بیروزگاری ‘ الیکشن کا اہم ترین موضوع ۔ پارٹیاں غیرسنجیدہ

رویش کمار
عام انتخابات 2019ء میں بیروزگاری کی باتیں تو بہت ہورہی ہیں، لیکن یہ نہ تو حکومت کی طرف سے ٹھوس کہی جاسکتی ہیں اور نہ ہی اپوزیشن اطمینان بخش حد تک سنجیدہ نظر آتی ہے۔ خود بیروزگار افراد بھی نہیں سمجھ رہے ہیں کہ انھیں اپنے مسائل کے تعلق سے برسراقتدار اور اپوزیشن پارٹی کی سردمہری کے درمیان کس طرح کا موقف اختیار کرنا چاہئے۔ ’انڈین اکسپریس‘ کے شمارہ مورخہ 20 مارچ میں جئے مجمدار کی نیوز شائع ہوئی ہے۔ اس کے مطابق افرادی قوت کی تعداد میں تشویشناک حد تک گراوٹ آئی ہے۔ پانچ سال قبل بھی اتنے لوگ برسرروزگار نہیں تھے جتنے ہونا چاہئے۔ تاہم، 1993-94ء کے بعد سے پہلی مرتبہ ’ورک فورس‘ اس قدر گھٹ گئی کہ آج بیروزگاری کی شرح بہت بڑھ چکی ہے۔ NSSO (نیشنل سیمپل سروے آفس) نے ’پیریاڈک لیبر فورس سروے‘ برائے 2017-18ء کیا ہے۔ تاہم، اس کی رپورٹ منظرعام پر نہیں لائی گئی۔ معلوم ہوا ہے کہ 2012-13ء میں مَردوں پر مشتمل ورک فورس 30.4 ملین تھی، جو گھٹتے گھٹتے 2017-18ء میں 286 ملین ہوچکی۔ مینس ورک فورس میں ایسی گراوٹ 1993-94ء سے پہلی بار ہوئی ہے۔ دیہات میں مرد افراد کی افرادی قوت میں 6.4 فیصدی گراوٹ ہوئی ہے۔ بس بہت ہوچکا۔ شہروں میں یہی تناسب 4.7 فیصد ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ جب حکومت نے اِس رپورٹ کو جاری نہیں کیا تو گزشتہ سال ڈسمبر میں صدرنشین نیشنل اسٹاٹسٹیکل کمیشن پی سی موہن اور دیگر رکن جے وی میناکشی مستعفی ہوگئے۔ اس ڈیٹا کے مطابق زائد از 4 ملین جابس چل رہے ہیں۔ تاہم، سال 2011-12 سے 2017-18ء تک بیروزگاری کس طرح بڑھتی گئی، آپ کو ضرور سمجھنا چاہئے۔ کیا بیروزگاری پر فوری کوئی مباحث نہیں ہونے چاہئیں؟ صرف کانگریس، بی جے پی کی بات نہیں، بلکہ بیروزگاری اس قدر بھیانک رُخ اختیار کرتی جارہی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں کیا واقعی کوئی اختراعی سوچ کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے بیروزگاری کا حل ڈھونڈ سکتی ہیں؟ اگر اس سوال پر بے توجہی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو آنے والے پانچ سال میں بیروزگار افراد خود اپنے آپ سے ناانصافی کے مرتکب کے ہوں گے۔ بیروزگار اورنوجوان افراد کو تمام قائدین کو ضرور مجبور کرنا چاہئے کہ بیروزگاری کے مسئلہ کا حل نکالیں۔ اپنے منصوبوں اور خاکوں کا اظہار کیجئے۔

