بیوی اگر عیسائی مذہب قبول کرلے ؟

سوال :  زید نے ہندہ (مسلمان خاتون) سے نکاح کیا ، کچھ عرصہ بعد ہندہ نے عیسائی مذہب اختیار کرلیا ۔ اب کیا کرنا چاہئے۔ ان دونوں کا نکاح باقی ہے یا نہیں ؟
نام …
جواب :  صورت مسئول عنھا میں ہندہ نصرا نی مذہب قبول کرنے سے مرتد ہوگئی اور بغیر طلاق کے اس کا نکاح ختم ہوگیا فتاوی تاتار خانیہ ج 3 ص : 177 نوع منہ فی نکاح المرتد میں ہے ۔ اذا ارتد أحد الزوجین وقعت الفرقۃ بینھما فی الحال ھذا جواب ظاہرالروایۃ ص : 178 میں ہے ۔ وتکون ھذہ فرقۃ بغیر طلاق عندأ بی حنیفۃ و أبی یوسف (رحمھما اللہ) البتہ شوہر کو چاہئے کہ اس (ھندہ) کو ترغیب دیکر پھر اسلام کی طرف لانے کی کوشش کرے ۔ اگر وہ دوبارہ اسلام قبول کرلے تو زید اس سے دوبارہ نکاح کرلے۔
مرتدہ نصرانیہ اگر وہ ارتداد پر باقی رہے تو کسی کو بھی اس سے نکاح کی اجازت نہیں۔ عالمگیری جلد اول ص : 282 میں ہے ۔ ولا یجوز للمرتد ان یتزوج مرتدۃ ولا مسلمۃ ولا کافرۃ اصلیۃ و کذلک لا یجوز نکاح المرتدۃ مع أحد کذا فی المبسوط ۔

گاؤں میں جمعہ ادا کرنا
سوال :  ہمارے موضع میں تقریباً ایک ہزار لوگ رہتے ہیں جس میں ایک سو مسلمان آباد ہیں ۔ چار ماہ قبل وہاں مسلمانوں نے ایک مسجد تعمیر کرلی اور باجماعت نمازیں ہورہی ہیں اب اس مسجد میں جمعہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کی رائے کیا ہے ؟
مودود ، گنتکل
جواب :  شرعاً صحت جمعہ کے لئے’’ مصر‘‘ (شہر) ضروری ہے ۔ اگر آپ کے  موضع میں مسلمان اس قدر تعداد میں ہیں کہ تمام گاؤں کے مسلمان اس مسجد میں جمع ہوجائیں تو مسجد ان کے لئے ناکافی ہوتی ہے تو یہ گاؤں شرعاً ’’ مصر‘‘ کے حکم میں آئے گا اور وہاں جمعہ ادا کرنا درست ہوگا اور اگر ایسی صورت نہ ہو تو گاؤں والے ظہر کی نماز باجماعت پڑھیں۔ در  مختار کتاب الصلاۃ باب الجمعۃ میں ہے (و یشترط لصحتھا) سبعۃ اشیاء الأول (المصر و ھو مالا یسع أکبر مساجدہ اھلہ المکلفین بھا) و علیہ فتوی اکثر الفقھاء مجتبی لظھور التوانی فی الأحکام۔

بے نمازی کی نماز جنازہ
سوال :  ایک شخص نے ایک غیر مسلم لڑکی سے شادی کی، وہ لڑکی اسلام قبول کرلی۔ اس کو بیوی سے دو لڑکیاں اور ایک لڑکا تولد ہوا۔ غلط ماحول کی وجہ سے نماز روزہ سے بالکل عاری تھا جبکہ اس کا باپ نماز کا پابند اور مسجد کاماہانہ چندہ وغیرہ ادا کرتا ہے ۔ اس لڑکے کا انتقال ہوگیا۔ کیا اس کو مسلم قبرستان میں دفن کیا جائے گا ؟ کیونکہ وہ جمعہ و عید بھی نہیں پڑھتا تھا ۔ اس لڑکے نے پراویڈنٹ فنڈ اور سرویس کی رقم متروکہ میں چھوڑی ہے اس کے ورثاء میں ایک بیوی ، والدین ، دو لڑکے اور ایک لڑکی ہیں۔ ایسی صورت میں اس کی متروکہ جائیداد کی تقسیم کس طرح ہوگی ؟
فردوس خاں مقطعہ مدار
جواب :  بے نمازی اور روزے چھوڑنے والا بے عمل شخص فاسق و فاجر ہے اور اہل السنت والجماعت کے عقیدہ میں ازروئے اجماع امت فاجر و فاسق مرجائے تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کو مسلم قبرستان میں دفن بھی کیا جائے گا ۔ شرح عقائد نسفی مطبوعہ یوسفی ص : 115 میں ہے۔ (و یصلی علی کل بر و فاجر) اذا مات علی الایمان للاجماع و لقولہ علیہ السلام : لا تدعوا الصلاۃ علی من مات من أہل القبلۃ اور الجوھرۃ النیرۃ باب الجنائز ص : 107 میں ہے ۔ قال علیہ السلام صلوا علی من قال لا الہ الا اللہ ولا خلاف فی ذلک ۔ اور در مختار برحاشیہ رد المحتار جلد اول باب الجنائز ص : 643 میں ہے ۔ (من قتل نفسہ و لو (عمدا یغسل و یصلی علیہ ) بہ یفتی رد المحتار میں ہے (قولہ بہ یفتی) لانہ فاسق غیر ساع فی الارض بالفساد و ان کان باغیا علی نفسہ کسائر فساق المسلمین ۔
پس صورت مسئول عنہا میں اس شخص پر نماز جنازہ پڑھی جائے اور اس کو مسلم قبرستان میں دفن کیا جائے۔ اس کی متروکہ رقومات سے تجہیز و تکفین کے مصارف وضع کئے جاکر جس نے خرچ کئے ہیں اس کو دیئے جائیں ، پھر مرحوم کا قرض اور بیوہ کا زر مہر ادا کیا جائے ۔ اس کے بعد مرحوم نے اگر کسی غیر وارث کے حق میں کوئی وصیت کی ہو تو بقیہ مال کے تیسرے حصہ سے اس کی تعمیل کی جائے ۔ بعد ازاں جو باقی رہے اس کے ایک سو بیس حصے کر کے بیوہ کو پندرہ ، ماں باپ سے ہر ایک کو بیس بیس ، دونوں لڑکوں کو چھبیس چھبیس اور لڑکی کو تیرہ حصے دیئے جائیں۔

