بہو بھی تو بیٹی ہوتی ہے !

محمد وارث حسین
آج صبح جب ساجدہ اپنے گھر سے اسکول جانے کے لئے نکل رہی تھی اس کا چھوٹا لڑکا شاہد اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھا شاہد ابھی صرف ایک سال کاتھا اور جب کبھی ساجدہ کو اسکول جانا ہوتا تو وہ شاہد کو اپنے شوہرساجد کے پاس سوتا ہوا چھوڑ کر جاتی اس لئے کی اگر وہ اٹھ جائے تو جانے نہیں دیتا اور رو رو کر سارا گھر سر پر اٹھا لیتا ۔ساجدہ کا اسکول حیدرآباد سے ستر کلومیٹر دور چول پلی میں تھا اور وہ ہر پیر کو اپنے اسکول کے لئے صبح صبح اسکول چلی جاتی اور ہفتے کی رات نو بجے گھر واپس آتی۔ ساجدہ گورنمنٹ سگنل ٹیچر اسکول میں پانچ سو روپئے کی کانسالیڈیٹڈتنخواہ پر کام کررہی تھی۔ اس کا اسکول ایک ہی ٹیچرکا اسکول تھا اور وہاں پر اس کے علاوہ کوئی اور نہیں تھاگاؤں بھی بہت چھوٹا سا تھا جس میں تین سو یا چار سو لوگ رہتے تھے ۔سرکار کی نئی پالیسی کے تحت یہ اسکولس قائم کئے گئے تھے تاکہ گاؤ اور قصبے والوں کے بچوں کوبھی پڑھنے کا موقع ملے ۔اس نے گاؤ ں میں ایک کمرہ کرائے پر لے لیا تھا اسکول کے بعد وہ اکیلے اس کمرے میں رہتی تھی۔ ساجدہ ویسے تو بی،ایس ،سی ،بی ،ایڈ تھی ٹیچرس ٹریننگ بھی پاس کرچکی تھی اسے حیدرآباد کے بڑے اسکولس میں نوکری کے موقعے بھی ملے تھے جہاں پر اسے تین تا چار ہزار کی تنخواہ مل سکتی تھی، لیکن اس نے یہ مدرسہ اس لئے جوائن کیا تھا کیونکہ حکومت کی طرف سے یہ سہولت تھی کہ ان اساتذہ کی نوکری پکی کردیجائیگی ۔اس امید سے کہ کل کو سرکاری ملازمت پکی ہوجائیگی اس جیسی کئی اساتذا ان مدارس میں پانچ سو رروپئے کی معمولی تنخواہ پر کام کررہے تھے ۔آج جب ساجدہ اپنے بچے کو اٹھا دیکھا تو وہ بہت پریشان ہوگئی کیونکہ روتے ہوئے بچے کو چھوڑ کر جانا اس کے لئے مشکل اورپریشان کن مسئلہ تھا ۔

کیونکہ آج پیر کا دن تھا اور ہفتے کا پہلا دن بھی اسے جانا ضروری تھا۔ ویسے تو اسے اپنے گھر سے چول پلی پہنچنے کے لئے صرف ایک گھنٹہ لگتا ہے لیکن وہ ہمیشہ شاہد کے اٹھنے سے پہلے صبح چھ بجے تقریباً تین گھنٹے پہلے چلی جاتی تھی تاکہ اسے جانے میں کوئی دشواری نہ ہو اور وہ آسانی سے چلی جائے ۔اس کا چھوٹا لڑکا شاہد جب اسکی کوکھ میں آیا تبھی اسے یہ نوکری کاکال لیٹر آیا ،سب لوگ خوش ہوئے کہنے لگے کہ بیٹے کے قدم بہت مبارک ہیں دیکھنا اس کے پیدا ہونے تک تمھاری نوکری پکی ہوجائیگی ۔حمل کے دوران پورے نو مہینے اس نے اس گاؤ میں تن ِتنہا گزارا۔ چھوٹا سا گاؤں ہونے کی وجہ سے اس گاؤ میں کوئی زیادہ سہولتیں بھی نہیں تھیں بجلی بھی کبھی کبھار رہتی تھی ۔