بہ تعاون نمائش سوسائٹی ’’تنظیم تحفظِ اردو‘‘ کا دوسرا کامیاب مشاعرہ

شفیع اقبال
نصف صدی سے زائد عرصے سے نمائش سوسائٹی حیدرآباد کے زیر اہتمام ’’کل ہند صنعتی نمائش‘‘ کے ساتھ ساتھ حیدرآبادی تہذیبی و ادبی روایات کے فروغ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہر سال یکم جنوری تا 15 فروری منعقد ہونے والی نمائش کے دوران تہذیبی، ثقافتی اور ادبی پروگراموں اور مشاعروں کے انعقاد کیلئے ادبی انجمنوں ، گلوکاروں اور رقص و سنگیت کے پروگراموں کے انعقاد کیلئے مشاعروں ، گلوکاروں اور دیگر فنکاروں کو مواقع فراہم کرتے ہوئے ان کے فن کے مظاہرے کا اہتمام کرتی ہے۔ اس سوسائٹی کے تحت سابق میں ’’شنکر جی مشاعروں‘‘ کا ہتمام بھی کیا جاتا رہا ۔ ’’شنکر جی کل ہند مشاعرے‘‘ اس قدر کامیاب ہوئے کہ آج بھی حیدرآبادیوں کے ذ ہنوں میں اس کی یاد تازہ ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے ’’تنظیم تحفظ اردو‘‘ کے زیر اہتمام بہ تعاون نمائش سوسائٹی ، نمائش کلب اور کملا نہرو پائینک کالج ، ہال نمائش میدان میں کامیاب مشاعروں اور ادبی اجلاس کا انعقاد عمل میں آتا رہا۔ ’’تنظیم تحفظِ اردو‘‘ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے مشاعروں کی کامیابی اور سامعین کی کثیر تعداد کی موجودگی کا سہرا بانی و صدر تنظیم تحفظِ اردو جناب عارف الدین احمد کے سر جاتا ہے کیونکہ وہ پوری لگن اور جستجو کے ساتھ اور مشاعروں ، فنکاروں اور علمی حلقے کے پروفیسرز، اساتذہ ، خواتین لکچرر سے براہِ راست روابط قائم کرتے ہوئے اپنے پروگراموں کو کامیاب بنانے کی سعی میں ہفتوں مصروف رہتے ہیں ۔ مفادات و منفعت کے بارے میں سوچے بغیر وہ لگاتار جستجو اور کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔
اسی سال 24 جنوری 2018 ء کو تنظیم تحفظِ اردو‘‘ کے زیر اہتمام ایک کامیاب ادبی و مزاحیہ مشاعرے کے بعد نمائش سوسائٹی نے پھر ایک بار انہیں 13 فروری 2018 ء کی شب اردو کے سنجیدہ اور مزاحیہ مشاعرے کے انعقاد کی اجازت دی ۔ وجہ یہ ہے کہ نمائش سوسائٹی ، اردو تہذیبی پروگرام کے کنوینر مسٹر آر سوکیش ریڈی اور رکن سوسائٹی جناب ایم اے جلیل خان نے بہ نفس نفیس مشاعرہ میں شرکت کر کے مشاہدہ کیا کہ مشاعرہ گاہ سامعین سے کھچا کچ بھرا ہوا ہے اور کثیر تعداد میں شعراء حضرات بھی مشاعرے میں موجود ہیں ۔ چنانچہ مشاہدہ کی بنیاد پر نمائش کی نشرگاہ سے اس مشاعرہ کے انعقاد کے خصوصی طور پر اعلان بھی کئے گئے ۔