وضو میں پانی کا اسراف
سوال :  ہر مسجد میں وضو کیلئے نل کا انتظام کیا گیا ہے ۔ لگاتار نل کو چالو رکھ کر وضو کرتے ہیں۔ پانی کافی ضائع ہوتا ہے جبکہ پانی زیادہ استعمال کرنا منع ہے۔ جس مسجد میں نل کا انتظام نہیں ہے وہاں پر لوٹے برتن میں پانی لیکر وضو کیا جاتا ہے ۔ شریعت میں کیا حکم ہے ؟
نام…
جواب :  شریعت میں اسراف یعنی بے ضرورت، بیجا استعمال ، فضول خرچی منع ہے۔ حتی کہ وضو میں بھی اسراف پسندیدہ نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہتی دریا کے پاس بھی بیجا پانی کے استعمال کو پسند نہیں فرمایا، اس لئے نل ہو یا لوٹے برتن ہر چیز میں بقدر ضرورت پانی کے استعمال کی کوشش کرنی چاہئے۔

بعد انتقال جائیداد کی تقسیم
سوال :  میں ، بیوی اور میرا لڑکا ایک مکان میں رہتے ہیں، یہ ذاتی مکان ہے جو میرے نام پر ہے۔ مجھ کو صرف ا یک لڑکا ہے۔ میرے بعد اس مکان کا کتنا حصہ بیوی اور میرے لڑکے کو ملے گا۔
میر محمود علی، کنل گوڑہ، حیدرآباد
جواب :  صاحب جائیداد کے انتقال کے ساتھ ہی اس کی جائیداد میں اس وقت موجود اس کے ورثہ کا حق متعلق ہوجاتا ہے ۔ اگر آپ کے انتقال کے وقت آپ کی بیوی اور لڑکا دونوں بقید حیات رہیں اور ان کے علاوہ کوئی وارث مثلاً ماں ، باپ نہ ہوں تو بیوی کو بعد ادائی حقوق متقدمہ علی المیراث آٹھواں حصہ اور لڑکے کو مابقی سات حصے ملیں گے ۔

