بیعت و خلافت

سوال : اسلام میں بیعت کی کیا اہمیت ہے ، مرید بنانے کیلئے کیا اپنے مرشد کی اجازت ضروری ہے یا نہیں ؟ اس سلسلہ میں شرعی رہنمائی فرمائیں تو باعث تشکر۔
محمد زبیر شریف ، بشیر باغ
جواب : ایمان اور تقویٰ یعنی نیک اعمال و کارخیر کرنے اور برائیوں سے بچنے کیلئے بیعت لینا قرآن مجید اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ان الذین یبا یعونک انما یبا یعون اللہ… الایہ یعنی جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے ہیں وہ حقیقت میں اللہ سے بیعت کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا دست قدرت ان کے ہاتھوں پر ہے ۔ پس جو کوئی (بیعت کو) توڑتا ہے ، وہ اپنے نفس ہی کیلئے توڑتا ہے اور جو اللہ سے کئے گئے معاہدہ کو پورا کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اجر عظیم عطا فرماتا ہے۔ (سورۃ الفتح 10/18 ) سورۃ الحشر کے اختتام پر ہے ۔ یایھا النبی اذا جائک المومنت یبا یعنک علی ان لا یشرکن باللہ شیئا الایہ۔
ترجمہ : اے نبیؐ جب آپ کی خدمت میں مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کیلئے حاضر ہوں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی اور چوری نہیں کریں گی اور بدکاری نہیں کریں گی اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان سے کوئی جھوٹا بہتان گھڑ کرنہیں لائیں گی اور کسی بھی معروف (بھلائی) میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی تو آپ ان سے بیعت لے لیا کریں اور ان کیلئے اللہ سے بخشش طلب فرمائیں ۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے (سورہ الممتحنہ ۔ 12/60 )
سورۃ الفتح میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لقد رضی اللہ عن المؤمنین اذیبا یعونک تحت الشجرۃ الایہ ۔ بے شک اللہ مومنین سے راضی ہوگیا۔جب وہ (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے پس اللہ کو معلوم ہے جو ان کے دلوں میں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان پر تسکین نازل فرمائی اور انہیں بہت ہی قریب فتح کا انعام عطا کیا۔ (سورہ الفتح 18/48 )
متذکرہ آیات قرآنی کی روشنی میں صحابہ و صحابیات کا ایمان کے سواء اعمال خیر کی بجا آوری اور فواحش و منکرات سے بچنے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کرنا ثابت ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد صحابہ کرام کے اجماع سے حضرت ابوبکر صدیق رصی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے ۔ سب نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دست مبارک پر بیعت کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کا وقت آیا تو آپ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ نامزد کردیا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بعد خلافت کیلئے ایک مجلس شوری مقرر کی اور اس مجلس شوری نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا، بعد ازاں اسی طریقہ پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کا اعلان ہوا۔
