بیت الخلاء میں جانب قبلہ رخ کرنا

سوال : یہ مسئلہ زیر غور ہے کہ ایک مدرسہ کی پرانی بوسیدہ عمارت کی از سر نو تعمیر کی گئی اور ایک حصہ میں ایک کمرہ میں چند بیت الخلاء تعمیر کئے گئے جن کا رخ جانب قبلہ ہے۔ اس کو استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ شرعی احکام کیا ہیں ؟ براہ کرم جواب ارسال فرمائیں تو مہربانی ہوگی۔
فواد احمد، بازار گھاٹ
جواب : احناف کے نزدیک بیت الخلاء میں قبلہ کی جانب رخ یا پشت کرنا دونوں منع ہیں ۔ خواہ آبادی میں ہوں یا صحراء و بیاباں میں۔ لہذا مدرسہ کے ذمہ دار اصحاب کو چاہئے کہ شرعی حکم کو پیش نظر رکھتے ہوئے جانب قبلہ رخ اور پشت دونوں سے احتراز کریں۔

نماز کے بعد دعاء جہری
سوال : فرض نمازوں کے بعد امام کی دعا جہراً (بلند آواز) سے ہو یا سراً ؟ کیونکہ شہر کی بعض مساجد میں امام صاحبان دعاء اس قدر آہستہ کرتے ہیں کہ مصلیوں کو کچھ بھی سنائی نہیں دیتا جبکہ قدیم سے ایسا عمل نہیں تھا۔ ظہر ، مغرب ، عشاء کے فرضوں کے بعد طویل دعاء کا کیا حکم ہے۔ نیز فجر ، عصر ، جمعہ وغیرہ میں ہمارے شہر کی مساجد میں فاتحہ پڑھی جاتی ہے، اس کو بھی بعض حضرات منع کرتے ہیں۔ شرعاً کیا حکم ہے ؟
محمد عبدالمتین، خیریت آباد
جواب : اللہ سبحانہ کے ارشاد ادعونی استجب لکم ۔ فرمان رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ۔ الدعا منح العبادہ سے دعاء کی اہمیت و فضیلت اور اس کا امر محمود و مستحسن ہونا ظاہر ہے ۔ انفرادی دعاء آہستہ اولی ہے جہراً جائز ہے ۔ اجتماعی دعاء جہراً مشروع ہے کہ امام دعاء جہر سے کرے اور مقتدی آہستہ آمین کہیں۔ حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے اجتماعاً جو ادعیہ ثابت ہیں وہ جہر ہی سے ہیں تب ہی تو ادعیہ مبارکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ہم تک پہونچے ہیں جو بکثرت کتب احادیث میں مروی ہیں۔ اگر وہ جہراً (آہستہ) نہ ہوں جیسے موجودہ دور میں بعض حضرات کا استدلال ہے تو بغیر سنے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کس طرح روایت فرماتے، حضرت امام سرخسی رحمتہ اللہ حنفی مذہب کے جلیل القدر امام اور مسائل ظاہر الروایت کے شارح ہیں۔ مبسوط سرخسی کے مؤلف ہیں جو حضرت امام محمد رحمتہ اللہ کے کتب ستہ کی مختصر شرح ہے۔ اس شرح میں ہے کہ حضرت امام ابو یوسف رحمتہ اللہ نے بیرون نماز دعاء پرقیاس فرماکر یہ بیان فرمایا ہے۔ امام قنوت فجر کو جہراً پڑھے اور مقتدی آہستہ آمین کہیں (چونکہ قنوت فجر کی بعض خاص حالات میں عندالاحناف اجازت ہے) حضرت امام ابو یوسف رحمتہ اللہ علیہ کا قنوت فجر کو بیرون نماز دعاء پر قیاس فرمانا بیرون نماز بالجہر دعاء کی مشروعیت پر دلالت کرتا ہے۔ و عن ابی یوسف رحمتہ اللہ تعالی ان الامام یجھرہ والقوم یومنون علی القیاس علی الدعاء خارج الصلاۃ (مبسوط السرخی جلد یکم ص : 166 ) دعاء ہو کہ قرات قرآن یا ذکر و تسبیح وغیرہ میں چیخنا چلانا یقیناً منع ہے کہ جن کے بارے میں نصوص وارد ہیں۔ ان کو پیش کر کے جہر سے منع کرنا اور دعاء میں اخفاء (آہستہ آواز) کی ترغیب دینا غیر صحیح ہے ۔ جن فرائض کے بعد سنن ہیں جیسے کہ ظہر ، مغرب، عشاء امام کو طویل دعاء سے احتراز کرنا چاہئے کیونکہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے فرض و سنن کے درمیان ’’ اللھم انت السلام و منک السلام تبارکت یا ذالجلال والاکرام کے بقدر ہی توقف ثابت ہے اس لئے عندالاحناف مذکورہ مقدار سے زائد توقف مکروہ اور سنت کے ثواب میں کمی کا باعث ہے ۔ جیسا کہ فتاوی عالمگیری جلد اول ص : 77 میں ہے ۔ و فی الحجۃ اذا فرغ من الظھر والمغرب والعشاء یشرع فی السنۃ ولا یشتغل بادعیۃ طویلۃ کذا فی التاتر خانیہ مبسوط الرخسی جلد اول ص : 28 میں ہے ۔
اذا سلم الامام ففی الفجر والعصر یعقد فی مکانہ یشغل بالدعاء لانہ لا تطوع بعد ھما … واما الظھر والمغرب والعشاء یکرہ لہ المکث قاعدا لانہ المندوب الی النفل والسنن الخ درالمختار ص : 391 میں ہے ۔ و یکرہ تاخیر السنۃ الا بقدر اللھم انت السلام و منک السلام تبارکت یا ذالجلال و الاکرام۔ اس کے حاشیہ رد المحتار میں ہے ۔ روی مسلم والترمذی عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یقعد الابمقدار مایقول اللھم انت السلام و منک السلام تبارکت یا ذالجلال والاکرام۔

اب رہی یہ بات کہ فرض نمازوں کے بعد تسبیحات و بعض اذکار کی ترغیب جو احادیث میں وارد ہیں، ان کو علما ء احناف نے بعد الفرض سے انکا بعد سنن ہونا مراد لیا ہے کیونکہ سنن فرائض کے توابع اور اس کا تکملہ ہیں۔ جیسا کہ ردالمحتار جلد اول ص : 552 میں ہے۔
واما ماوردمن الاحادیث فی الاذکار عقیب الصلوٰۃ فلا دلالۃ فیہ علی الاتیان بھا قبل السنۃ بل یحمل علی الاتیان بھا بعد ھا لان ا لسنۃ من لواحق الفریضۃ و تو ابعھا و مکملا لھا فلا تکن اجنبیہ عنھا فھما یفعل بعد ھا اطلق علیہ انہ عقیب الفریضۃ۔ جمعہ کے فرض و فرض نمازوں کے بعد سورہ فاتحہ ، سورہ اخلاص ، سورہ فلق ، سورہ ناس ، آیت الکرسی ، سورہ بقرہ کی آخری آیات وغیرہ پڑھنے کی ترغیب بہت سی احادیث میں وار دہے۔ علامہ شامی عرف و عادات و آثار کی بناء فرض و سنن اور دعاء سے فراغت کے بعد سورہ فاتحہ پڑھنے کو مستحسن لکھا ہے ۔ فاتحہ سے ایصال ثواب مقصود ہے اور ایصال ثواب اور دعاء مغفرت ہر دو کتب احادیث سے ثابت ہیں اس لئے جن مساجد میں فجر ، عصر ، جمعہ کے سنن کے بعد دعاء کے اختتام پر ’’ الفاتحہ‘‘ کہا جاتا ہے اس میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں بلکہ باعث اجر و ثواب ہے کیونکہ بندہ جب اپنے نیک عمل کا ثواب مرحومین کے لئے ہدیہ کرتا ہے تو اس کا ثواب ان کو پہونچتا ہے اور خود ہدیہ کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ کنز العمال جلد چہارم ص : 164 میں ہے۔
