہے اور اس کو ا پنا فرزند صلبی بیان کرتا ہے تو یہ خود نکاح کا اقرار ہے اور ثبوت نسب کے لئے کافی ہے ۔ الاشباہ و النظائر مصری کے ص : 70 کتاب النکاح میں ہے : الاقرار بالولدمن حرۃ اقرار بنکاحھا لا الاقرار بمھرھا۔ تنقیح حامدیہ کی جلد 1 ، باب ثبوت النسب میں ہے : وھی فتاوی ابن نجیم من باب التحریر ان جائت بہ لستتہ اشھر فاکثر یثبت نسبہ منہ والا فلا الا ان یدعیہ ولم یقر انہ من زنا۔ عالمگیری جلد اول کتاب الاقرار میں ہے: ویصح اقرار الرجل بالولد بشرط ان یکون المقرلہ بحال یولد مثلہ لمثلہ وان لایکون المقرلہ ثابت النسب من غیرہ ولن یصدق المقرلہ المقر فی اقرارہ اذا کانت لہ عبارۃ صحیحۃ۔

ایک دوسرے کا حصہ ہبہ کرنا
سوال : ایک شخص کا انتقال ہوا ، اس کی غیر منقولہ جائیداد کے اس کی بیوی ، تین لڑکے اور دو لڑکیاں شرعی وارث تھیں چونکہ یہ لڑکے چھوٹے تھے تو بطور امانت یہ جائیداد ان کی ماں کے نام کی گئی ۔ ماں نے اس مشترکہ جائیداد کو جس پر اس کے تین لڑکے اور دو لڑ کوں کا حق ہے اپنے بڑ ے فرزند کے نام ہبہ رجسٹری کردی۔
کیا شرعی لحاظ سے ماں کا یہ عمل درست ہے ؟ کیا اس کی وجہ سے حقیقی اولاد محروم رہیں گے یا ان کو ان کا شرعی حق ملے گا ؟
ای میل
جواب : ورثاء میں سے ہر ایک دوسرے کے حصہ کے متعلق بالکل اجنبی ہے ، اس لئے اس کو دوسرے کے حصہ میں بلا اجازت کسی قسم کے تصرف کا حق نہیں ۔ ہدایہ کی کتاب الشرکۃ میں ہے ۔ فشرکۃ الاملاک العین یرثھا رجلان او یشتر یانھا فلا یجوز لا حد ھما ان یتصرف فی نصب الاخر الا باذنہ وکل واحد منھما فی نصیب صاحبہ کلاجنبی۔
پس ریافت شدہ مسئلہ میں ماں چونکہ اپنے دوسرے شرکاء یعنی مرحوم کی اولاد کے حصہ کے متعلق بالکل اجنبی ہے اور مال ودیعت شرعا امانت دار کی ملک نہیں اس لئے ماں کا مرحوم کے متروکہ مکان کو اپنے بڑے فرزند کے نام ہبہ کرنا شرعاً درست نہیں ۔ عالمگیری جلد چہارم کتاب الودیعۃ باب الاول میں ہے : واما حکمھا فوجوب الحفظ علی المودع و صیرورۃ المال امانۃ فی یدہ ووجوب ادائہ عند طلب مالکہ کذا فی الشمتی)

لڑکے کی پرورش
سوال : ایک لڑکا دو سال کا تھا کہ ماں کا انتقال ہوگیا ۔ نانی نے بچے کی پرورش کی ۔ باپ نے دوسری شادی کرلی ، اب اس کو بھی ایک لڑ کا اور ایک لڑ کی ہے ۔ اس لڑکے کی عمر اب آٹھ سال ہوگئی ہے ۔ وہ نانی ہی کے پاس ہے اور نانی سے بہت لاگو ہے ۔ والد اس کے پاس جاکر ملتے ہیں اور کبھی وہ لڑکا باپ کے پاس آکر رہتا ہے ۔ لیکن لڑ کا اپنی نانی سے بہت مایوس ہے ۔ والد کی خواہش ہے کہ وہ لڑ کے کو اپنے ساتھ رکھ لے اور اس کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرے لیکن نانی بچے کو واپس دینے کیلئے آمادہ نہیں اور لڑکا بھی نانی ہی کے پاس رہنے کو پسند کر رہا ہے۔
ایسی صورت میں بچے کی پرورش کا حق ازروئے شرع کس کو حاصل ہے ؟
نام …

