بیوی کا کھانا پکانے سے انکار کرنا

سوال : میری شادی ہوکر پانچ سال ہوئے ، مجھ کو ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے۔ چھوٹی لڑکی تقریباً دو سال کی ہے ، میں اپنی اہلیہ کے ساتھ علحدہ مکان میں رہتا ہوں، وہ ایم اے لٹریچر سے کامیاب ہے، اور جاب بھی کرچکی ہے لیکن اب وہ گھر میں رہتی ہے۔ کام نہیں کرتی۔ پکوان سے واقف ہے، شادی سے قبل گھر کی ساری ذمہ داری اسی پر تھی، زچگی کے وقت سہولت کیلئے کھانا پکانے کیلئے بھی ایک خادمہ کا انتظام کیا گیا تھا ۔ اب اہلیہ کا تقاضہ ہے کہ ایک خادمہ کا انتظام کیا جائے تاکہ پکوان میں سہولت ہو جبکہ جھاڑو برتن کیلئے ایک پہلے سے خادمہ موجود ہے، پکوان کیلئے خادمہ ملتی نہیں اور ملتی ہے تو کافی رقم کا مطالبہ کرتی ہے اور یہ ایک مشکل مسئلہ ہے۔ شرعی لحاظ سے بیوی کا مطالبہ اور پکانے سے انکار کرنا درست ہے یا نہیں ؟
محمد فیصل ، کریم نگر
جواب : بیوی پکانے پر قادر ہو، وہ اور اس کے گھر کی خواتین خود کھانا پکاتی ہیں تو ایسی خاتون کا کھانا پکانے سے انکار کرنا اور پکوان کیلئے خادمہ مقرر کرنے کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں۔ بدائع صنائع جلد 3 ص : 430 میں ہے: فاما اذا کانت تقدر علی ذلک وھی ممن تخدم بنفسھا تجبر علی ذلک۔

نکاح فاسد میں نفقہ
سوال : زید نے رشیدہ کو نکاح میں رکھتے ہوئے اس کی بہن حمیدہ سے نکاح کرلیا گھر والوں کو اس کی اطلاع نہ ہوئی، بعد ازاں گھر والوں کو اس کا علم ہوا ، دونوں کو علحدہ کردیا گیا ، طلاق نامہ بھی باضابطہ حاصل کرلیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ زید پر حمیدہ کے ایام عدت کا نفقہ دینا لازم ہوگا یا نہیں ؟
نام …
جواب : شرعاً حمیدہ کو نفقہ عدت نہیں ملے گا ۔ اگرچہ اس پر عدت کا لزوم ہے ۔ بدائع صنائع جلد 3 ص : 425 میں ہے : ولو تزوج اخت امرأتہ … ولا نفقۃ لأختھا وان وجبت علیھا العدۃ ، لانھا معتدۃ من نکاح فاسد

بیٹے کی کمائی سے گزارا کرنا
سوال : میری عمر ستر برس ہے ، میں خانگی ملازم تھا، ساتھ میں تجارت کیا، اللہ تعالیٰ نے زندگی میں برکت رکھی ، تمام اولاد کی ذمہ داریاں بحسن و خوبی انجام دیا، اب کمزور و بیمار ہوچکا ہوں ، جو کچھ کمایا سب بچوں کے حوالے کردیا ، میرے دونوں بیٹے میرا اور میری اہلیہ کا خیال رکھتے ہیں لیکن اس گرانی کے دور میں ہمارے علاج و معالجہ کے اخراجات کافی ہیں، جس کی وجہ سے میں دل میں تکلیف محسوس کر رہا ہوں کہ اولاد کا پیسہ ماں باپ کیلئے کس حد تک درست ہے ؟
نام مخفی
جواب : ضرورتمند ماں باپ کا نفقہ ازروئے شرع اولاد پر لازم ہے۔ اولاد ماں باپ کا نفقہ ، علاج و معالجہ کے مصارف اٹھا رہی ہے تو وہ اپنے فرض ادا کر رہے ہیں، شرعی ذمہ داری کی تکمیل کر رہے ہیں اور آخرت میں اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے ۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حا ضر ہوا ، اس کے ساتھ اس کے والد بھی تھے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرا کچھ مال ہے اور میرے والد کے پاس بھی مال ہے لیکن میرے والد میرے مال میں سے لینا چاہتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : انت و مالک لابیک ۔ ترجمہ : تم اور تمہارا مال سب تمہارے والد کا ہے (ابو داؤد کتاب البیوع باب فی المؤجل یا کل من مال ولدہ)