من قرأ بعد الجمعۃ بفاتحۃ الکتاب و قل ھو اللہ احد و قل اعوذ برب الفلق و قل اعوذ برب الناس حفظ مابینہ و بین ا لجمعۃ الاخری در مختار ص : 418 میں ہے : قرأۃ الفاتحہ بعد الصلوۃ جھرالمھمات بدعۃ قال استاذ ناانھا مستحسنۃ للعادۃ والاثار اور رد المحتار میں ہے ۔ (قولہ قال استاذنا) ھو البدلیع استاذ صاحب المجتبیٰ و اختار الامام جلال الدین ان کانت الصلاۃ بعد ہاسنۃ یکرہ والافلا اھ عن الھندیۃ در مختار جلد اور ص : 943 ء میں ہے ۔ صرح علماء نا فی باب الحج عن الغیر بان للانسان ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ او صوما او صدقۃ او غیرھا کذا فی الھدایۃ بل فی کتاب الزکاۃ فی التاتار خانیہ عن المحیط الافضل لمن یتصدق نفلا ان ینوی لجمیع المومنین و المومنات لانھا تصل الیھم ولا ینقص من اجرہ شئی اھ و ھو مذھب اھل السنت والجماعۃ۔

چھوٹے بچے پر سجدۂ تلاوت
سوال : میرا پوترا میرے پاس روزانہ قرآن مجید پڑھتا ہے۔ اب وہ سکینڈ کلاس میں ہے ۔ اس کی عمر آٹھ سال ہے ۔ تلاوت کے دوران کبھی آیت سجدہ آجاتی ہے ۔ میں بعد میں سجدہ کرلیتی ہوں ، اس وقت نہیں کرتی کیونکہ ذرا ہٹتے ہی بچے کھیلنے میں لگ جاتے ہیں ۔ آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ کم عمر بچے بھی جب آیت سجدہ کی تلاوت کریں تو ان پر بھی سجدۂ تلاوت لازم ہوگا یا نہیں ؟
ناضرہ خاتون، ملک پیٹ
جواب : سجدہ ، در حقیقت نماز کے ارکان کا ایک جز ہے جس طرح نماز کے فرض ہونے کے لئے مسلمان ہونا ، عاقل و بالغ ہونا ضروری ہے اسی طرح سجدۂ تلاوت کے لئے بھی عاقل و بالغ ہونا ضروری ہے ۔ الجرالرائق جلد 2 ص : 211 میں ہے ۔ لان السجدۃ جزء من اجزاء الصلوۃ فیشترط لو جوبھا اھلیۃ وجوب الصلاۃ من الاسلام و العقل والبلوغ و الطھارۃ من الحیض والنفاس حتی لا تجب علی کافروصبی و مجنون و حائض و نفساء ۔
لہذا آپ کا پوترا نابالغ ہے اس لئے اگر وہ آیت سجدہ کی تلاوت کرے تو ازروئے شرع اس پر سجدہ تلاوت واجب نہیں۔ تاہم معلومات کے لئے اور عادت ہونے کے لئے اس کو سجدۂ تلاوت کی ترغیب دی جانی چاہئے ۔

شرائط امامت
سوال : شرائط امامت کیا ہیں ؟ کونسا شخص امامت کرسکتا ہے ؟
نام …
جواب : شرعاً ایسے شحص کی امامت درست ہے جو تمام شرائط صحت نماز کا جامع ہو۔ یعنی مسلم ہو، عاقل ہو ، بالغ ہو، طہارت وضوء ، غسل، شرعی طریقہ سے انجام دیتا ہو، صحیح الاعتقاد ہو، تلاوت قرآن صحیح تجویدکے موافق کرتا ہو، احکام صلاۃ فرائض واجبات سنن و مفسداتِ نماز سے واقف ہو ، ہیئت اسلامی و سنن نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا عامل ہو ۔ فاسق و فاجر معلن یعنی علانیہ احکام شریعت و سنن کی خلاف ورزی کرنے والا نہ ہو، نیز اخلاق ذمیمہ کا مرتکب نہ ہو۔
جیسا کہ تنویر الابصار میں ہے : اعلم باحکام الصلوۃ ثم الاحسن تلاوۃ و تجوید اللقرأۃ ثم الاورع ای اکثر اتقا ء للشبھات … ثم الاحسن خلقا … عالمگیری جلد اول باب الامامۃ میں ہے ۔ و یجتنب الفواحش الظاہرۃ۔
صلوۃ الجنازہ کے بعد