13 فروری 2018 ء کی شب 7 بجے کملا نہرو پالیٹکنک کالج ہال ، نمائش میدان میں حیدرآباد کے ممتاز شاعر و صحافی جناب شفیع اقبال کی صدارت میں ادبی ا جلاس اور سنجیدہ و مزاحیہ مشاعرہ کا انعقاد عمل میں آیا ۔ جناب عارف الدین احمد بانی و صدر تنظیم تحفظ اردو نے خیرمقدمی و تعارفی تقریر کرتے ہوئے تنظیم کی تعلیمی ، ادبی اور شعری خدمات کا تفصیلی جائزہ لیا ۔ ادبی اجلاس میں ڈاکٹر محمد ناظم علی سابق پرنسپل موڑ تاڑ کالج نے اردو تعلیم کو فروغ دینے کیلئے سامعین سے خواہش کی کہ وہ اپنے بچوں کو اردو ذریعہ تعلیم یا بطور سکنڈ لانگویج اردو سے تعلیم دلوانے کا اہتمام کریں۔ صدر ا جلاس جناب شفیع اقبال نے ’’تنظیم تحفظ اردو‘‘ کی مدرسوں اور جونیئر کالج کے طلباء میں مسابقتی تحریری و تقریری مقابلوں سے طلبہ کی حوصلہ افزائی کا تذکرہ کرتے ہوئے عارف الدین احمد کو خراج تحسین پیش کیا ۔ ادبی اجلاس کی نظامت ڈاکٹر سمیہ تمکین نے بہ حسن و خوبی انجام دی اور سنجیدہ و مزاحیہ مشاعرہ کی نظامت کے فرائض طنز و مزاح کے شاعر لطیف الدین لطیف نے بخوبی انجام دیئے ۔ اس مشاعرے کے انعقاد میں ’’تنظیم تحفظِ اردو ‘‘ کے نائب صدر جناب شیخ سعید احمد اور جنرل سکریٹری ، جنابمحمد عثمان نے بھرپور تعاون کیا ۔ مہمانوں اور شعراء کرام کو شال پوشی کے ذریعہ تہنیت پیش کی گئی ۔
ناظم مشاعرہ لطیف الدین لطیف نے یوسف الدین یوسفؔ کی حمدِ پاک اور پروفیسر ریحانہ سلطانہ کی صاحبزادی محترمہ زبیدہ پروین کی نعتِ شریف سے مشاعرہ کا آغاز کیا اور اپنا ایک قطعہ سامعین کی نذر کیا ۔
اپنا شعارِ زیست ہی ایسا بنائیں ہم
اپنی زبان کے لئے کچھ کام آئیں ہم
اردو زبان زندہ رہے گی تبھی اگر
بچوں کو اپنے اردو پڑھائیں لکھائیں ہم
ناظمِ مشاعرہ نے حیدرآباد کے ابھرتے ہوئے مترنم شاعر باسط علی رئیس سے مشاعرہ کا آغاز کیا جن کو داد و تحسین سے نوازا گیا ۔
شور کیا ہے اُسے پتہ ہی نہیں
گھر سے باہر وہ جب گیا ہی نہیں
چل پڑے ساتھ کارواں کے مگر
اپنی منزل کا کچھ پتہ ہی نہیں
ان کے بعد سہیل عظیم کو آواز دی گئی ؎
جشن غم روز مناتے ہیں سخنور کتنے
ہم نے زخم بھی رکھے ہیں سجا کر کتنے
بعد ازاں جدت اسلوبی مائک پر آئے ؎
بھول جانے میں جن کو زمانے لگے
درد دل میں اٹھا یاد آنے لگے
مزاحیہ شاعر سید سمیع زماں سماعیؔ کو آواز دی گئی ۔
یہ ڈالر یہ دینار درہم نکو
وطن سے دور اپنوں کا غم نکو
پھر ہندی کے شاعر دیپک والمیکی نے پیروڈی سنکر داد حاصل کی ؎
روز میرے گھر میں تو تندانہ ہوتا ہے
