بیوی کا تنگ آکر شوہر کو جواب دینا

سوال : میرے شوہر معمولی باتوں پر مجھ سے جھگڑا کرتے ہیں، گالی گلوج کرتے ہیں اور گھر سے نکال دیتے ہیں۔ کبھی مجبور ہوکر انسانی تقاضوں کے تحت اگر میں بحث کروں یا جواب دوں تو وہ کہتے ہیں کہ میرا حق زیادہ ہے، اس لئے میں گالی بھی دے سکتا ہوں، تم کچھ نہیں کہنا ورنہ تم گنہگار ہوں گی۔براہ کرم آپ مجھے بتایئے کہ اگر شوہر بدسلوکی کرے تو اس کو پوچھ ہوگی یا نہیں ؟ اگر بیوی شوہر کی بدسلوکی سے تنگ آکر گھر چھوڑ کر چلی جائے تو اس کا نفقہ شوہر پر ضروری ہے یا نہیں ؟
امتہ الرحیم، مراد نگر
جواب : اللہ تعالیٰ نے مردوں کو متعدد وجوہات کی بناء عورتوں پر ایک درجہ فضیلت دی ہے، مردوں کو عورتوں پر نگران بنایا، عورتوں کو معاش سے بری کر کے ان کے نفقہ کو مردوں پر لازم گردانا لیکن جہاں تک حقوق کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے دونوں کے حقوق میں مساوات و برابری کو رکھا، جس طرح عورتوں کی شوہر اور گھر سے متعلق ذمہ داریاں اور واجبات ہیں اسی طرح شوہروں پر ان کے حقوق بھی لازم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف وللرجال علیھن درجۃ الایۃ (سورۃ البقرۃ 228/2 ) ۔

ترجمہ : اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا کہ ان کی ذمہ داری ہے، بھلائی کے ساتھ اور مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فوقیت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللہ بعضھم علی بعض و بما انفقوا من اموالھم۔ ترجمہ : مرد عورتوں پر نگراں ہیں اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ وہ اپنے مال میں سے (ان پر) خرچ کرتے ہیں۔ (سورۃ النساء 34/4 ) اللہ تعالیٰ نے شوہر کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں، حسن معاشرت سے پیش آئیں اور ان کے ساتھ بھلائی اور معروف معاملہ کریں ۔ لقولہ تعالیٰ : و عاشرھن بالمعروف (سورۃ النساء 19/4 ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیث میں بیویوں کے ساتھ بھلائی اور نرمی کا معاملہ کرنے کی ترغیب دی ۔ ارشاد ہے ۔ خیرکم خیرکم لاھلہ الحدیث۔ ترجمہ : تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ بہتر ہے۔ خیر کم الطفکم باھلہ (تم میں بہترین وہ شخص ہے جو اپنے اہل خانہ پر سب سے زیادہ نرم دل ہو) اور اگر شوہر بلا وجہ بیوی پر برہم اور ہمیشہ گالی گلوج سے پیش آئے، بیوی پر زیادتی کرے تو بلا شبہ وہ گنہگار ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس ماخوذ ہوگا ۔ ایسے وقت میں بیوی کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور اگر وہ شوہر کی مسلسل زیادتیوں سے تنگ آکر بے قابو ہوجائے اور جواب دیدے تو وہ ماخوذ نہیں ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لایحب اللہ الجھر بالسوء من القول الامن ظلم (سورۃ النساء 148/4 )

بیوی اپنے شوہر کے گھر سے اس کے ناجائز مظالم و ایذاء رسانی کی وجہ سے اپنے میکے میں چلی جائے تو شرعاً اس کو ناشزہ یعنی نا فرمان نہیں کہا جاتا۔ ایسی صورت میں بیوی کو چاہئے کہ مسئلہ کی یکسوئی کیلئے حاکم کے پاس فریاد کرے یا کسی کو حکم (ثالث) مقرر کرے اور حاکم کو چاہئے کہ وہ شوہر کو متنبہ کرے اور حسن سلوک اور حسن معاشرت کی تلقین کرے اور خوف دلائے اور ظلم زیادتی سے منع کرے۔ اگر شوہر ان امور پر قاضی عدالت یا پنچایت کے پاس اقرار کرے اور بیوی اس کے پاس واپس جانے سے بلا وجہ انکار کرے تو ایسی صورت میں وہ ناشزہ یعنی نافرمان سمجھی جائے گی اور اس صورت میں تا واپسی اس کا نفقہ شوہر کے ذمہ لازم نہیں رہے گا ۔ فتاوی مہدیہ ج : 1 ، ص : 423 کی عبارت ذیل سے مفہوم ہوتا ہے : سئل فی امرأۃ خرجت من بیت زوجھا بسبب اضرار زوجھا لھا و ایذائہ لھا الایذاء الکلی و ضربہ لھا فھل یومر بحسن المعاشرۃ معھا بتقوی اللہ العلما العظیم و یمنع عن ضربھا بغیر حق و اساء تھا و اذا طلبھا بعد ذلک و امتنعت عنہ بغیر حق تکون ناشزۃ ؟ اجاب : نعم یومر بحسن معاشرتھا وتؤمر بطاعتہ ۔
پس جبکہ بیوی شوہر کے مکان سے اس کے کسی قصور کے ب غیر محض شوہر کے ستانے اور اذیت دینے سے چلی جائے تو اس کا نفقہ شوہر کو تنبیہہ کرنے تک شوہر پر لازم رہے گا ہدایہ مجتبائی کے صفحہ 422 میں مذکور ہے ۔ وکل فرقۃ جاء ت من قبل المرأۃ بمعصیۃ کخیار العتق و خیار البلوغ و التفریق لعدم الکفاء ۃ لانھا جست نفسھا بحق و ذلک لالسقط النفقۃ کما اذا جست نفسھا لاستیفا المھر اور شوہر کا کہنا کہ ’’ اس کا حق زیادہ ہے وہ گالی بھی دے سکتا ہے، تم کچھ نہیں کہنا ، ورنہ تم گنہگار ہوگی ‘‘ شرعاً بے اصل و لغو ہے۔