جو وقت اسکول میں وہ پڑھاتی رہتی تھی وہ وقت آسانی سے گزر جاتا تھا لیکن اسکول کے بعد کا وقت گزرنا بہت مشکل تھا وہ بڑی بے چینی سے ہفتے کا انتظار کرتی تاکہ وہ حیدرآباد جاکر اپنے چھوٹے سے شاہد سے مل کر اپنی ممتا اس پر لٹا سکے۔ شاہد کے علاوہ اس کے دواور لڑکے زاہد اور جاویدتھے ۔اتوار کا دن جیسے پلک جھپکتے ہی گزرجاتا اور پھر ایک ہفتے کا مشکل سفر شروع ہوجاتا ۔ایک امید اور آس میں ساجدہ اپنا وقت گزاررہی تھی جب کبھی بچوں کی یاد آتی تو وہ بہت بے چین ہوجاتی خاص طور سے ننھے شاہد کا خیال آتا تو اس کی آنکھیں بھرآتی ۔وہ معصوم بھی اپنی اس چھوٹی سی عمر میں اپنی ماں کی ترقی کے لئے اپنی قربانی دے رہا تھا ۔وہ اپنے آپ کو یہ سوچ کر تسلی دیتی کہ کچھ مشکل کے دن گزارنے کے بعد راحت والے دن آئینگے ۔یہ سوچ اس کے اندر ایک نیا جذبہ ایک نئی طاقت ڈال دیتی ۔شاہد کی پیدا ئش کے بعد ویسا کچھ نہیں ہوا جیسا خاندان کے بڑے کہہ رہے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے شاہد ایک سال کا ہو گیا ۔بہرحال اس نے کسی طرح شاہد کوسمجھا بجھا کر سلایا اور اپنے مدرسے کے لئے چل پڑی بس اسٹینڈ پہنچی تو بس جاچکی تھی دوسری بس ایک گھنٹے کے بعد تھی اور اسے مجبوراً ایک گھنٹہ بس کے انتظار میں بس اسٹینڈ پر گزارنا تھا ۔بس چھوٹ جانے کا اور بس اسٹینڈ پر مزید ایک گھنٹہ گزارنا اس کے لئے بہت بے چینی کا سبب تھا یہ گھنٹہ اگر اسے اپنے گھر پر مل جاتا تو وہ اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ خوشی سے گزار سکتی تھی ۔

بس کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے ساجدہ اپنے ماضی کے پننے پلٹ رہی تھی اور اس کے اندر کے واقعات اس کے آنکھوں کے سامنے دوھرائے جارہے تھے ۔حالانکہ اس کی شادی کو ہوئے پانچ سال ہو گئے تھے شادی سے لیکر آج تک کے تمام حالات اسے ایسے یاد تھے جیسے کل ہی کی بات ہو ۔ماضی کے ان پنوّں میں جب اس نے اپنی زندگی کے وہ سارے خوشحال لمحوں کو یاد کیا تو اس کا چہرہ خوشی سے منور ہو گیا اور اپنی قسمت پر رشک کرنے لگی ۔اتنا اچھا شوہر ساجد کے روپ میں ملا اور اتنے چہیتے ساس سسرے نصیبوں والوں کو ہی ملتے ہیں ۔یہ اس کی خوش نصیبی ہی تھی کہ اس نے شادی کے ایک سال بعد ہی ایک لڑکے کو جنم دیا ۔ویسے تو ماں بننا ہی بہت بڑی بات ہوتی ہے اور اگر پیدا ہونے والا لڑکا ہو تو ما ں کی عزت اور رتبہ اور بڑھ جاتاہے سارا خاندان اس بات سے بہت خوش تھا کہ ان کے یہاں نرینہ اولاد پیدا ہوئی ہے۔ بھرے پورے خاندان میں بیاہی گئی ساجدہ،جب سسرال پہنچی تواپنے سسرال میں ساس سسر کے علاوہ تین نندیں اور ایک دیور کوپایا تھا ۔سسر صاحب تعلیمی محکمے میں اچھے عہدے پر فائز تھے اور ان کی محکمے میں اچھی عزت تھی اثر رسوخ بھی بہت زیادہ تھے ۔