مہیش ویاس (سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی) بیروزگاری سے متعلق اعداد و شمار مسلسل پیش کرتے رہتے ہیں۔ انھوں نے ’بزنس اسٹانڈرڈ‘ میں لکھا ہے کہ بیروزگاری کی شرح چھٹی جماعت کامیاب سے لے کر گرائجویٹ نوجوانوں میں زیادہ ہے۔ وہ جو پوری طرح تعلیم یافتہ نہیں، انھیں کام مل رہا ہے۔ مہیش نے ہمارے رفیق کار سوہت مشرا کو بتایا کہ BA اور MBA کامیاب نوجوانوں میں شرح بیروزگاری سپٹمبر اور ڈسمبر 2018ء کے درمیان 13.2 فیصد درج ہوئی۔ یہ شرح ایک سال قبل 12.1 فیصد تھی۔ 10 ویں اور 12 ویں جماعت کامیاب نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 10.6 فیصد ہے۔ نوجوانوں کو اسی وجہ سے روزگار نہیں مل رہا ہے اور اب تو کئی افراد اس قدر مایوس ہوتے جارہے ہیں کہ وہ کام کی تلاش چھوڑ رہے ہیں۔ اس لئے ہندوستان میں ’لیبر پارٹسپیشن‘ کی شرح بہت کم ہے؛ محض 43 فیصد۔ آپ اخبار ’ہندو‘ بھی پڑھتے ہوں گے، اور ٹی وی چیانلس دیکھتے ہوں گے لیکن کیا زیادہ تر چیانلوں پر یہ معلومات فراہم کی جاتی ہے۔ یہ اپنے آپ میں بڑا سوال ہے۔ کیا بیروزگاروں سے متعلق جائزے میڈیا رپورٹس سے غائب ہوتے جارہے ہیں؟ آپ کو معلوم ہوگا کہ گزشتہ دنوں Group D اور ریلوے میں Loco Pilots کی بھرتیوں کیلئے امتحانات منعقد کئے گئے۔ ’دی وائر‘ کے جرنلسٹ ارون داس نے کہا ہے کہ بی اے کامیاب اور ایم اے کی تکمیل یا اسے ادھورا چھوڑنے والوں نے بھی ریلویز میں Helper بننے کیلئے درخواست دی ہے، جب کہ اہلیت محض 10 ویں جماعت کامیاب ہے۔ 82 لاکھ امیدواروں نے اچھی تعلیم حاصل کررکھی ہے۔ ان درخواست گزاروں میں کوئی انجینئر تو نہیں، لیکن کوئی بیچلر آف سائنس ہے، کوئی کامرس کا گرائجویٹ ہے، اور کوئی مینجمنٹ ڈگری کا حامل ہے۔ تقریباً 17 لاکھ امیدواروں کی قابلیت صرف 10th پاس ہے۔ ریلوے نے کہا کہ 2 ملین درخواستیں وصول ہوئیں۔
موجودہ طور پر ملک کی صورتحال یہ ہے۔ تعلیم یافتہ افراد کیلئے روزگار نہیں ہے۔ ہر روز ہمیں بیروزگاروں کے messages ملتے ہیں۔ اس مسئلہ پر قانون سازوں کو سنجیدہ مباحث کرنا ہوگا۔ اِس الیکشن میں بیروزگاری سے متعلق کوئی مسائل نہیں اٹھائے جارہے ہیں، لیکن کب تک اس صورتحال کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟ 19 مارچ کو ’پرائم ٹائم‘ میں ہم نے دکھایا کہ بلیا (اترپردیش) کے ایک پرائمری اسکول کو اس انداز میں رنگ دیا گیا کہ وہ بی جے پی کا پرچم معلوم ہونے لگا ہے۔ یہ نیوز مقامی اخبارات میں بھی شائع ہوئی ہے۔ پھر ہم نے نئی تصویر دکھائی۔ اسکول کا کلر ایک ہی دن میں بدل دیا گیا۔ سفید رنگ کی بلڈنگ پر سبز بارڈر نظر آرہا ہے۔ متعلقہ ارباب مجاز مبارکبادی کے مستحق ہیں۔ اسی طرح کی فعالی کی دیگر معاملوں میں بھی توقع ہے۔