جواب: لڑکا اس وقت چونکہ آٹھ سال کا ہوچکا ہے اس لئے اب اس کو باپ کے حوالہ کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنے منشاء کے مطابق اس کی تعلیم تربیت کرے۔ لڑکے چونکہ خصوصاً کھیل کی طرف راغب ہوتے ہیں ، اس لئے وہ ایسی جگہ اپنے کو پسند کرتے ہیں جہاں محبت و شفقت کے سبب کھیل کا زیادہ موقع ملتا ہے اور جہاں تعلیم و ترتیب ہوتی ہے ، رہنے کو پسند نہیں کرتے اس لئے شریعت میں ان کی رضامندی و اختیار کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا ۔ در مختار باب الحضانۃ میں ہے : (لاخیار للولد عندنا مطلقا) ذکر اکان او انثی ۔ در مختار میں ہے : (قولہ ولا خیار للولد عندنا) ای اذ بلغ السن الذی ینزع من الام یا خذہ الاب ولا خیار للصغیر لانہ لقصور عقلہ یختار من عندہ اللعب و قد صح ان الصحابۃ لم یخیروا۔ اسی جگہ ردالمحتار میں ہے : (والحضانۃ) اما او غیرھا (احق بہ) ای بالغلام حتی یستغنی عن النساء وقدر بسبع و بہ یفتی لانہ غالب۔

امانت کی گھڑی تحفہ میں دینا
سوال : میں نے کچھ عرصہ قبل اپنی قیمتی گھڑی بطور امانت اپنے بڑے بھائی کو دی تھی‘ تقریباً چار ماہ کے بعد میں نے ان سے اپنی گھڑی کی واپسی کا مطالبہ کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ انہوں نے وہ گھڑی ان کے دوست کو تحفۃً دیدی ہے۔ ان کے جواب سے میں خاموش ہوگیا۔ بڑے بھائی کے احترام میں کچھ کہہ نہ سکا لیکن آپ سے معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ ازروئے شرع امانت کی چیز تحفہ میں دی جاسکتی ہے یا نہیں ؟
عبدالباسط‘جڑچرلہ

جواب : امانت کے طور پر رکھی گئی کوئی شئی ‘ امانت دار کی ملک نہیں ہوتی‘ اس لئے اس کا ہبہ کرنا شرعاً درست نہیں۔ عالمگیری جلد 4 کتاب الودیعہ باب اول میں ہے : واما حکمھا فوجوب الحفظ علی المودع و صیرورۃ المال أمانۃ فی یدہ ووجوب ادائہ عند طلب مالکہ کذا فی الثمنی
پس صورت مسئول عنہا میں آپ نے اپنی گھڑی بطور امانت اپنے بھائی کے پاس رکھی تھی تو اس کی حفاظت اور بوقت طلب اس کی ادائی ان پر واجب تھی‘ انہوں نے اپنے دوست کو جو ہبہ کیا وہ شرعاً درست نہیں۔

جمعہ کی نماز میں بوقت اقامت
کب کھڑا ہونا چاہئے
سوال : بعض مساجد میں جمعہ کے دن خطبہ ثانیہ کے بعد امام صاحب کی طرف سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ تمام اصحاب کھڑے ہوکر صف بندی کریں اور سل فون بند کرلیں۔ امام صاحب کے حکم کی بناء ۔
عموماً تمام لوگ صف بندی کرتے ہیں البتہ بعض اصحاب بیٹھے رہتے ہیں اور حی علی الفالح کے وقت کھڑے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے صف بندی میں خلل پیدا ہوجاتا ہے اور بعد میں پیچھے سے لوگ صف بندی کرتے ہیں۔ اقامت کے وقت کھڑے رہنے والوں کا عمل درست ہے یا بیٹھنے والوں کا عمل صحیح ہے ؟
براہ کرم تشریح شریعت کے مطابق فرمائیں تو مناسب ہے
محمدلیاقت علی خاں، پربھنی

جواب : عام پنجوقتہ نمازوں میں بوقت اقامت امام مصلی کے قریب موجود ہو تو امام اور مقتدی سب کو حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا چاہئے اور اقامت کے وقت امام مصلی کے پاس موجود نہ ہو پیچھے سے آرہا ہو تو جس صف سے وہ گزرے وہ صف کھڑی ہوجائے اور یہ حکم آداب نماز سے ہے ۔ مراقی الفلاح ص 135 فصل من آدابھا میں ہے : (و) من الادب (القیام) ای قیام القوم والامام وان کان حاضر اتقرب المحراب (حین قیل) ای وقت قول المقیم (حی علی الفلاح) لأنہ أمربہ فیجاب وان لم یکن حاضرا یقوم کل صف حتی ینتھی الیہ الامام فی الاظھر۔ البتہ جمعہ کی نماز میں امام خطبہ ختم کرتے ہی اقامت شروع کردینی چاہئے۔ امام کو خود بیٹھنے کا موقع نہیں رہتا اور جب امام کھڑے رہے تو سارے مقتدیوں کو کھڑے ہوکر صف بندی کرنی چاہئے۔