بڑی نند کی شادی ہوگئی تھی گھر میں دو چھوٹی نندیں اور ایک دیور تھے ۔چھوٹا دیور اور نند اسکول میں پڑھ رہے تھے دوسری نند بی،ایس ،سی ،بی ،ایڈ کرکے سرکاری نوکری کی تلاش میں تھی گھر والے تو چاہتے تھے کہ بیٹے کی شادی سے پہلے اس کی شادی کردیں لیکن وہ بضد تھی کہ سرکاری ملازمت ملنے کے بعد ہی وہ شادی کریگی ۔کافی سمجھانے پر بھی وہ راضی نہیں ہوئی تو ماں باپ نے اپنے بڑے بیٹے ساجد کی شادی کا ارادہ کیا ۔بہت ساری لڑکیوں کو دیکھنے کے بعد دوچار لڑکیوں میں انھوں نے ساجدہ کو پسند کیا۔ساجدہ کے لئے اس لئے بھی راضی ہوگئے کیونکہ وہ پڑھی لکھی تھی اور وہ بھی سرکاری ملازمت تلاش کررہی تھی ۔ساجدہ کے والد نے بھی سوچا تھا کی اپنی لڑکی کی شادی سرکاری ملازمت ملنے کے بعد ہی کرائیں گے یا وہ چاہتے تھے کہ اسے کوئی سرکاری ملازم لڑکا ملے ۔کیونکہ ساجدہ کے ہونے والے شوہر سرکاری ملازم تھے انھوں نے سوچا کہ شادی کے بعد وہ سرکاری ملازمت کرلیگی اوراس طرح وہ بھی اس رشتے کے لئے راضی ہوگئے۔ ایک بات اور بھی تھی کہ ساجد کے والد کیونکہ تعلیمی محکمے میں تھے انھوں نے ساجدہ کے والد کو اطمینا ن دلایا کہ وہ جلد سے جلد ان کی لڑکی کو سرکاری ملازمت دلادینگے ۔ایک دو سال میں سرکاری اساتذہ کے لئے امتحان ہونے والے ہیں میری لڑکی رفیعہ امتحان کی تیاری کرر ہی ہے ساجدہ بھی اس کے ساتھ امتحان لکھے گی۔ انھوں نے ساجدہ کے والد سے کہا کہ آپ بے فکر رہیں اگر تھوڑا بھی موقع رہا تو میں ان دونوں کو ملازمت دلا دونگا ۔ وہ اتنے یقین سے اس لئے بھی کہہ رہے تھے کیونکہ دو سال پہلے انھوں نے اپنی بڑی لڑکی کو بھی سرکاری ملازمت دلائی تھی ۔کہتے ہیں کہ اثر رسوخ سے نہیں ہونے والے کام بھی ہوجاتے ہیں اور پھر ہمارے یہاں قابلیت سے زیادہ سفارش سے کام ہوتے ہیں اور سفارش جتنا بڑا آدمی جتنا رسوخ والا کرے کام اتنا جلدی ہوجاتا ہے اور وہ تو کافی اثر رسوخ رکھتے تھے ۔

شادی کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے اور اس کے بعد اپنے بچوں کی پیدائش ساس سسروں کے لاڈ پیار اور غصے کی باتیں یاد کرتے کرتے جب اس کا خیال اس بات پر آیاتو وہ چونک کر رہ گئی اپنے آپ کو بہت پریشان پایا دل کی دھڑکنیں بہت تیز ہوگئیں ۔ایسا کونسا واقعہ کونسی بات تھی جو اسے اس قدر بے چین کردیا ۔تھوری دیر بعد جب سانسوں کی کیفیت بدلی اور معمول پر آئی تو اس نے اس بات کو یاد کیا ۔ساجدہ اور اس کی نند رفیعہ دونوں امتحان کی تیاری کررہے تھے انھوں نے ایک ادارے میں بھی شرکت لے لی تھی جہاں امتحان کے لئے تیار کیاجاتا ہے ۔ اساتذہ کے تقرر کے لئے امتحان کی تاریخ کا اعلان ہوچکا تھا وہ بہت محنت سے پڑھ رہے تھے دونوں ساتھ ساتھ ادارے کو جاتے ۔