بیعت کی اہمیت

سوال : اسلام میں پیری مریدی کی کیا اہمیت ہے ، مرید بنانے کیلئے کیا اپنے مرشد کی اجازت ضروری ہے یا نہیں ؟ اس سلسلہ میں شرعی رہنمائی فرمائیں تو باعث تشکر۔
عارف احمد، حیدرگوڑہ
جواب : ایمان اور تقویٰ یعنی نیک اعمال و کارخیر کرنے اور برائیوں سے بچنے کیلئے بیعت لینا قرآن مجید اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ان الذین یبا یعونک انما یبا یعون اللہ… الایہ یعنی جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے ہیں وہ حقیقت میں اللہ سے بیعت کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا دست قدرت ان کے ہاتھوں پر ہے ۔ پس جو کوئی (بیعت کو) توڑتا ہے ، وہ اپنے نفس ہی کیلئے توڑتا ہے اور جو اللہ سے کئے گئے معاہدہ کو پورا کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اجر عظیم عطا فرماتا ہے۔ (سورۃ الفتح 10/18 ) سورۃ الحشر کے اختتام پر ہے ۔ یایھا النبی اذا جائک المومنت یبا یعنک علی ان لا یشرکن باللہ شیئا الایہ۔

ترجمہ : اے نبیؐ جب آپ کی خدمت میں مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کیلئے حاضر ہوں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی اور چوری نہیں کریں گی اور بدکاری نہیں کریں گی اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان سے کوئی جھوٹا بہتان گھڑ کرنہیں لائیں گی اور کسی بھی معروف (بھلائی) میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی تو آپ ان سے بیعت لے لیا کریں اور ان کیلئے اللہ سے بخشش طلب فرمائیں ۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے (سورہ الممتحنہ ۔ 12/60 )

سورۃ الفتح میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لقد رضی اللہ عن المؤمنین اذیبا یعونک تحت الشجرۃ الایہ ۔ بے شک اللہ مومنین سے راضی ہوگیا۔جب وہ (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے پس اللہ کو معلوم ہے جو ان کے دلوں میں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان پر تسکین نازل فرمائی اور انہیں بہت ہی قریب فتح کا انعام عطا کیا۔ (سورہ الفتح 18/48 )

متذکرہ آیات قرآنی کی روشنی میں صحابہ و صحابیات کا ایمان کے سواء اعمال خیر کی بجا آوری اور فواحش و منکرات سے بچنے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کرنا ثابت ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد صحابہ کرام کے اجماع سے حضرت ابوبکر صدیق رصی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے ۔ سب نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دست مبارک پر بیعت کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کا وقت آیا تو آپ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ نامزد کردیا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بعد خلافت کیلئے ایک مجلس شوری مقرر کی اور اس مجلس شوری نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا، بعد ازاں اسی طریقہ پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کا اعلان ہوا۔
پس انہی طریقہ ہائے خلافت پر جانشین نامزد کرنے اور بیعت لینے کی اہلیت و استحقاق کی بنیاد رکھی گئی ۔ چنانچہ اگر کوئی سجادہ نشین صاحب اجازت بزرگ انتقال کرجائیں اور انہوں نے اپنا جانشین نامزد نہ کیا ہو تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے مطابق تمام مریدین و وابستگان سلسلہ کے اتفاقی فیصلہ سے کسی کو جانشین نامزد کیا جائے گا اور وہ بیعت لینے ، ارادت میں داخل کرنے کا مجاز گردانا جائے گا ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ صاحب اجازت بزرگ اپنی حین حیات اپنا جانشین نامزد کریں جس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نامزد کیا تھا۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ صاحب اجازت بزرگ کسی کو جانشین نامزد نہ کریں لیکن زندگی میں چند افراد کو خلافت واجازت دیئے ہوں تو وہ خلفاء باہمی رضامندی سے کسی کو جانشین نامزد کرسکتے ہیں جس طرح کے مجلس شوریٰ کے فیصلہ سے حضرت عثمان غنی رصی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کی خلافت عمل میں آئی تھی ۔تفصیل کیلئے دیکھئے ۔ فتاوی صدارت العالیہ مولفہ حضرت مولانا مفتی عبدالرحیمؒ)لہذا مرید بنانے کیلئے باضابطہ کسی صاحب اجازت بزرگ سے اجازت و خلافت ضروری ہے اور ثبوت خلافت کیلئے بینۂ شرعیہ یا شہادت شرعی لازم ہے اور یہ حکم حجت کی تکمیل کیلئے ہے۔ اگرچہ خلافت باطنی کیفیت کی منتقلی کا نام ہے جو اویسی نسبت سے بھی حاصل ہوسکتی ہے لیکن اس راہ میں کشف و خواب شخصی و اختیاری معاملہ ہے، بینۂ شرعیہ نہیں۔

