بینکوں کے ملازمین میں تخفیف ، نوجوانوں کا روزگار متاثر

نئی نسل کو روزگار کا حصول مشکل

بینک انضمام کی پالیسی پر عمل سے شہریوں کو، ملازمین کو مشکلات
حیدرآباد۔20ڈسمبر(سیاست نیوز) ملک میں بے روزگاری کی شرح تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے اور اس صورتحال میں بینکوں کے انضمام کے فیصلہ کے منفی اثرات روزگار کے منتظر نوجوانوں کے مستقبل پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ 26 عوامی شعبہ کے بینکوں کو 6 بینکوں میں ضم کئے جانے کی صورت میں بینک کاری نظام متاثر نہیں ہوگا لیکن بینکوں میں خدمات انجام دینے والے ملازمین کی تخفیف کا عمل شروع ہوجائے گا اور نئی نسل کو روزگار کے مواقع دستیاب نہیں ہوں گے۔ بتایاجاتاہے کہ انضمام کے متعلق کئی بینکوں کی ملازمین یونین کی جانب سے مخالفت کی جارہی ہے اور کہا جا رہاہے کہ انضمام کے نام پر حکومت کی جانب سے ملازمتوں میں تخفیف کی پالیسی اختیار کی جا رہی ہے جس کے سبب عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ملک میں بینکوں کے انضمام کی تجویز حکومت کی جانب سے اس لئے تیار کی گئی ہے کیونکہ اس کے ذریعہ اخراجات میں کمی کو یقینی بنایا جا سکے لیکن یہ کس طرح سے ممکن ہوگا اس بات کی نشاندہی نہیں کی جا رہی ہے بلکہ یہ کہا جا رہاہے کہ اس طرح بینکوں کی آمدنی میں اضافہ ہونے لگے گا اور حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا کیونکہ عوامی شعبہ کے ان بینکوں میں 50 فیصد اثاثہ حکومت کے ہوتے ہیں اور حکومت اپنے مفادات کو مدنظررکھے ہوئے ہے جبکہ عوامی مفادات او ر ملازمین کے مفادات کو خاطر میں نہیں لایا جارہا ہے۔ بینک ملازمین کے ذمہ داروں کا کہناہے کہ ان بینکوں کے انضمام کے بعد ان کی حالت بھی اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی طرح ہوجائے گی اور ان بینکو ںمیں بھی کھاتہ داروں کو بھاری رقم اقل ترین ڈپازٹ رکھنی پڑے گی جس کے سبب غریب عوام کو بینک کھاتوں سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے۔ بینک عہدیداروں نے بتایا کہ انضمام سے ہی مسئلہ حل نہیں ہوجاتا اس بات کا ثبوت اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے انضمام سے مل چکا ہے کیونکہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے علاوہ ضم کئے بینکوں میں سیونگ بینک کھاتوں کیلئے 500 روپئے کافی ہوا کرتے تھے لیکن اسٹیٹ بینک آف انڈیا میں دیگر اسٹیٹ بینکوں کے انضمام کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی اس سے سب واقف ہیں اور اس طرح کے سخت گیر فیصلوں سے عام شہری اور ملازم طبقہ جو بینکوں میں اپنی تنخواہ کی منتقلی کے لئے کھاتوں کا استعمال کرتا ہے اسے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ انہیں اقل ترین رقومات کے نام پر ہزاروں روپئے کھاتہ میں جمع رکھنے پڑیں گے جس کے سبب صورتحال انتہائی ابتر ہوسکتی ہے۔