خانہ کعبہ کی تعمیر
سوال :  خانہ کعبہ کی تعمیر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قبل ہوئی یا بعد میں ۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قبل خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل ہوچکی تھی ۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کا واقعہ ہے کیونکہ حجر اسود کو رکھتے وقت اختلاف رائے ہوا تو سبھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو قبول کیا تو انہوں نے انکار کردیا۔
مجھے آپ سے معلوم کرنا یہ ہے کہ حقیقت میں کعبۃ اللہ کی تعمیر کے وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قبائل کے اتفاق سے حجر اسود رکھا تھا یا نہیں ؟ یہ واقعہ اگر معتبر ہے تو تاریخ کی کس کتاب میں مل سکتا ہے ۔
عبدالوحید خان، نیو ملے پلی
جواب :  سیرت ابن ہشام سیرت کی کتابوں میں اہم کتاب ہے اور اس کتاب کو مرجع و مصدر کا درجہ حاصل ہے۔ اس کتاب کی جلد 1 ص : 204 تا 209 میں خانہ کعبہ کی تعمیر سے متعلق تفصیل ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کعبہ شریف کے پردوں کو بخور سے دھونی دی جاتی تھی ، ایک دن ہوا کی شدت سے چنگاریوں نے پردوں کو آگ لگادی ۔ عمارت کمزور ہوگئی تھی ، کچھ دنوں بعد موسلا دھار بارش ہوئی تو عمارت بیٹھ گئی ۔ تعمیر جدید کے لئے صرف اکل حلال سے چندہ کیا گیا ۔ سود خواروں اور قحبہ خانوں سے رقم قبول نہ کی گئی ۔ انہیں دنوں مکہ کے قریب شعیبیہ (جدہ) میں ایک کشتی جو مصر سے آرہی تھی ، ٹوٹ گئی ۔ کچھ لوگ زندہ بچے اور کچھ سامان بھی بچایا جاسکا ، جس میں شکستہ کشتی کے تختے بھی تھے ۔ اہل مکہ نے ان کا سارا سامان حتیٰ کہ کشتی کے تختے بھی خرید لئے تاکہ کعبہ کی چھت میں لگائیں ۔ اہل مکہ نے پہلے ملبہ صاف کیا اور پرانی بنیادیں برآمد کر کے نئی دیواریں کھڑی کرنا شروع کیں۔ قبائل شہر نے کام بانٹ لیا اور ہر دیوار معین گھرانوں کے سپرد ہوگئی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس موقع پر کام کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پتھر اپنے کندھوں پر اٹھا کر لاتے رہے، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک شانے زخمی بھی ہوگئے ۔ چار دیواری کوئی گز بھر بلند ہوئی تو ایک دشواری پیدا ہوگئی ۔ کعبہ کے دروازے کی مغربی دیوار کے زاویے میں حجر اسود کو نصب کرنا تھا۔ اس اعزاز کو حاصل کرنے کے لئے رقابت شروع ہوگئی اور قریب تھا کہ خون خرابہ ہوجائے کہ ایک بوڑھے ابو امیہ حذیفہ بن مغیرہ نے جھگڑے کو ختم کرنے کیلئے مشورہ دیا کہ اس وقت جو شخص سب سے پہلے مسجد کے دروازے سے اندر آئے ، انہیں حکم بناؤ ۔ سب نے قبول کیا ۔ اتفاق سے یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو کام کرنے کے لئے تشریف لارہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر سب لوگ پکار اٹھے : ھذا الامین رضینا بہ ، یعنی یہ تو امین ہیں ، ہم سب ان کے فیصلے پر راضی ہیں (ابن الجوزی نے بھی اس واقعہ کو نقل کیا ہے ، ص 148 )
قصہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر بچھائی ، پتھر کو اس پر رکھا اور چادر کے کونے قبائل کے نمائندوں نے پکڑ کر اٹھائے اور دیوار کے قریب کیا ۔ وہاں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پتھر کو اٹھاکر اس کی جگہ نصب کردیا ۔ (ابن ہشام ، السیرۃ ، 204:1 تا 209 )

عامل کی اقتداء
سوال :  ایک عامل ہیں ، وہ عملیات کرتے ہیں۔ صدقے اتارتے ہیں، خواتین کا اژدھام ہوتا ہے ۔ تعویذ پلیدے بھی کرتے ہیں۔ روپیہ  پیسہ وصول کرتے ہیں۔ عامل صاحب محلے کی مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیتے ہیں۔ جمعہ کی فرض نماز پڑھاتے ہیں۔ مصلیوں کا اعتراض ہے اور کہنا ہے کہ ان کے پیچھے نماز ادا نہیں ہوتی۔ آپ سے التجا اور التماس ہے کہ اس مسئلہ میں صحیح رہنمائی فرمائیں تو نوازش ہوگی ؟
رشیدہ خانم، پرانی حویلی
جواب :  اگر امام صاحب قرآنی آیات اور عربی اوراد و وظائف سے علاج کرتے ہیں تو شرعاً یہ عمل جائز ہے اور ان کی اقتداء درست ہے اور اگر وہ سفلی عملیات یا کفریہ و شرکیہ عمل کرتے ہیں تو ایسے امام کی اقتداء درست نہیں۔ اگر وہ توبہ کرلیں اوراپنے عمل سے رک جائیں تو ان کی اقتداء جائز ہے۔

طہارت سے متعلق ایک مسئلہ
سوال :  ایک قطرہ منی کا خارج ہوجانے کی صورت میں کیا انسان ناپاک ہوجاتا ہے اور غسل واجب ہوجاتا ہے یا وہ پاک ہی رہتا ہے اور نماز ادا کرسکتا ہے اور قرآن مجید کی تلاوت کرسکتا ہے ؟
نام …
جواب :  اپنے مقام سے شھوت کے ساتھ نکلنے والے منی کے قطرہ سے غسل واجب ہوجاتا ہے ۔ دوسری صورت یہ کہ اپنے مقام سے شھوت سے منی کا اخراج ہوا اور کچھ قطرات اندر رہ گئے ، بعد غسل اگر وہ قطرے نکلیں تب بھی غسل واجب ہے۔ مذکورہ دونوں صورتوں میں نماز نہیں ادا کرسکتا اور نہ ہی تلاوت قرآن اس کیلئے جائز ہے۔