لگ بھگ ایک ہی عمر کے ہونے کی وجہ سے دونوں میں اچھی دوستی اور بے تکلفی ہوگئی تھی ایک دوسرے سے کافی اُنسیت بھی ہوگئی تھی ۔کیونکہ ساجدہ اپنے اسکول کے زمانے سے ہی بہت اچھی طالب علم تھی اور اچھا پڑھنے کی وجہ سے پورے مدرسہ اور کالج میں اساتذہ کی بہت پسندیدہ تھی ۔اسے پڑھنے میں کوئی دشواری نہیں ہورہی تھی اور وہ ہر بات آسانی سے سمجھ جاتی رفیعہ اکثر اپنی بھابھی سے کہتی کہ بھابھی یہ نوکری آپ کو ضرور مل جائیگی ۔آپ دیکھنا آپ بہت اچھے نمبر سے کامیاب ہوجائینگی بلکہ ساری ریاست میں آپ کا نام سرفہرست آئیگا ۔ساجدہ کیونکہ اچھا پڑھنے والی تھی اورتیاری بھی اچھی کررہی تھی اسے اپنی نند کی ہر بات سچ لگ رہی تھی کافی خوش اور بہت مطمئن تھی کہ وہ ۔حالانکہ گھر گرہستی کی ذمہ داریاں اور بچوں کی دیکھ ریکھ میں اسے پڑھنے کے لئے کچھ زیادہ وقت نہیں ملتا تھا ۔ماں ہونے کے ناتے بہو ہونے کے ناتے اس پر کافی ذمہ داریاں تھیںان ذمہ داریوں سے فارغ ہونے کے بعد جتنا بھی وقت اسے ملتا وہ اس میں دل لگاکر پڑھتی ۔ ادھر اس کی نند رفیعہ رات دن صرف پڑھائی میں ہی وقت گزارتی تھی اور وہ بھی جی جان لگاکر محنت کررہی تھی ۔اتنی محنت کے باوجود بھی اسے اطمینان نہیں تھا اپنے سے زیادہ اسے بھابھی کی کامیابی کا پورا یقین اور بھروسہ تھا۔ وہ تو ہر بار یہ کہتی کہ بھابھی کاش میں بھی آپ جیسی تیاری کرتی اور میرا ذہن بھی آپ جیسا تیز ہوتا۔ساجدہ اسے ہر بار تسلی دیتی اور کہتی ڈرو نہیں تم بھی اچھے نمبر سے کامیاب ہوگی اور تمھیں یہ ملازمت مل جائیگی ۔ایک آد بار تو اس کے حوصلے کو بڑھانے کے لئے یہ کہہ گئی کہ اگر تمھیں یہ ملازمت نہیں ملے گی تو میں اپنی ملنے والی ملازمت تمھیں دیدونگی۔ رفیعہ یہ بات کو سن کر کہتی کہ بھابھی ایسا بھی کہیں ہوا ہے کہ کوئی اپنی سرکاری ملازمت کسی اور کو دیدے، یہ سب خانگی ملازمت میں ہو سکتا ہے سرکاری ملازمت میں نہیں ۔ کوئی کیسے اور کیو ں اپنی سرکاری ملازمت جو زندگی بھر کا اثاثہ ہوتی ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی اپنے اہل و عیال کے لئے وظیفہ چھوڑ کر اطمینان سے سپرد خاک ہونے کا موقع دیتی ہے دوسروں کے لئے چھوڑے گا۔ سرکار تو اپنے ملازمین کے لئے تجہیز و تدفین کا خرچہ بھی اٹھاتی ہے ۔