کبھی بڑی کبھی چھوٹی کو سمجھانا ہوتا ہے
بزرگ شاعر خلش حیدرآبادی نے اپنا کلام یوں پیش کیا ؎
اک بار تم کو دل میں بسایا تھا یاد ہے
آنکھوں میں کبھی مچلانا کوئی خواب
اُبھرتے ہوئے شاعر تشکیل انور رزاقی نے ترنم میں کلام سناکر داد حاصل کی ؎
یہی گلہ ہے کہ سکھ کا نگر نہیں آیا
تمام عمر چلے اور گھر نہیں آیا
ممتاز شاعرہ اسریٰ منظوری نے ترنم میں غزل سناکر داد حاصل کی ؎
دل جو ٹوٹا میرا تو یہ جانا
آئینے بھی فریب کھاتے ہیں
ہندی کے سنجیدہ و مزاحیہ شاعر گوئند اکشئے سے مزاحیہ کلام کی ناظم مشاعرہ نے خواہش کی ؎
دلہن نے منہ دکھایا جب گھونگھٹ اُتار کے
کمرہ سے دولہا بھاگ گیا چیخ مار کے
شاعر و صحافی نسیم اعجاز نسیم نے یوں غزل سرائی کی ؎
پتھر ہوں مجھ کو بت نہ بنا یوں تراش کر
میرا بھی اک خدا ہے ، اسی کو تلاش کر
حیدرآباد کے مشاعروں میں اپنی پہچان بنانے والے کانپور سے آئے ہوئے مترنم شاعر شکیل حیدر کو دعوتِ سخن دی گئی ۔ شعر ملاحظہ ہو ؎
میرے کردار پہ الزام لگانے والو
کہنا مجھ کو بہت کچھ ہے مگر جانے دو
حیدرآباد کے مشاعروں میں خواتین کی نمائندگی کرنے والی شاعرہ محترمہ تسنیم جوہر کو ناظم مشاعرہ نے دعوتِ کلام دی ۔ جنہوں نے ترنم میں اپنا کلام پیش کیا۔ ان کے کلام کو بے حد پسند کیا گیا۔
ان کے بعد ناظم مشاعرہ ، طنز و مزاح کے شاعر لطیف الدین لطیفؔ نے اپنا کلام پیش کیا ؎
مشاعرے کے مہمان خصوصی شاعر و گلوکار یوسف الدین یوسف کو دعوتِ کلام دی گئی ؎
ہوا بھی اُن کے گھر مجھ پہ برہم ہوتی جاتی ہے
یہ منظر دیکھ کر یہ آنکھ بھی نم ہوتی جاتی ہے
مخصوص لب و لہجہ کے سینئر شاعر انجم شافعی مائک پر آئے اور یوں غزل گوئی کی ؎
خواہش ہے کوئی پیکر حسن و صفا بھی ہو
جانِ غزل ہو اور صنم آشنا بھی ہو
انجمؔ شناس ہوں تو ہو ہمدرد و ہم نشین
شیرین کلام ہو تو وہ با اعتنا بھی ہو
فرزندِ طالب رزاقی، ڈاکٹر ناقد رزاقی یوں غزل سرا ہوئے ؎
گفتگو جب کبھی وہ کرتے ہیں
ٹوٹ کر آئینے بکھرتے ہیں
اب صدرِ مشاعرہ کی باری آئی ۔ ممتاز شاعر و صحافی جناب شفیع اقبال نے اپنا منتخب کلام پیش کر کے داد و تحسین حاصل کی ۔
خلوص بانٹیے ہر وقت دردمندوں میں
اسی ہنر سے ہی تسخیر کائنات ہوئی
لفظوں کے تیر تم نے ہواؤں میں چھوڑکر
کس کو لگا ہے زخم کہاں ، دیکھتے رہے
صدر مشاعرہ کے کلام کے بعد صدر تنظیم تحفظ اردو جناب عارف الدین احمد کے شکریے پر یہ کامیاب مشاعرہ سامعین کی کثیر تعداد کی تالیوں کی گونج میں اختتام کو پہنچا۔