اس حدیث شریف کو نقل کرنے کے بعد علامہ کا سانی اپنی کتاب بدائع الصنائع جلد 3 ص : 440 میں ذکر کرتے ہیں کہ اگر مذکورہ حدیث سے اولاد کے مال میں والد کو حق ملکیت حقیقی طور پر حاصل نہ بھی ہو تو بوقت ضرورت اولاد کے مال کو مالک کی حیثیت سے تصرف کرنے کا حق ضرور ثابت ہوتا ہے ۔ اضاف مال الابن الی الاب بلام التملیک و ظاھر تقتضی ان یکون للاب فی مال ابنہ حقیقۃ الملک فان لم یثبت ا لحقیقۃ فلا اقل من أن یثبت لہ حق التملیک عند الحاجۃ۔
نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان اطیب مایاکل الرجل من کسبہ و ان ولدہ من کسبہ فکلو امن کسبہ اولاد کم اذا احتجتم الیہ بالمعروف۔
ترجمہ : سب سے پاکیزہ مال آدمی کیلئے وہ ہے جو وہ اپنے کسب (کمائی) سے کھاتا ہے اور اس کی اولاد اس کے کسب میں سے ہے ، پس تم اپنی اولاد کی کمائی سے معروف کے ساتھ کھاؤ جب تم کو ضرورت ہو۔ (بحوالہ بدائع الصنائع جلد 3 ص : 440 )
پس اپ کی اولاد آپ کی کمائی ہے ، آپ کا ضرورت کے وقت ان کی کمائی سے استفادہ کرنا گویا اپنے مال کا اپنی ذات پر خرچ کرنا ہے ۔ اس میں کوئی شرمندگی نہیں ۔ نیز اولاد کو بھی اس بات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ ماں باپ ضرورتمند ہوں تو ان کا نفقہ ، علاج و معالجہ ، ان کے بنیادی مصارف و ضروریات کی تکمیل شرعاً واجب ہے ، ان کی دیکھ بھال ، مزاج داری ، خدمت باعث سعادت و موجب اجر و ثواب ہے اور اس میں کوتاہی و دل آزاری دنیا میں رسوائی ، آخرت میں ناکامی و خسران ہے۔
فاسد نکاح میں علحدگی کا حکم
سوال : زید کا نکاح تین سال قبل ، ہندہ سے ہوا ، ہندہ کی بڑی بہن رشیدہ کی لڑکی زینب ہندہ کے ماں باپ کے ساتھ ان کے گھر میں رہا کرتی تھی ۔ زید اور زینب چھ ماہ قبل شادی کرلیتے ۔ دونوں کے بے تکلف زیادہ میل جول کی بناء رشتہ داروں کو شک و شبہ ہوا ۔ بات بہت آگے تک بڑھ چکی تھی جس کی وجہ سے اختلافات بہت زیادہ ہوگئے ۔ دونوں نے شادی کا اقرار نہ کیا ، اور گناہ کبیرہ کے ارتکاب پر نادم ہوئے اور ایک دوسرے سے نہ ملنے کا عہد کیا اور سب رشتہ داروں کی وموجدگی میں باہم نکاح کرنے کا انکار کیا ، لیکن زید کے قریبی دوستوں نے نکاح کرنے کی اطلاع دی۔
اب سوال یہ ہے کہ زید نے اپنی بیوی کو نکاح میں رکھتے ہوئے اس کی حقیقی بھانجی سے شادی کی اور ساتھ میں رہے لیکن اب وہ دونوں شادی کا انکار کردیئے علحدہ علحدہ رہ رہے ہیں۔ کیا ان دونوں کا علحدہ ہوجانا کافی ہے ؟
نام …
جواب : زید کا اپنی بیوی ہندہ کو نکاح میں رکھتے ہوئے اس کی بھانجی زینب سے نکاح کرنا نکاح فاسد ہے ، نکاح فاسد میں علحدگی و تفریق کے لئے دونوں میں سے کسی ایک کا کہنا ’’میں نے تجھ کو، یا اس کو چھوڑدیا‘‘ کافی ہے ۔ نکاح فاسد کیا گیا بعد ازاں عاقد و عاقدہ علحدہ ہوگئے یا نکاح کا انکار کئے اور علحدہ ہوگئے تو اس سے دونوں میں تفریق نہیں ہوتی ۔ عالمگیری جلد اول ص : 330 میں ہے : والمتارکۃ فی الفاسد بعد الدخول لاتکون الا بالقول کخلیت سبیلک أو ترکتک و مجرد انکار النکاح لایکون متارکۃ … وقال صاحب المحیط و قبل الدخول، ایضالا تتحقق الا بالقول و لکل نسخہ بغیر محضر صاحبہ …
پس بشرط صحت سوال زید نے دو دوستوں کے روبرو زینب سے نکاح کا اقرار کیا تھا تو اب دونوں میں تفریق کیلئے دونوں میں سے کسی ایک کا متارکت کرنا یعنی ’’میں نے چھوڑدیا‘‘ کہنا ضروری ہے، شادی سے انکار یا علحدہ رہنے سے تفریق نہیں ہوتی۔