امتحان کا دن آیا دونوں کا مرکز شہر کا الگ الگ کالجس پر پڑا تھا سسرے صاحب رفیعہ کے ساتھ گئے اور ساجدہ اپنے شوہر کے ساتھ شہر سے دور امتحانی مرکز پر امتحان لکھنے گئی۔دونوں نے اپنا اپنا امتحان اچھا لکھا رفیعہ تو کافی مسرور تھی اسے بڑا یقین تھا کہ وہ اچھے نمبر سے پاس ہوجائیگی بلکہ کبھی کبھی اسے یہ خیال بھی آتا کہ اس نے بھابھی سے اچھا امتحان لکھا ہے۔ اُدھر ساجدہ بھی بہت مطمئن تھی دونوں نے ایک دوسرے کا پرچہ چک کیا رفیعہ نے دو چار آسان سوالوں کا غلط جواب دیا تھا۔ ساجدہ جانتے ہوئے بھی اپنی نند کو نہیں کہا کہ اس نے غلط جواب دیا ہے وہ تو اسے دیکھ کر بہت خوش ہورہی تھی ۔وہ نہیں چاہتی تھی کی رفیعہ اس بات کو جانے اور وہ غمگین ہوجائے ۔
ایک دو روز میں سسر صاحب نے دونوں کے نمبرات معلوم کئے ساجدہ کو رفیعہ سے دس فیصد نمبرات بڑھ کا آئے تھے اور ریاست کے حساب سے دونوں کے رینک میں قریب سو نمبر کا فرق تھا لیکن اگر اردو میڈیم کی بات کریں تو دونوں میں دس نمبر کا فرق تھا مقامی غیر مقامی کے حساب سے فرق اور کم ہوگیا اور اب یہ صرف دو رینک کا تھا۔انٹرویو کے کال لیٹر س دونوں کے لئے آئے ۔دونوں کا دو مختلف دن انٹر یو تھا ۔سب بے چین تھے ساجدہ کی بے چینی زیادہ تھی کیونکہ اسے یہ خیال بار بار ستا رہا تھا کہ کیا ہوگا اگر وہ سلیکٹ ہوجائیگی اور اسے ملازمت مل جائیگی اور خدا نخواستہ اس کی نند کو ملازمت نہ ملے ۔اسے اپنی نوکری ملنے کو پکا یقین ہوگیا تھا کیونکہ جملہ نو امیدوار کا تقرر ہونا تھا اور یہ آٹھ نمبر پر تھی اور اس کی نند کانمبر دس تھا ۔سارے لوگ پریشان تھے سب کو یہی فکراور خواہش تھی کہ دونوں کو جاب مل جائے رفیعہ کیونکہ دس نمبر پر تھی اس کا سلیکشن ہونا نا ممکن تھا۔ ویسے اس کے لئے اس کے والد ایڑی چوٹی کا زور لگارہے تھے۔ وہ قانون کے ہر پہلو کو غور سے پڑھ رہے تھے ،تاکہ کوئی انھیں چھوٹی سی راہ ملتی ہے تو وہ اس کا فائدہ اٹھاتے اور اپنی بیٹی کو نوکری پر لگالیتے ۔
اودھر ان کے سسر صاحب ایک ہی فکر میں تھے کہ کیا کریں کہ ان کی بیٹی کو بھی نوکری مل جائے ۔انھوں نے بہت کوشش کی لیکن ہر بار انھیں ناکامی ہی ہوئی ۔اپنا پورا زور لگایا مگر کچھ نہیں ہوا ،D E O،ڈپٹی انسپکٹر آف اسکول جہاں جہاں ان کی پہچانت تھی وہاں وہاں کوشش کی مگر بے فیض رہا ۔مایوسی کا اثر ان کے چہرے پر نظر آرہاتھا بلکہ پورا گھر غم میں ڈوبا ہوا تھا ۔رفیعہ بھی بہت مایوس تھی اس کے چہرے پر ماتم چھایا تھا ۔کھانہ پینا بھی کچھ حد تک چھوڑ دیا تھا بلکہ وہ اس دعوت میں بھی نہیں گئی جہاں پر اس کی پیاری بھابھی کی کامیابی کا جشن منایا گیا تھا ۔