جمعہ کے دن اردو تقریر کے دوران سنت پڑھنا
سوال : میں ایک مسجد میں جمعہ پڑھنے کیلئے گیا، مجھے وقت کا علم نہ تھا، کافی دیر پہلے میں مسجد پہنچ گیا، پندرہ منٹ بعد خطیب صاحب نے اردو تقریر کی۔ دوران تقریر قریبی صف میں ایک شخص نے جمعہ سے قبل کی سنت پڑھنا شروع کردی، یہ بات خطیب صاحب کواچھی معلوم نہیں ہوئی ۔ انہوں نے اردو تقریر کے دوران اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو تقریر کے دوران سنت نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے ۔ خطیب صاحب کے اس بیان سے مجھے اطمینان نہیں ہوا کیونکہ اردو تقریر عموماً ہمارے ہندوستان ، پاکستان میں ہوتی ہے ۔ سعودی عرب و دیگر ممالک میں صرف دو ہی خطبے عربی میں ہوتے ہیں تو کس طرح اردو تقریر کے دوران سنت پڑھنا صحیح نہیں ہوسکتا۔
براہ کرم میرے اس سوال کا جواب جلد سے جلد اپنے شرعی کالم کے ذریعہ دیں تو نہ صرف میرے بلکہ کئی ایک افراد کے معلومات میں اضافہ ہوگا ؟
شیخ فرید الدین، ملک پیٹ
جواب : جمعہ کا پہلا عربی خطبہ شروع کرنے کیلئے امام کے قیام سے دونوں خطبے ختم کرنے تک بلکہ نماز جمعہ پڑھ لینے تک سنت ہو یا نفل اور بات کرنا شرعاً مکروہ ہے ۔ در مختار کتاب الصلاۃ باب الجمعہ میں ہے : (واذا خرج الامام) من الحجرۃ ان کان والا فقیام للصعود شرح المجمع (فلا صلاۃ) ولا کلام (الی یتمامھا ۔ ردالمحتار میں ہے : و غایۃ البیان انھما یکرھان من حین یخرج الامام الی ان یفرغ من الصلاۃ ۔ پس خطیب صاحب کا جمعہ کے دن اردو تقریر کے دوران سنت پڑھنے کو صحیح قرار نہیں دینا شرعاً درست نہیں ۔

