بہانہ بازی

 

میرا کالم سید امتیاز الدین
ہر انسان میں کچھ فطری صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ کھیل کود ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ہم جب مڈل اسکول میں پڑھتے تھے تو ہمارے ڈرل ماسٹر صاحب (جنہیں ڈرل ماسٹر کہا جائے توبہت خفا ہوتے تھے اور فزیکل انسٹرکٹر کہلانا پسند کرتے تھے) ہم سے ہمیشہ ناراض رہتے تھے کیونکہ ہم کوئی کھیل نہیں جانتے تھے ۔ ڈرل کا گھنٹہ ہمارے لئے سخت اذ یت کا گھنٹہ ہوتا تھا ۔ کلاس کے ساتھی ہم پر ہنستے تھے اور ڈرل ماسٹر صاحب ہماری صحت کے تعلق سے تشویش میں مبتلا رہتے تھے ۔ بھاگ دوڑ ، اچھل کود سے ہم کو کبھی سروکار نہیں رہا ۔ ہم اُسی وقت دوڑنے کے قابل تھے جب کوئی ہمارے پیچھے دوڑ رہا ہو۔ چنانچہ ہم ڈرل کے پریڈ میں بالعموم پاؤں میں موچ کا بہانہ کرتے تھے ۔ ہر بار یہ بہانہ کارگر نہیں ہوتا تھا ۔ اسی طرح ہمارے بعض دوسرے ساتھی تھے جو کھیل میں بہت اچھے تھے لیکن پڑھنے لکھنے میں نہایت غبی تھے ۔ ہمارے یہ ساتھی ہوم ورک نہ لانے کیلئے ہر روز نئے بہانے بناتے تھے ۔ یہاں تک کہ سالانہ امتحان بھی ڈرل ماسٹر صاحب کی کوششوں سے کامیاب ہوتے تھے ۔ بہرحال بہانے بنانا بھی فنونَ لطیفہ میں سے ایک فنِ لطیف ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جسے کبھی بہانہ بنانے کی ضرورت نہ پڑی ہوگی۔ بعض لوگ نہایت بھونڈے بہانے بناتے ہیں جنہیں سن کر ان کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ ہمارے ایک دوست ایسا ہی ایک بھونڈا بہانہ سنایا کرتے تھے ۔ قصہ یوں ہے کہ ایک صاحب کے پاس ایک بار کچھ مہمان آگئے ۔ ان کے گھر میں ایک پلنگ کی کمی پڑ گئی ۔ چنانچہ وہ اپنے پڑوسی کے پاس گئے اور اس نے ایک رات کیلئے ایک پلنگ مستعار مانگا ۔ پڑوسی نے کہا ’’معاف کیجئے میں آپ کو پلنگ ضرور دے دیتا لیکن کیا کروں میرے پاس صرف دو پلنگ ہیںاور ایک پلنگ پر میری والدہ اور میری بیوی سوجاتی ہیں ۔ دوسرے پر میرے والد اور میں سوجاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بھونڈا بہانہ تھا ۔ چنانچہ ان صاحب نے کہا ’’بھائی میرے ! اگر آپ پلنگ نہیں دینا چاہتے تو مت دیجئے لیکن کم از کم سونے کی ترتیب بدل دیجئے ۔