اُس تقریب کے بعد ساجدہ اپنے امی کے گھر پر ہی تھی اس کے مامو،چچا اور خالائیں وغیرہ بھی اپنے گھر بلاکر اس کی گل پوشی کررہے تھے ان سب دعوتوں میں بڑی خوشی کے ساتھ اس کا شوہر ساجد بھی شریک ہوا ۔ان کے سسرے صاحب ابھی بھی ہمت نہیں ہارے تھے اب کی بار وہ سینئر کے گھر پہنچ گئے جو چار سال پہلے آفس سپرنڈنٹ ہوکر ریٹائڈ ہوئے تھے ۔یہ لوگ انھیں بڑے صاحب کہتے تھے انھیں اپنے گھر دیکھ کر سپرنڈنٹ چونک گئے، چار سال میں کبھی نہیں آنے والا شخص آج کیسے ان کے گھر آیا اوروہ بھی اس حال میں جیسا کی سب کچھ ہار گیا ہو ۔خیر خیریت کے بعد بڑے صاحب سے انھوں نے اپنی پوری پریشانی بتائی ۔ساری بات سننے کے بعد بڑے صاحب نے کہا کہ کچھ نہیں ہو سکتا ساری کوششیں تو تم کر ہی چکے ہو ۔گھنٹہ بھر وہاں گزارنے کے بعد جب سسرے صاحب اجازت لیکر نکل رہے تھے اور اس سے پہلے کہ وہ گھر سے باہر نکلتے بڑے صاحب نے پیچھے سے انھیں آواز دے کر بلایا اور ایک تجویز ان کے سامنے رکھی ،کہ اگر ایسا کروگے تو تمھاری لڑکی کو نوکری آسانی سے مل جائیگی سسرے صاحب کو یہ تجویز پسند نہیں آئی اور انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ بڑے صاحب سمجھاتے رہے لیکن انھوں نے ان کی بات نہیں مانی اور وہاں سے اٹھ گئے ۔بڑے صاحب بولے دیکھو میاں اگر تم میری تجویز پر عمل کروگے تو تمھاری لڑکی کو نوکری مل جائیگی اور اس کی شادی کی راہ بھی ہموار ہوجائیگی اور اگر تم نے نہیں مانا تو دوسرے تقررات ہوتے ہوتے چار سال اور لگ جائیںگے اور چار سال میں آپ کی بیٹی کی عمر کیا ہوجائیگی آپ جانتے ہو ۔سسرے صاحب نے پھر بھی حامی نہیں بھری اور گھر کی طر ف نکل پڑے ۔

گھر آتے آتے رات کے بارہ بج گئے تھے گھر کے سارے حضرات سو گئے تھے ۔سسرے صاحب نے اپنی بیوی کو اٹھایا اور بڑے صاحب کی تجویز سامنے رکھی ۔انھیں بھی یہ بات پسند نہیں آئی ۔رات بھر باتوں کا سلسلہ چلتا رہا اور صبح ہوتے ہوتے انکاراور اقرارکے درمیان اقرار کی جیت ہوئی اور ان دونوں نے یہ طے کرلیا کہ بڑے صاحب کی تجویز مانتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں اب اس تجویز سے کسی کو نقصان ہو یا نہ ہو انھیں اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ۔صبح ناشتے پر گھر کے سارے لوگوں کے سامنے وہ تجویز رکھی گئی جس میں ساجد بھی تھے انھوں نے اس تجویز کی کچھ دیر تک مخالفت کی لیکن آخر میں انھوں نے بھی ہامی بھر دی۔ساجدہ کیونکہ اپنے میکے میں تھی اس کے آنے انتظار کیا گیااور اسے کچھ نہ بتانے کو کہا گیا۔ساجدہ گھر آئی اورجب وہ گھر میں داخل ہوئی اور گھر کے حالات اور لوگوں کے حالات دیکھ کر وہ بہت پریشان ہوئی۔ اس نے وجہ جاننے کی بہت کوشش کی مگر کسی نے اسے کچھ نہیں بتایا ۔اس نے اپنی ہر دلعزیز چہیتی نمبر ون نند سے بھی وجہ پوچھی ،وہ منھ پھیر کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بات کرتی رفیعہ نے اپنا دروازہ اس کے منھ پربند کردیا ۔اسے بہت ساری باتیں رفیعہ سے کہنی تھی ،شاپنگ میں خریدی گئی ساڑھیاںاور ڈریسز دیکھانی تھی اور بھی تیاریاں جو اس نے نوکری جوائن کرنے لئے کی تھی وہ سب بتانا تھا ۔