جمعہ کا خطبہ
سوال : جمعہ کا خطبہ نماز جمعہ سے قبل ادا کیا جانا چاہئے یا نماز جمعہ کے بعد بھی ادا کرسکتے ہیں۔ جمعہ کی نماز سے قبل خطبہ کا رواج عام ہے ۔ اگر بعد نماز جمعہ خطبہ دیا جائے تو کیا حکم ہے ؟
ای میل
جواب : خطبہ جمعہ ، نماز جمعہ کیلئے شرط ہے اور شرط مقدم ہوتی ہے یعنی جمعہ کی نماز سے قبل جمعہ کا خطبہ دینا ضروری ہے اور اگر نماز جمعہ کے بعد دیا جائے تو نماز جمعہ ادا نہیں ہوگی۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد دوم ص : 159 میں ہے : (و) الرابعَ (الخطبۃ فیہ) فلو خطب قبلہ و صلی فیہ لم تصح (و) الخامس : (کونہا قبلھا) لان شرط الشئی سابق علیہ (یحضر : جماعۃ تنعقدبھم) الفقہ علی المذاھب الاربعۃ جلد اول ص : 609 میں ہے : (الحنفیۃ قالوا : شروط صحۃ الخطبۃ ستۃ : ان تکون قبل الصلوۃ ان تکون بقصد الخطبۃ۔

جلسہ تعزیت کرنا
سوال : کسی کا انتقال ہوجاتا ہے تو ان کی خدمات اور کارناموں کو بیان کرنے اور اظہار ہمدردی کرنے کیلئے جلسہ تعزیت منعقد کئے جاتے ہیں۔ ازروئے شرع جلسہ تعزیت منعقد کرنا درست ہے یا نہیں۔
محمد عبدالشکور، ٹولی چوکی
جواب : حدیث شریف میں ہے ’’اذکروا محاسن موتاکم و کفوا عن مساویھم‘‘ (تم اپنے مرحومین کے محاسن و خوبیوں کو بیان کرو اور ان کے برائیوں سے رکجاؤ) اس کی روایت ابو داود ترمذی نے کی ہے۔ بخاری کی روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مرفوعاً روایت ہے ’’لاتسبوا الاموات مرنے والوں کو برا بھلا مت کہو۔ نسائی شریف میں منصور بن صفدر سے روایت کرتے ہیں وہ اپنی والدہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو کسی مرنے والے کا برائی سے ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لاتذکروا ھلکاکم الا بخیر تم اپنے مرنے والوں کے صرف اور صرف بھلائی سے ذکر کیا کرو۔

پس کسی شخص کے انقال کے بعد اس کے خدمات و کارناموں کو خراج عقیدت دینے کیلئے اور اظہار تعزیت و ہمدردی کی خاطر جلسہ تعزیت منعقد کرنے میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے ۔ تاہم مرنے والے کی تعریف و توصیف میں مبالغہ سے اجتناب کرنا چاہئے ۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد دوم ص: 259 میں ہے : ولا بأس بنقلہ قبل دفنہ و بالا علام بموتہ و بارثائہ بشعراو غیرہ لکن یکرہ الافراط فی مدحہ۔

غیر مسلم بچوں سے حساب و کتاب
سوال : بہت سے غیر مسلم بچے فوت ہوجاتے ہیں ، کوئی تو بعد ولادت یا سال دو سال کے بعد ہی فوت ہوجاتے ہیں۔ ان بچوں کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ کیا وہ جنت میں داخل ہوں گے یا نہیں ہوں گے ؟
عطوفہ سمرین ، فتح دروازہ