سوال : ا یک مسجد میں نماز جنازہ میں شریک ہونے کا اتفاق ہوا ، نماز جنازہ کے بعد بعض قریبی رشتہ داروں نے میت کے دیدار کی خواہش ظاہر کی ، جس پر میت کا کفن کھولکر میت کا دیدار کرایا گیا ۔ قریبی رشتہ داروں کے علاوہ مسجد کے مصلیوں نے بھی دیدار کیا، مگر ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ جب نماز جنازہ ادا کردی جاتی ہے تو پھر میت کا دیدار نہیں کرایا جاسکتا۔ اس سلسلہ میں میری رہنمائی فرمائیں تو مہربانی ۔
محمد عثمان ، تالاب کٹہ
جواب : مسجد میں نماز جنازہ کے بعد میت کے کفن کو کھولکر میت کا دیدار کرانے میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ البتہ بعد تدفین یہ عمل مکروہ ہے ۔ عالمگیری جلد 5 ص : 351 میں ہے : لا بأس بأن یرفع سترالمیت لیری وجھہ وانما یکرہ ذلک بعد الدفن کذا فی القنیۃ۔

اذان ، وظائف سے قبل تعوذ اور درود پڑھنا
سوال : (1) حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہو یا نام نامی آئے تو ذکر کرنے والے اور سننے والے صرف درود پرھنا چاہئے یا اعوذ باللہ ، بسم اللہ پڑھ کر پھر درود پڑھنا چاہئے ؟ مسنون طریقہ کیا ہے ؟
(2) پنج وقتہ نمازوں میں اعوذ باللہ ، بسم اللہ پڑھ کر پھر درود و سلام پڑھ کر اذان و اقامت کہنا سنت ہے کیا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح اذان دینے کی تعلیم فرمائے ہیں کیا ؟ خلفائے راشدین ، صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین ، ہمارے امام ، امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ و حضرت بلال رضی اللہ عنہ پنج وقتہ نمازوں میں اذا ن و اقامت سے پہلے اعوذ باللہ ، بسم اللہ اور درود و سلام پڑھتے تھے یا نہیں ؟
حافظ جمیل الرحمن، کنگ کوٹھی
جواب : بفحوائے آیت قرآنی فاذا قرأت القرآن فاستعذ باللہ من الشیطان الرحیم (جب تم قرآن کی تلاوت کرو تو تم شیطان سے بچنے کیلئے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجاؤ ) تلاوت قرآن کے آغاز سے قبل تعوذ پڑھنے کا حکم ہے ۔
قرآن مجید کے علاوہ دیگر اذکار و اوراد کے لئے تعوذ (اعوذ باللہ من الشیطان الرحیم) ، پڑھنے کا حکم نہیں۔ نیز ہر کام اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک سے کرنا چاہئے ۔ حدیث شریف میں ہے جو بھی کام بغیر بسم اللہ کے شروع کیا جائے تو وہ نامکمل ہے۔ اس لئے ہر کارخیر و مباح کام سے قبل بسم اللہ پڑھنا چاہئے ۔
یایھاالذین آمنو صلو علیہ وسلموا تسلیما ( اے ایمان والو ! تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھو اور خوب سلام پڑھو ۔ اس آیت میں درود و سلام پڑھنے کا حکم مطلق اور عام ہے ۔ انفرادی طور پر اجتماعی طور پر بیٹھ کر حالت قیام میں پڑھ سکتے ہیں لیکن عہد رسالت و قرونِ اولیٰ میں اذان سے قبل تعوذ و تسمیہ اور درود و سلام جھراً پڑھنا ثابت نہیں۔ اس لئے اذان سے قبل بسم اللہ اور درود پڑھیں تو آہستہ پڑھیں ۔ جہر سے سنانے کا ثبوت نہیں۔