رات میں جب سسر صاحب آئے تو کھانے کے ٹیبل پر سب جمع ہوئے ۔سارے لوگ سوالیہ نظروں سے ساجدہ کی طرف دیکھ رہے تھے ساجدہ کو ذرہ برابر بھی اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ ان لوگوں کی نظریں کیا سوال کررہی ہیں۔ کچھ دیر بعد سسرے صاحب نے خاموشی توڑی اور ساجدہ سے کہا دیکھوبیٹے ہم لوگ ایک تجویز لائے ہیں جس سے تمھاری چھوٹی نند جو تمھیں بہن سے زیادہ عزیز ہے اس کی زندگی سنور جائیگی ۔اس کے لئے تمھیں قربانی دینی ہوگی اور وہ قربانی یہ ہوگی کہ تم نوکری جوائن نہیں کروگی اور تمھارا تقررردہوجائیگا کیونکہ تمھارے بعد رفیعہ کا نمبر ہے اسے یہ نوکری مل جائیگی ۔ساجدہ کو سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہے اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی ساس نے کہا کہ دیکھو بیٹی تمھیں جاب کی اتنی ضرورت نہیں ہے جتنی رفیعہ کو ۔تمھارا شوہر تو سرکاری ملازم ہے اور تمھاری شادی بھی وقت پر ہوگئی ہے ۔اپنی نند کے بارے میں سوچو، اور چار سا ل بغیر شادی کے کیسے رہیگی ۔تم آئندہ چارسال کے بعد امتحان لکھ کر نوکری حاصل کرلوگی اور تمھیں نوکری مل بھی جائیگی ۔مجھے تمھاری قابلیت پر پورا بھروسہ ہے اور ہماری دعائیں بھی تمھارے ساتھ ہیں ۔ساجدہ کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں اور کیوں کہہ رہے ہیں ۔اس نے اپنے شوہر ساجد کی طرف دیکھا تو وہ بھی منھ لٹکا کر بیٹھا تھا نظریں ملی تو اس نے اپنی نظریں جھکالیں ۔کہاں تو وہ اپنے حسین مستقبل کو لیکر خوش تھی اور کہاں یہ تجویز جو اگر وہ مان لے تو اس کا مستقبل بکھر جائیگا ۔یہ سب صرف اس لئے کہ وہ بہو ہے ۔اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اس نے اپنی ساس کی طرف دیکھااور جذبات سے بھری ہوئی آواز میں کہا بہو بھی تو بیٹی ہوتی ہے پر انھوں نے کچھ جواب نہیں دیا اور اپنی بات پر اڑی رہی ۔بہت منانے اور سمجھانے کے بعد ساجدہ نے طے کرلیا کہ وہ اپنی نند کے لئے یہ قربانی دے گی ۔اس کے میکے والوں نے اسے بہت سمجھایا پر وہ فیصلہ کرچکی تھی اور اس نے اپنی نوکری اپنی نند کو دیدی۔ محکمے کے کچھ معاملات کے بعد جو ان کے سسر نے بآسانی حل کرلیا رفیعہ کو نئی نوکری مل گئی ۔ دوسرے دن وہ اپنی نئی نوکری جو اس کے گھر سے قریب مدرسے میں ملی تھی جوائن کرلی ۔
بس کے ہارن کے ساتھ ہی ساجدہ ماضی کے بھیانک باتوں کے تصور سے نکل کرحال میں آئی جہاں اسے بس میں بیٹھ کر اپنے شوہر اور اپنے تین معصوم بچوں کوچھوڑ کر دور جانا تھا پورے ایک ہفتے کے لئے ۔اس نے اپنے آنسو پونچھے اور بس میں سوار ہوگئی ۔