بیروزگاری بڑا مسئلہ اور راہول کا وعدہ

رویش کمار
راہول گاندھی نے کہا ہے کہ اگر اُن کی حکومت تشکیل پاتی ہے تو 31 مارچ 2020ء تک 22 لاکھ سرکاری نوکریوں پر بھرتی کی جائے گی۔ اس میں تعداد اور وقت کی حد بھی ہے۔ کیا کوئی حکومت 26 مئی 2019ء کو حلف لے کر 31 مارچ 2020ء تک 22 لاکھ نوجوانوں کو ملازمت دے سکتی ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ راہول گاندھی نے اپنا عروج دیکھنا شروع کردیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہم گزشتہ دیڑھ سال سے ’جاب سیریز‘ کے بھنور میں پھنسے ہیں۔ ہم نے پنجاب سے بنگال تک، بہار سے راجستھان تک، ایم پی سے یو پی تک سرکاری جابس کی بھرتی دیکھی ہے۔ کوئی امتحان اور نوکری کی شروعات منسوخی اور مقدمہ کے بغیر نہیں ہوئی ہے۔ راہول گاندھی نے 31 مارچ 2019ء کو ٹوئٹ کیا کہ 31 مارچ 2020ء تک وہ 22 لاکھ جائیدادیں پُر کریں گے۔ اُن کا ٹوئٹ ہے کہ آج حکومت میں 22 لاکھ جابس مخلوعہ ہیں۔ جائیدادوں پر بھرتی مختلف شعبہ جات جیسے صحت اور تعلیم میں کی جائے گی۔ اسی کے مطابق ریاستوں کو مرکزی حکومت کی جانب سے فنڈز فراہم کئے جائیں گے۔ مختلف شعبہ جات کے علاوہ ہزاروں جائیدادیں سنٹرل یونیورسٹی میں خالی ہیں اور پانچ سال میں مودی حکومت اُسے پُر کرنے سے قاصر رہی ہے۔ 21 مارچ 2017ء کو لوک سبھا میں وزیر فروغ انسانی وسائل پرکاش جاؤڈیکر نے کہا تھا کہ اندرون ایک سال دہلی یونیورسٹی میں ہنگامی اساس پر 9,000 (اڈہاک) جائیدادوں پُر کئے جائیں گے۔ مرکزی حکومت کی پالیسی نہیں ہے کہ جزوقتی تقررات کئے جائیں۔ ایک یونیورسٹی میں 9,000 جائیدادیں پُر نہیں کی جاسکیں۔ اس لئے، کیا ایک سال میں 20 لاکھ نوکریوں پر بھرتی کی جاسکتی ہے؟

اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ نے 8 مارچ 2019ء کی اشاعت میں رپورٹ شائع کی کہ اُڈیشہ سنٹرل یونیورٹی میں 88 فیصد جائیدادیں خالی ہیں، 67% جائیدادیں الہ آباد یونیورسٹی میں مخلوعہ ہیں، دہلی یونیورسٹی میں 47% جائیدادیں خالی ہیں، جے این یو میں 34 فیصد جائیدادوں پر تقررات ہونے ہیں۔ اس کے باوجود 16 جنوری 2019ء کو مرکزی کابینہ نے فیصلہ کیا کہ 13 سنٹرل یونیورسٹیاں 3,000 کروڑ روپئے کی لاگت سے تعمیر کئے جائیں گے۔ پی ایچ ڈی کامیاب ہونہار افراد کو بھی موقع نہیں مل رہا ہے۔ جہاں نوکریاں ہیں، وہاں کچھ نہ کچھ بندشیں ہیں۔ راہول گاندھی کو اپنے وعدے کے مطابق غیرمعمولی اقدامات کانگریس زیراقتدار ریاستوں میں کرکے دکھانا چاہئے۔
یہ صورتحال نہ صرف کالجوں اور یونیورسٹیوں بلکہ صحت سے لے کر آبپاشی کے محکموں تک ہے۔ Skill India، Make in India جیسے پروگرام جابس کیلئے ہی ہیں، لیکن اب ان کی بات تک نہیں ہورہی ہے۔ ہم نے وہ تمام اجلاسوں کے بارے میں نہیں سنا جو ابھی تک وزیراعظم نے منعقد کئے ہیں، لیکن روزگار کا تذکرہ تین ریالیوں میں زور و شور سے اٹھایا گیا۔ جموں کے اکھنور میں وزیراعظم کے بیان پر غور کرنا چاہئے۔ کیا وہ سارے ہندوستان کا ڈیٹا بتارہے ہیں، یا جموں کے تعلق سے مواد پیش کررہے ہیں یا پھر محض اکھنور کی بات کررہے ہیں؟ گزشتہ سال اکٹوبر میں ہم نے ’اکنامک ٹائمز‘ کی ایک رپورٹ دیکھی۔ یہ نیوز خبررساں ادارہ ’پی ٹی آئی‘ کے حوالے سے شائع کی گئی۔ اس کے مطابق چھ سنٹرل فورسیس میں 55,000 جائیدادیں مخلوعہ ہیں۔ سی آر پی ایف میں 21,000 اور بی ایس ایف میں 16,000 نوکریاں پُر کرنا ہیں۔ 2016-17ء میں ایک لاکھ 35 ہزار نوجوانوں کی بھرتی کی گئی۔ اگر آپ انٹرنٹ پر تلاش کریں اور غور سے ڈیٹا کا جائزہ لیں تو بہت کچھ معلوم ہوگا۔ اکٹوبر 2018ء میں پی ٹی آئی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سنٹرل فورسیس میں 55,000 خالی جائیدادیں ہیں جنھیں جلد پُر کرنے کے احکام جاری کئے گئے تھے۔ 6 فبروری 2019ء کو اسی پی ٹی آئی کے حوالے سے وہی اکنامک ٹائمز نے رپورٹ شائع کی کہ مرکزی وزارت داخلہ پیراملٹری فورسیس میں 76,578 جائیدادوں کو پُر کرنے کیلئے خصوصی بھرتی مہم چلائے گی۔ اکٹوبر کی نیوز میں کہا گیا تھا کہ 55,000 جائیدادوں کو فوری پُر کیا جائے گا۔ چار ماہ بعد مخلوعہ نوکریوں کی تعداد بڑھ کر 76,578 تک پہنچ گئی۔ جب سی پی ایم راجیہ سبھا ممبر کے کے راجیش نے نیم فوجی دستوں میں خالی نوکریوں کی تعداد کے بارے سوال کیا تھا، تب مملکتی وزیر داخلہ کرن رجیجو نے وزارت داخلہ کی طرف سے تحریری جواب میں 14 مارچ 2018ء کو بتایا تھا کہ 9,85,135 جائیدادیں منظورہ ہیں، جن میں سے 61,509 مخلوعہ ہیں۔ سی آر پی ایف میں بلحاظ 31 جنوری 2018ء خالی جائیدادوں کی تعداد 18,460 بتائی گئی۔اگر بروقت نوکریوں پر بھرتی کردی جائے تو کتنے ہی نوجوانوں کو حد عمر گزرنے سے قبل جابس حاصل ہوجائے گا۔

گزشتہ سال 5 اگست کو ایک نیوز رپورٹ ’ٹائمز آف انڈیا‘ میں شائع ہوئی۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں میں تقریباً 24 لاکھ جائیدادیں ہیں۔ پرائمری اور سکنڈری ٹیچرز کی جائیدادیں خالی ہیں۔ پولیس اسٹیشنوں میں 5 لاکھ 40 ہزار نوکریاں ہیں۔ ریلوے میں 2.4 لاکھ خالی جائیدادیں ہیں۔ پیراملٹری فورسیس میں 61,509 اور آرمی میں 62,084 پوسٹ مخلوعہ ہیں۔ ایمس (AIIMS) میں 21,740 نوکریاں خالی ہیں۔ کیا یہ جائیدادیں ایک سال میں پُر کی جاسکتی ہیں؟ اسٹاف سلیکشن کمیشن (ایس ایس سی) کا امتحان 2017ء مارچ 2019ء گزر جانے کے بعد بھی مکمل نہیں ہوا ہے۔ پرچے کے افشاء کے بعد معاملہ عدالت میں ہے۔اس امتحان سے لاکھوں اسٹوڈنٹس جُڑے ہیں۔ اس کے باوجود چیئرمین ایس ایس سی اسیم کھرانہ کو دو سالہ توسیع دیئے جانے پر سوال اُٹھ رہے ہیں۔ یہ سنگین معاملہ ہے۔ اس پس منظر میں راہول گاندھی کو 22 لاکھ سرکاری نوکریوں پر 31 مارچ 2020ء تک بھرتی کے وعدے کو پورا کرنا ہے۔

وزیر فینانس ارون جیٹلی سے آنند پانڈے نے ’دینک بھاسکر‘ کیلئے انٹرویو لیا۔ جب جیٹلی نے بیروزگاری کے اعداد و شمار کو چیلنج کیا، تب آنند نے دریافت کیا کہ آیا آپ کا مطلب ہے کہ روزگار کوئی مسئلہ نہیں ہے؟ وزیر فینانس نے کہا کہ یہ سب ڈیٹا کا سوال ہے، مواد کون اکٹھا کررہا ہے؟ مثال کے طور پر جب آپ کسی کاشتکار گھرانے کے تین بھائیوں سے پوچھیں کہ آیا تمھارے پاس جاب ہے، وہ کہیں گے کہ نہیں۔ لیکن جب آپ پوچھیں کہ آیا گزربسر کی تمام اشیاء میسر ہیںتب وہ کہیں گے کہ ہاں۔ دونوں سوالات کا ڈیٹا مختلف رہے گا۔ یہ جواب دلچسپ ہے! اگر گزربسر کا سامان ہے تو ہوا بن جاتی ہے پانی، اگر آپ کے پاس اجناس ہیں تو آپ بیروزگار نہیں ہو۔ کیا جیٹلی کا جواب واقعی منطقی ہے؟ اس انٹرویو میں جیٹلی نے کہا کہ 35,000 کیلومیٹر ہائی وے کی تعمیر میں روزگار پیدا کیا جائے گا۔ کیا آپ جانتے ہو کہ ایک کیلومیٹر شاہراہ کی تعمیر میں آج کتنا روزگار پیدا ہوتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ہائی وے کی تعمیر میں مشینیں زیادہ کام کرتی ہیں، انسان کم۔ یکم اپریل کو ’دینک بھاسکر‘ کے مطابق وزیر فینانس نے کہا کہ 17 ملین افراد کو کرنسی لون دیا گیا ہے۔ لیکن وزیراعظم نے تلنگانہ میں کہا کہ 15 ملین لوگوں کو کرنسی لون حاصل ہوا۔ تقاریر میں ڈیٹا اس طرح بدل جاتا ہے۔ بہرحال، 22 فبروری2019ء کو اخبار ’دی ہندو‘ میں شائع پرنسیلا دیبراج کی رپورٹ میں ICRIER فیلو رادھیکا کپور کا کہنا ہے کہ ہر لون کا مطلب نہیں ہوتا کہ جاب کی تشکیل ہوگئی ہے۔ مَنی اسکیم کے تحت اوسط قرض 45,034 روپئے ہوتا ہے۔ یہ رقم نوکری پیدا کرنے کیلئے بہت کم ہے۔ ’نیوز کلک‘ نے اگست 2018ء میں آر ٹی آئی کی بنیاد پر رپورٹ دی تھی کہ زائد از 90% قرضے 50,000 روپئے سے کم ہوتے ہیں۔ اس سے جاب پیدا کرنے میں کچھ مدد نہیں ملتی ہے۔ صرف 1.3% لون زائد از 5 لاکھ روپئے ہوتا ہے، جس سے دیگر کیلئے نیا جاب پیدا ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف کرنسی لون کے ذریعے ایمپلائمنٹ پیدا کیا جاسکتا ہے؟
عظیم پریم جی یونیورسٹی اور پبلسٹی سی ایس ڈی ایس نے 2018ء میں 12 ریاستوں میں زائد از 24,000 افراد کا سروے کیا۔ اس سروے میں 19 فیصد شرکاء نے کہا کہ بیروزگاری سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ دہلی، اترپردیش، تریپورہ، پنجاب اور جموں و کشمیر کے لوگ بیروزگاری کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اترکھنڈ میں 17% افراد بیروزگاری کو مسئلہ ضرور سمجھتے ہیں۔ بیروزگاری 18 تا 35 سال کی عمر والے نوجوانوں میں سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس سروے کا ایک نتیجہ یہ بھی برآمد ہوا کہ روزگار کا سوال 2014ء اور 2018ء کے درمیان چار سال میں قابل لحاظ تک بڑھا ہے۔ 2014ء میں صرف 6 فیصد ووٹروں نے روزگار کو سرفہرست مسئلہ مانا تھا، لیکن 2018ء میں یہ شرح 19 فیصد ہوگئی۔ مکمل سروے عظیم پریم جی یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ وزارت امور داخلہ کی طرف سے یہ جواب دیا جاتا ہے کہ پانچ سال میں مودی حکومت نے روزگار کے اعداد و شمار جاری کرنے کا کوئی نیا سسٹم نہیں بنایا۔ پرانے سسٹم کو بند کردیا گیا۔ اُس سسٹم کے تحت نیشنل اسٹاٹسٹیکل کمیشن نے 2018ء میں رپورٹ دی تھی کہ بیروزگاری 45 سال میں اعظم ترین شرح پر ہے۔ جن افراد کا کام ڈیٹا اکٹھا کرنا، اس کا جائزہ لینا اور اسے جاری کرنا تھا، ان کے کام کو روک دیا گیا ہے۔ لیکن اس کی جگہ منسٹرس اپنی اپنی سطح پر ڈیٹا جاری کرنے لگے ہیں!