پس انہی طریقہ ہائے خلافت پر جانشین نامزد کرنے اور بیعت لینے کی اہلیت و استحقاق کی بنیاد رکھی گئی ۔ چنانچہ اگر کوئی سجادہ نشین صاحب اجازت بزرگ انتقال کرجائیں اور انہوں نے اپنا جانشین نامزد نہ کیا ہو تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے مطابق تمام مریدین و وابستگان سلسلہ کے اتفاقی فیصلہ سے کسی کو جانشین نامزد کیا جائے گا اور وہ بیعت لینے ، ارادت میں داخل کرنے کا مجاز گردانا جائے گا ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ صاحب اجازت بزرگ اپنی حین حیات اپنا جانشین نامزد کریں جس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نامزد کیا تھا۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ صاحب اجازت بزرگ کسی کو جانشین نامزد نہ کریں لیکن زندگی میں چند افراد کو خلافت واجازت دیئے ہوں تو وہ خلفاء باہمی رضامندی سے کسی کو جانشین نامزد کرسکتے ہیں جس طرح کے مجلس شوریٰ کے فیصلہ سے حضرت عثمان غنی رصی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کی خلافت عمل میں آئی تھی ۔تفصیل کیلئے دیکھئے ۔ فتاوی صدارت العالیہ مولفہ حضرت مولانا مفتی عبدالرحیمؒ)
لہذا مرید بنانے کیلئے باضابطہ کسی صاحب اجازت بزرگ سے اجازت و خلافت ضروری ہے اور ثبوت خلافت کیلئے بینۂ شرعیہ یا شہادت شرعی لازم ہے اور یہ حکم حجت کی تکمیل کیلئے ہے۔ اگرچہ خلافت باطنی کیفیت کی منتقلی کا نام ہے جو اویسی نسبت سے بھی حاصل ہوسکتی ہے لیکن اس راہ میں کشف و خواب شخصی و اختیاری معاملہ ہے، بینۂ شرعیہ نہیں۔

اولاد کی ضد اور نافرمانی کیلئے ایک وظیفہ
سوال : میں ایک ماں ہوں جو دماغی طور پر بہت پریشان ہوں۔ شریعت کی رو سے میرے اس مسئلہ کا حل برائے مہربانی بتایئے۔ میرا ایک نوجوان لڑکا ہے ۔ بچپن سے تھوڑا بہت ضدی تھا لیکن میں اس کی بے جا ضد کو کبھی نظر انداز کی ۔ اچھی سے اچھی تربیت دینے کی کوشش کی ۔ گھر میں بھی اسلامی ماحول رکھتی ہوں۔ ٹی وی کمپیوٹر کے بے جا استعمال پر پابندی رکھتی ہوں۔ لیکن چار سال سے بچہ حد سے زیادہ ضدی ہوگیا ۔ پڑھائی بالکل چھوڑ دیا ۔کالج کو بھی پابندی سے نہیںجاتا۔ ٹی وی کمپیوٹر سیل فون پر وقت گزاری کرتا ہے ۔ بچپن میں بہت اچھا پڑھتا تھا لیکن اب دو ، تین بجے رات کو بھی کمپیوٹر پر ہی بیٹھتا ہے۔ میں روکوں تو مجھے بہت بے جا طریقے سے ماردیتا ۔ مجھے ڈھکیل دیتا۔ زور زور سے چیختا، اپنی بڑی بہن ، بھائی کو مارتا، گھر میں توڑنا پھوڑنا کرتا جو بھی چیز سامنے رہی اٹھاکر مار دیتا۔ مجھے لاتوں سے مارتا ، Internet کا کنکشن نکال دوں تو انٹرنیٹ کیفے پر چلا جاتا۔ گھرمیں ماشاء اللہ سب نمازوں کی پابندی کرتے ہیں۔ پر وہ نماز بھی نہیں پڑھتا۔ اللہ کے خوف سے ڈرتی ہوں۔ ماں باپ پر ہاتھ اٹھاتا یہ لڑکا ، اللہ تعالیٰ اس کی آخرت کیسی کرے گا۔ میں رو رو کر گڑگڑاکر اللہ کے حضور میں ہر وقت دعا کرتی ہوں۔ بڑے بزرگوں سے سمجھانے لگواتی ہوں۔ چار سال سے جو کبھی کوئی کچھ وظیفے پڑھنے کیلئے بتاتے ہیں، پابندی سے پڑھتی ہوں پر جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا جارہا ہے۔ دن بہ دن اس کی ضد ، نافرمانی ، غصہ بڑھتا ہی جارہا ہے ۔ میں بہت الجھن میں ہوں۔ کوئی لوگ کہتے ہیںکہ اسے سفلی علم والوں کے اپس لے جائیے۔ اس پر شاید گندے اثرات ہوں گے لیکن میں جانا نہیں چاہتی ۔ مجھے اللہ کی ذات پر پورا بھروسہ ہے۔ برائے کرم ایسی نافرمان اولاد کے سدھرنے کیلئے کچھ وظیفے ہے تو پڑھنے کیلئے بتائیے۔ شرعاً اس کے ساتھ میں کیا کرنا چاہئے ۔ شکر گزار ہوگی۔
نام مخفی
جواب : بچوں کی تربیت انتہائی اہم ہوتی ہے۔ بچپن ہی سے ان کی متوازن دیکھ بھال (یعنی حد سے زیادہ سختی یا بے جا لاڈ و پیار کے بجائے دونوں چیزوں میں اعتدال) اور اسلامی تربیت دینے سے آگے چل کر بچے اس حد تک ناخلف نہیں ہوتے۔ اب آپ اپنے بچے کی اصلاح چاہتی ہیں توپہلے انہیں بری صحبتوں سے بچائیں اور نرمی سے انہیں اللہ اور اسکے رسولؐ کے احکام اور ماں باپ کی عزت واحترام کے متعلق سمجھائیں۔ ساتھ ہی ساتھ درج ذیل عمل کرنے سے انشاء اللہ افاقہ ہوگا۔ (1) جب بچہ سوجائے تو اس کے کان کے پاس دھیمی آواز میں سورہ بروج کی آیت نمبر 17 تا 22۔ ھل اتاک حدیث الجنود سے لوح محفوظ تک سات روز تک ایک بار پڑھیں۔ (2) بچہ کا نام ذہن میں رکھ کر ہر نماز کے بعد سورہ احقاف کی آیت 15 واصلح لی فی ذریتی انی تبت الیک وانی من المسلمین پڑھکر دعا کریں۔ انشاء اللہ فائدہ ہوگا ۔ ہر وظیفہ سے قبل طاق عدد درود شریف ضرور پڑھیں۔

بیوی کا غیر شرعی امور کا ارتکاب
سوال : میری بیوی غیر شرعی امور کا ارتکاب کرتی ہے، مثلاً بال کاٹنا چست تنگ لباس پہننا ، نماز نہ پڑھنا اور تاکید کرنے پر یہ کہنا کہ میری قبر کا جواب میں ہی دوںگی ، مجھے فیشن سے نہ روکو اور میری مرضی کے خلاف اپنے مائیکے میں رکی ہوئی ہیں، آنے کی شرط یہ لگاتی ہے کہ میں والدین سے الگ ہوجاؤں اور اس کو فیشن سے نہ روکوں۔ کیا اس کا یہ عمل اور شرط شرعاً درست ہے ؟
محمد عبداللطیف، نیو ملے پلی
جواب : شریعت میں بیوی کو باعصمت رکھنا اور اسلامی شعار احتیار کرنے اور نماز کی پابندی کے لئے حکم دینے کا شوہر کو حق ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ہر مسلمان اپنے خاندان کا راعی (حاکم) ہے اور قیامت میں اس سے اپنی رعیت (افراد خاندان) سے متعلق سوال ہوگا۔ لہذا صورت مسئول عنہا میں بیوی پر شوہر کی اسلامی امور میں اطاعت لازمی ہے۔ لباس ، جسم کو چھپانے کے لئے ہے اگر کوئی چست لباس پہنے تو وہ گنہگار ہوگی۔ حدیث شریف میں اس کی سخت وعید آئی ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بہت سی دنیا میں کپڑے پہننے والی آخرت میں برہنہ ہوں گی۔