ہاں! جاب کے سوال پر واپس آتے ہیں۔ ایسی کوئی ریاست نہیں جہاں نوجوانوں نے سرکاری نوکریوں کیلئے دھرنے منعقد نہ کئے ہوں۔ یو پی میں 69,000 ٹیچروں کی بازماموری کا معاملہ ہے۔ تاہم، کئی نوجوانوں کو بدستور دیگر معاملوں میں اُلجھتے دیکھا جارہا ہے۔ ایسا نہیں لگتا کہ انھیں کوئی مسائل درپیش ہیں؛ حالانکہ ہر روز ہمیں پیامات وصول ہوتے ہیں، جس سے آپ اُن کے مسائل کا انداز کرسکتے ہو۔بنگال کے اسٹوڈنٹس نے ہمیں ایک تصویر بھیجی ہے۔ وہاں ویسٹ بنگال اسکول سرویسز سرویس کمیشن کے باہر یہ لوگ 28 فبروری سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے۔ 21 دنوں تک اُن کی ہڑتال لگاتار جاری رہی۔ تصویر بھیجنے والے نے کہا کہ زائد از 60 ٹیچروں کو اس بھوک ہڑتال کے سبب اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ یہ تمام احتجاجی ٹیچروں کے نام ویسٹ بنگال اسکول سرویس کمیشن کے پیانل میں شامل ہیں۔ وہ اسٹیٹ لیول اگزامنیشن کامیاب ہیں۔ اُن کی بازماموری 2012ء سے معرض التواء ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ویٹنگ لسٹ میں شامل تمام ٹیچروں کا تقرر کیا جائے۔ یہی مسئلہ بہار میں بھی ہے۔

انتخابات کے وقت دو اقسام کی لڑائی ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ عوام اپنے مسائل کے معاملے میں اُن سے رجوع ہوں۔ عوام اپنے مسائل کو لے کر اِدھر اُدھر بھٹکتے رہتے ہیں۔ وہ ہر روز نیوز چیانلوں کے مباحثے اپنا مسئلہ سمجھ کر دیکھنے لگتے ہیں، اور جب انھیں اپنا مسئلہ سمجھ میں آنے لگتا ہے، تب وہ ’واٹس ایپ‘ نمبر کے متلاشی ہوتے ہیں۔ آج کل واٹس ایپ کا دور ہے۔ ایک مسیج کھجوراہو سے آیا۔ ’’نمسکار، مودی جی (چوکیدارِ اعظم)! ہم فاقہ کشی کی صورتحال کا سامنا ہے۔ ہم مدھیہ پردیش میں انڈین آرکیالوجیکل سروے آف کھجوراہو میں روزانہ کی مزدوری پر کام کرتے ہیں۔ گزشتہ پانچ ماہ سے کوئی اُجرت؍ تنخواہ نہیں ملی ہے۔ آفیسرز کا رویہ ڈکٹیٹر جیسا ہے۔ حتیٰ کہ ہولی کا تہوار ہمیں خوشی سے منانے کا موقع نہ ملا۔ میں بہار کا متوطن ہوں، لیکن میں پیسے نہ ہونے کے سبب گھر نہ جاسکا۔‘‘پانچ پانچ ماہ تک تنخواہ نہیں ملتی ہے، اس طرح کے مسیج ہمیں ملتے رہتے ہیں۔ میں نہیں جانتا وہ کس امید سے ہمیں یہ مسیج بھیجتے ہیں۔ بہار سے ایک ٹیچر کا مسیج آیا کہ اُس کا تعلق ضلع بنکا سے ہے اور مڈل اسکول ٹیچر ہے۔ گزشتہ 5 ماہ سے تنخواہیں نہیں دی گئی ہیں۔ گھر چلانا مشکل ہورہا ہے۔ ’’آپ سے یہ معاملہ پرائم ٹائم میں دکھانے کی درخواست ہے۔‘‘ اس زمرے میں تین سو ہزار ٹیچرز ہیں۔ ایک مسیج بھیجنے کے بعد دوسرا پیام آیا کہ دو ماہ کی تنخواہ بس ابھی مل چکی ہے۔ بہرحال یوں اُن کی زندگی بٹی ہوئی ہے۔ باقاعدہ ملازم ٹیچروں کو کئی ماہ تنخواہیں نہیں ملتی ہیں۔

یہ حالات ہمیں بتاتے ہیں کہ حکومت درحقیقت کس طرح کام کررہی ہے۔ ان مسائل سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ مجھے پہلے نہیں معلوم تھا، ایک اسٹوڈنٹ نے بتایا کہ کمپیوٹر سائنس انجینئرنگ کے اسٹوڈنٹس ، انڈین انجینئرنگ سرویسز اگزامنیشن میں حصہ نہیں لے سکتے ہیں۔ انھیں اس کیلئے اہل نہیں سمجھا جاتا ہے۔