ظہر کی سنت
سوال : حال میں میں ظہر کی نماز ادا کر رہا تھا لیکن دوسری رکعت پر بیٹھا نہیں کھڑا ہوگیا ۔ بعد میں تیسری چوتھی رکعت مکمل کیا اور آخر میں سجدہ سہو بھی کرلیا ۔ ا یک عالم صاحب سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ آپ کی نماز ہی نہیں ہوئی ، دو رکعت کے قعدہ میں بیٹھنا ضروری تھا اور آپ نے اس کو ترک کردیا۔ ایسی صورت میں کیا حکم ہے ؟ کیا میری نماز ہوئی یا نہیں ؟
محمد نعیم ، حبیب نگر
جواب : کوئی شخص ظہر کی سنت ادا کر رہا ہو اور دو رکعت پر بیٹھنا بھول جائے اور تیسری رکعت کیلئے کھڑے ہوجائے اور اخیر میں سجدہ سہو کرلے تو شرعاً اس کی نماز مکمل ہوگئی ۔ عالمگیری جلد اول ص : 112 میں ہے : ولو صلی الاربع قبل الظھر ولم یقعد علی رأس الرکعتین جاز استحسانا کذا فی المحیط۔
اور ص : 113 میں ہے : رجل صلی أربع رکعات تطوعا ولم یقعد علی رأس الرکعتین عامدا لاتفسد صلاتہ استحسانا وھو قولھما و فی القیاس تفسد صلاتہ۔

قاضی کا جعلی طلاق نامہ جاری کرنا
سوال : میاں بیوی میں اختلافات تھے ، نباہ نہیں ہورہا تھا ، دونوں اپنے اپنے ماں باپ کے پاس تھے ، ایک مرتبہ بیٹھک ہوئی تو لڑکی کے والد نے قاضی کا طلاق نامہ سب کو بتایا کہ دونوں میں طلاق ہوچکی ہے جب کہ نہ شوہر نے طلاق دی اور نہ بیوی نے خلع طلب کیا ۔ کیا محض قاضی کے طلاق نامہ جاری کردینے سے دونوں میں طلاق ہوجاتا ہے ؟
نام مخفی
جواب : شوہر نے طلاق نہیں دی اور نہ بیوی کی درخواست خلع کو قبول کریا ہے تو محض قاضی کے طلاق نامہ جاری کرنے سے تفریق نہیں ہوتی ۔ قاضی طلاق نامہ گواہوں کی موجودگی میں شوہر کے طلاق دینے یا خلع قبول کرنے پر جاری کرتا ہے ۔ اس طلاق نامہ کی صحت کا بار قاضی پر ہے ۔ اگر وہ جھوٹا صداقت نامہ طلاق جاری کرنے کا مرتکب ثابت ہو تو محکمہ مجاز ہے اس کو عہدہ قضاء ت سے علحدہ کیا جاسکتا ہے۔

مسجد کے تحت موقوفہ زمین کا بغیر
کرایہ دیئے استعمال
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین، مسئلہ میں کہ کسی مسجد کی وقف اراضی میں مسجد کو کرایہ ادا کئے بغیر مقامی کمیٹی کا وہاں تعلیمی ورفاہی ادارہ چلانا شرعاً جائز ہے یا ناجائز؟
نام …
جواب : مسجد کی موقوفہ اراضی کی آمدنی مسجد کے مصارف میں صرف کی جانی چاہئے ۔ کسی بھی ادارہ کا بغیر کرایہ دینے سے آمدنی مسجد متاثر ہوگی ۔ لہذا اس ادارہ سے کرایہ وصول بجا ہے۔