(2 بیوی کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے شوہر سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ اس کے والدین (ساس و خسر وغیرہ) سے علحدہ مکان فراہم کرے۔ تاہم شوہر کے موجودہ مکان میں ایسی گنجائش ہو کہ بیوی کو پکوان وغیرہ کر کے علحدہ رہنا ممکن ہو تو وہ حصہ میں اس کا انتظام کردینے پر وہ (بیوی) اس میں رہے ۔ پھر علحدہ مکان کے مطالبہ کا حق نہیں رہے گا۔تاہم شوہر کے والدین کو اپنے والدین سمجھ کر ان کی خدمت کرنا ، اطاعت کرنا عین سعادت مندی ہے اور شوہر کو خوش کرنے کا ذریعہ ہے۔

السلام علیکم یا سلام علیکم
سوال : بعض لوگ ’’ السلام علیکم‘‘ کہتے ہیں اور بعض ’’ سلام علیکم‘‘ کہتے ہیں۔ دونوں میں صحیح طریقہ کیا ہے اور اکثر حضرات بڑوں کو آداب ، قدمبوسی کہتے ہیں تو شریعت میں اس کا کیا حکم ہے اور اگر اس طرح نہ کہا جائے تو بڑے حضرات بسا اوقات ناراضگی اور خفگی کا بھی اظہار کرتے ہیں۔ شرعاً کیا حکم ہے ؟
حافظ مزمل
جواب : ’’السلام علیکم‘‘ الف لام کیساتھ کہنا بہتر ہے ۔ اور بغیر الف لام کے تنوین کے ساتھ ’’ سلام علیکم‘‘ کہنا بھی درست ہے ۔ آداب اور قدمبوسی کہنے سے مسنون سلام ادا نہیں ہوتا ۔ کنزالعباد صفحہ 349 میں ہے : فی الظھیریۃ و لفظتہ السلام فی المواضع کلھا ’’ السلام علیکم‘‘ لا یکفی سلاما۔ عالمگیری جلد 5 صفحہ 325 کتاب میں ہے : ولو قال المبتدی ’’ سلام علیکم ‘‘ او قال ’’السلام علیکم ‘‘ فللمجیب ان یقول فی الصور تین سلام علیکم ولہ ان یقول السلام علیکم ولکن الالف والارم اولی کذا فی التاتارخانیۃ۔

معذور کا وضو اور نماز
سوال : جب نماز کا وقت شروع ہوتا ہے اور میں وضو بناتی ہوں تو وضو کے دوران مجھے (ریاح) گیس خارج ہونے لگتے ہیں پھر شروع سے وضو کرنا پڑتا ہے اور وضو بناکر نماز کیلئے کھڑی ہوتی ہوں ایک یا دو رکعتوں کے بعد پھر گیسیس خارج ہوکر وضو ٹوٹ جاتا ہے پھر نماز کے درمیان سے اٹھ کر وضو بنانا پڑتا ہے اور باقی دورکعت مکمل کرنا پڑتا ہے اسی طرح نماز کے دوران تین تا چار مرتبہ وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اکثر فجر کی نماز میں مجھے ڈر رہتا ہے کہ بار بار وضو بنانے میں کہیں فجر کی نماز کا وقت ختم نہ ہوجائے۔برائے کرم شرعی حل بتلائیں۔
ایک خاتون
جواب : ایسا شخص جسے شرعی عذر لاحق ہو یعنی وہ اس عذر کی وجہ سے اپنی نماز مکمل نہ کرسکتا ہو اور دوران نماز وضو ٹوٹ جاتا ہو تو شرعاً ایسے شحص کو معذور کہتے ہیں۔ مستحاضہ اور ایسا شخص جس کو پیشاب کے خطرے مسلسل ٹپکتے ہوں یا وہ شخص جسے خروج ریح کی بیماری ہو شرعاً معذور ہے ۔ معذور کے لئے شریعت اسلامیہ میں یہ سہولت ہے کہ وہ ہر نماز کے وقت پر وضو بنالیں اور اپنی فرض نماز کے علاوہ جتنی چاہیں نفل نمازیں تلاوت قرآن وغیرہ پڑھ لیں اس درمیان اگر عذر لاحق ہو بھی جائے تو اسے وضو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ اگر اس نماز کا وقت ختم ہوجائے اور دوسری نماز کا وقت شروع ہوجائے تو اسے دوبارہ نیا وضو بنانا ہوگا۔لقولہ علیہ السلام الوضوء عند کل صلواۃ (ابو داؤد ح : 297 ج 1 ص : 135 )