جواب : … بچے جو بچپن ہی میں شعور و تمیز اور بلوغ کی عمر کو پہنچنے سے قبل فوت ہوجاتے ہیں تو ان کے بارے میں فقھاء نے سکوت کو ترجیح دی ہے۔ ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے۔ امام محمدؒ سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو بغیر جرم و گناہ کے سزا نہیں دیتا۔ صحیح ترین قول کے مطابق ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے ۔ ردالمحتار جلد دوم ص: 208 میں ہے : وقد اختلف فی سوال اطفال المشرکین و فی دخولھم الجنۃ و النار فتردد فیھم ابوجنیفۃ وغیرہ ، وقد وردت فیھم اخبار متعارفۃ فالسبیل تفویض امرھم الی اللہ تعالیٰ وقال محمد بن الحسن : اعلم ان اللہ لا یعذب احدا بلا ذنب ہ …الروایۃ الصحیحۃ عنہ انھم فی المشیئۃ لظاھرالحدیث الصحیح ’’اللہ اعلم بما کانوا عاملین‘‘۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عمرہ کرنا
سوال : میں جدہ میں مقیم ہوں، جب بھی مجھے موقع ملتا ہے تو مکہ مکرمہ کو عمرہ کی نیت سے جاتا ہوں اور عمرہ ادا کر کے واپس ہوتا ہوں۔ میں نے اپنے والدین ، دادا ، دادی ، بھائی بہنوں کی طرف سے عمرہ کئے ہیں اور بطور خاص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی عمرے کیا ہوں۔ بعص حضرات کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے درود و سلام پڑھ سکتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے وسیلہ کی دعاء کرسکتے ہیں لیکن کوئی کارخیر مثلاً عمرہ ، تلاوت قرآن وغیرہ پڑھ کے اس کا ثواب نہیں گزران سکتے۔ اس سلسلہ میں میری رہنمائی فرمائیں تو عین نوازش و کرم ہوگا۔
محمد عمران، ای میل

جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے عمرہ کرنا، قربانی کرنا، حج کرنا، تلاوت قرآن کا ثواب گزرانا شرعاً جائز ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین اور اجلہ اسلاف سے ثابت ہے ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وصیت کے بغیر متعدد مرتبہ عمرہ کئے ہیں۔رد المحتار جلد دوم ص : 264 میں ہے : الاتری ان ابن عمر کان یعتمر عنہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر ابعد موتہ من غیر وضیۃ، و حج ابن الموفق وھو فی طبقۃ الجند عنہ سبعین حجۃ و ختم ابن السراج عنہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر من عشرۃ آلاف ختمۃ و ضحی عنہ مثل ذلک … ومن جملۃ ما نقلہ ان ابن عقیل من الجنابلۃ قال یستحب اھداء ھا لہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ قلت : و قولہ علمائنا لہ ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ یدخل فیہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فانہ احق بذلک حیث انقذ نا من الضلالۃ ففی ذلک نوع شکر۔

خطبہ ثانیہ پہلے پڑھنا
سوال : میں ایک مسجد کو جمعہ کی نماز ادا کرنے کیلئے گیا۔ وہاں خطیب صاحب نے جمع کے خطبہ میں پہلے خطبہ ثانیہ پڑھا پھر وہ بیٹھے بعد ازاں خطبہ اولی پڑھتے یعنی خطبہ اولی کو بعد میں خظبہ ثانیہ کو پہلے پڑھے۔ ایسی صورت میں خطبہ جمعہ ادا ہوئی یا نہیں ؟ وضاحت فرمائیں ۔
ای میل
جواب : خطبہ اولی میں بعد حمد و صلوۃ کسی قرآن مجید کی آیت شریفہ کی تلاوت اور وعظ و نصیحت کی جاتی ہے اور خطبہ ثانیہ میں درود شرف ، خلفاء راشدین ازواج مطھرات بی بی فاطمہ حسنین کریمین حضرت حمزہ و حضرت عباس رضی اللہ عنھم کے اسماء کے علاوہ عام مسلمانوں کے لئے دعا کی جاتی ہے ۔ اگر دونوں خطبوں میں تقدیم و تاخیر ہوجائے۔ پہلے دوسرا خطبہ ، پھر پہلا خطبہ دیا جائے تو شرعاً کوئی مضائقہ نہیں۔ خطبہ ادا ہوگیا۔ کیونکہ دونوں خطبوں کی ابتداء حمد و صلوۃ سے ہوتی ہے اور خطبہ کیلئے حمد کافی ہے ۔ (وکفت تحمیدۃ او تحلیلۃ او تسبیحۃ) در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد دوم کتاب الحجہ۔