کاہل، تندرست افراد کی امداد
سوال : راہ چلتے ہوئے اکثر ایسا ہوتاہے کہ کوئی غریب مسکین صورت بناکر اپنی مفلسی کا اظہار کرتے ہوئے مختلف طریقوں سے اپنی حاجت بیان کرتے ہیں۔ کوئی بچی کی شادی کے لئے تو کوئی پیسے گم ہونے کے سبب سفر کے اخراجات تو کوئی بیمار شوہر کیلئے مانگتا ہے۔ ہر شخص اپنی اپنی استطاعت کے مطابق ان ضرورت مندوں کی حتی المقدور مدد کرتاہے لیکن آج کل ضرورتمند سے زیادہ کاہل اور کام چورافراد محنت و مشقت سے کام چراتے ہوئے مختلف بہانوں سے بھیک مانگ کر اپنا پیٹ پال رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ کبھی کبھی حقیقی ضرورتمند کو بھی نظرانداز کرتے رہے ہیں لیکن ان کو نظر انداز کردئے جانے کے بعد دیر تک ضمیر ملامت کرتا ہیکہ شاید وہ شخص حقیقی ضرورتمند ہو۔ ہمیں اس کی مدد کردینی چاہئے۔ آپ سے جاننا یہ ہے کہ کیا ہم جو ضرورتمند نہیں ہیں ان کی بھی مدد کرسکتے ہیں ؟ یا حقیقی ضرورتمند کی ہی مدد کرنی چاہئے ؟
فاطمہ حسن، مانصاحب ٹینک
جواب : غریبوں کی مدد، فقیروں و محتاجوں کی اعانت کرنا اخلاق حمیدہ میں سے ہے۔ اسلام نے داد و دہش ، سخاوت، راہ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے لیکن جو لوگ طاقت و قوت ، قدرت و وسعت کے باوجود لوگوں سے مانگا کرتے ہیں ان کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعیدیں بیان فرمائی ہیں۔ چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی مال کی کثرت کے لئے لوگوں سے بھیک مانگتا ہے، حقیقت میں وہ آگ کا سوال کر رہا ہے۔ آدمی کو اختیار ہے چاہے آگ کم طلب کرے یا زیادہ۔ عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من سال الناس اموالھم تکثرا فانما یسئل جمرا فلیستقل او لیستکثر رواہ المسلم ۔ (مشکوۃ المصابیح باب من لاتحل لہ المسئلۃ و من تحل ص : 162 )
حضرت عبداللہ بن عمرو کی روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مالدار اور صحت مند طاقتور آدمی کو صدقہ دینا حلال نہیں۔
و عن عبداللہ بن عمرو قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تحل الصدقۃ لغنی و لالذی مرۃ سوی رواہ الترمذی و ابو داؤد (مشکوۃ المصابیح ص : 161)
نیز حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقعہ پر صدقات تقسیم فرما رہے تھے تو دو سخت تندرست آدمیوں نے آپ سے صدقہ کا سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف نگاہ بلند فرمائی پھر نگاہ نیچی فرمائی اور فرمایا: اگر تم چاہو تو میں تم کو عطا کردوں گا لیکن صدقہ میں کسی مالدار، کمانے والے طاقتور کے لئے کوئی حصہ نہیں۔
عن عبید اللہ بن عدی الخیار قال اخبرنی رجلان انھما اتیا النبی صلی اللہ علیہ وسلم وھو فی حجۃ الوداع و ھو یقسم الصدقۃ فسالاہ منھا فرفع فینا النظر و خفضہ فرانا جلدین فقال ان شئتکما اعطیتکما ولا حظ فیھا لغنی ولا قوی مکتسب رواہ ابو داؤد و النسائی۔ (مشکوۃ المصابیح باب من لا تحل الیہ الصدقۃ الفصل الثانی ص : 171 )
صورت مسؤل عنھا میں آپ ا پنی تحقیق کے مطابق جس کو دینا مناسب سمجھتے ہوں دے سکتے ہیں اور جس کو مناسب نہیں سمجھتے آپ کو اختیار ہے۔

حضور نبی کریم ؐ کے زلف مبارک
سوال : حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اقدس کے بال مبارک کہاں تک رہتے تھے، اس سلسلہ میں مختلف باتیں سننے میں آتی ہیں۔ براہ کرم تشفی بخش جواب دیں، اس سے کئی حضرات کی الجھنیں ختم ہوں گی ؟
محمد یعقوب، خیریت آباد
جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زلف مبارک نصف گوش تک رہتے۔ کان شعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی انصاف اذنیہ (مسلم : کتاب الفضائل، باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زلف مبارک کی صفت سے متعلق احادیث میں ’’وفرۃ ‘‘ ، ’’ لمۃ ‘‘ ، ’’ جمۃ‘‘ کے کلمات وارد ہوئے ہیں۔ وفرہ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زلف مبارک کان کی لو سے متجاوز نہیں ہوتے تھے۔ ’’ لمۃ ‘‘ کی تفسیر اس بال سے کی گئی جو کان کی لو سے نیچے اترتے ہیں اور ’’ جمۃ‘‘ ایسے بال کو کہتے ہیں جو مونڈھوں پر اترتے ہیں۔سیرت حلبیہ ج : 3 ص : 333 میں ہے : لم یجاوز شعرہ شحمۃ اذنہ اذا ھو وفرۃ… و حاصل الاحادیث ان شعرہ وصف بانہ ’’ جمۃ ‘‘ ، و وصف بانہ ’’ وفرۃ ‘‘ و وصف بانہ ’’ لمۃ ‘‘ ۔ و فسرت اللمۃ بالشعر الذی ینزل علی شحمۃ الاذن و الجمۃ بالذی ینزل علی المنکبین۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زلف اقدس مختلف احوال میں مختلف ہوا کرتے۔ کبھی کم رہتے اور کبھی طویل ہوجاتے۔ جب زلف مبارک کی اصلاح میں تاخیر ہوجاتی تو وہ مونڈھوں تک پہنچ جاتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصلاح فرماتے تو کبھی وہ کان کی لو سے نیچے اترتے اور کبھی نیچے نہیں اترتے۔
اسی میں ہے۔ قال بعضھم : کان شعرہ صلی اللہ علیہ وسلم یقصر و یطول بحسب الاوقات، فاذا غفل عن تفصیرہ وصل الی منکبہ ، و اذا قصرہ تارۃ ینزل عن شحمۃ اذنہ و تارۃ لاینزل عنھا۔