بہانہ بازی کی ابتداء بچپن سے ہوتی ہے ۔ بچوں کو اگر کوئی چیز ناگوار گزرتی ہے تو وہ ہے اسکول جانا ۔ جس دن اسکول میں امتحان ہو تو ہر دن کسی بھی بچے کیلئے انتہائی شاق گزرتا ہے ۔ عام طور پر بچے امتحان کی تیاری ایک دن پہلے کرتے ہیں۔ جب وقت کی تنگی کی وجہ سے کچھ سوجھتا نہیں تو ان کے پیٹ میں سر میں یا پھر موقع کی نزاکت کے لحاظ سے پورے جسم میں درد شروع ہوجاتا ہے ۔ اگر ماں باپ یا گھر کے بڑے بوڑھے اسکول جانے سے روک لیتے ہیں تو بمشکل آدھے گھنٹے کی بہانہ بازی کے بعد یہی بیمار بچے بھلے چنگے ہوجاتے ہیں اور کھیل کود کیلئے گھر سے باہر نکل جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف اگر اسکول کی طرف سے پکنک پر جانا ہو تو جس شوق اور ولولے سے بچہ جاناچاہتا ہے وہ قابل دید ہوتا ہے ۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے ایک منظر دیکھا ہے ۔ ہمارے ایک دوست اپنے لڑکے کی منت سماجت کر رہے تھے کہ وہ پکنک پر نہ جائے کیونکہ ان کے گھر میں مرمت کا کام چل رہا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ نگرانی میں ان کا لڑکا مدد کرے۔ لڑکا پکنک جانے پر مصر تھا ۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ڈیڈی میری ٹیچر نے اسکول کی طرف سے مٹھائی ،پھل اور نمکین میرے سپرد کئے ہیں تاکہ میں انہیں بچوں میں تقسیم کروں۔ اب اگر میں ہی نہ جاؤں تو انتظامات میں دشواری ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ ٹیچر ناراض ہوکر مجھے سالانہ امتحان میں کم نمبرات دے ۔ میرا پکنک پر جانا بے حد ضروری ہے ۔ ہمارے دوست اپنے لڑکے کو بتائے بغیر ٹیچر سے ملے اور اجازت مانگی کہ وہ اُن کے لڑکے کو پکنک پر چلنے سے رخصت دے دے۔ ٹیچر نے کہا کہ آپ کی مرضی ہے مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے ۔ ہمارے دوست نے کہا ’میرا لڑکا کہہ رہا تھا کہ کھانے پینے کا سامان آپ نے اُسی کو دیا ہے اور اگر وہ نہ آئے تو انتظامات میں دشواری ہوگی۔ ٹیچر نے جواب دیا ’’جناب آپ کا لڑکا اور اُس کے بعض دوست بہت کچھ خود کھاجاتے ہیں۔ اگر آپ کا لڑکا نہ آئے تو انتظامات بگڑنے کی بجائے بہتر ہوں گے ۔ آپ شوق سے اسے مت بھیجئے ۔ میں ممنون رہوں گی‘‘۔
ہم سب سے زیادہ جس شخص کے بہانوں سے متاثر ہوتے ہیں وہ ہمارا دھوبی ہے ۔ دراصل آج کل دھوبیوں کا رواج ختم ہورہا ہے ۔ خود دھوبی بھی استری کرنے میں عافیت سمجھ رہے ہیں۔ پانی کی قلت ہوتی جارہی ہے ۔ تقریباً ہر گھر میں واشنگ مشین آگئی ہے ۔ ایک ہم ہیںکہ ہمیں دھوبی کی عادت پڑی ہوئی ہے ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دھوبی کو بہانہ بازی کی عادت ہے ہم دھوبی ہی سے کپڑے دھلواتے ہیں ۔ ہمارا دھوبی شہر سے کوئی بیس کیلو میٹر دور رہتا ہے ۔ ایک بار جب ہمارا دھوبی دو مہینے تک نہیں آیا تو ہم نے سوچا کہ اب دھوبی کی تلاش ضروری ہے کیونکہ ہماری سفید پوشی کا بھرم تقریباً ختم ہونے کو تھا۔ ہم اپنی اسکوٹر پر دھوبی کے گاؤں کی تلاش میں نکلے ۔ تقریباً آدھی مسافت طئے کرنے کے بعد ہم کو اندازہ ہوا کہ ہم نے اسکوٹر پر آنے کا فیصلہ کر کے بڑی غلطی کی ہے لیکن اب کیا ہوسکتا تھا ۔ بہرحال کافی دیر کے بعد ہم اپنے دھوبی کے گاؤں میں داخل ہوئے ۔ معلوم ہوا کہ وہاں ایک چھوڑ کر چار یا پانچ دھوبی رہتے ہیں ۔ اتفاق سے ہم کو اپنے دھوبی کا نام بھی یاد نہیںتھا ۔ ہم ناامیدی کے عالم میں لوٹ جانے والے تھے کہ ہماری قسمت نے یاوری کی ۔ خوش قسمتی سے ہمارا دھوبی ہماری شرٹ اور پتلون پہن کر اپنے گھر کے باہر کپڑے استری کرتا کھڑا تھا ۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور کچھ پشیمانی اُسے ہے اور کچھ پشیمانی مجھے کے انداز میں ایک دوسرے کا خیرمقدم کیا ۔ دھوبی نے حسب معمول پانی کی کمی کا بہانہ کیا ۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کے بعض قریبی عزیز دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ بہرحال اُس نے دو چار دن میں آنے کا وعدہ کیا اور ہم نے بھی اُس کے وعدے پر بھروسہ کرلیا اور واپسی کے سفر کے لئے دعائے خیر کرتے ہوئے لوٹ آئے۔
ایک زمانہ تھا جبکہ ریڈی میڈ کپڑوں کا چلن نہیں ہوا تھا اور لوگوں کا دارومدار صرف درزیوں پر تھا ۔ عید کے موقع پر درزیوں کی اہمیت بہت بڑھ جاتی تھی ۔ لوگ درزی کی دکان کے چکر کاٹتے تھے ۔ عام دنوں میں بھی کوئی درزی وعدہ کے مطابق کپڑے کبھی نہیں دیتا ۔ ہمیشہ دو چار دن ادھر ادھر ہو ہی جاتے ہیں۔ ابھی بھی ہماری ایک عزیزہ جو امریکہ میں رہتی ہیں، جب بھی امریکہ سے آتی ہیں تو حیدرآباد میں پہلا کام پتھر گٹی پر پہلے اپنے لئے شاپنگ کرتی ہیں۔ درزی کو کپڑا سلائی کیلئے دے دیتی ہیں پھر چین سے بیٹھتی ہیں۔ اس کے باوجود ان کا درزی آخر وقت تک مختلف بہانوں سے کپڑوں کی سلائی میں تاخیر کرتا رہتا ہے۔
نوکروں کے بہانے الگ نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی نوکر یا نوکرانی ایک ہفتہ تک پابندی سے آئے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اب اس کی غیر حاضری یقینی ہے ۔ نوکر خود کبھی بیمار نہیں پڑتے۔ اکثر اپنے بوڑھے رشتہ داروں کو بیمار کردیتے ہیں اور بہت بوڑھے رشتہ داروں کو اس جہانِ فانی سے رخصت کردیتے ہیں۔ دفتر کے ملازمین بھی نت نئے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ اکثر لوگ اپنی خوش دامن یا خسر کوناگہانی حادثات کا شکار کردیتے ہیں۔ کرایہ دار اور مکاندار کا رشتہ بھی تلخیوں کا شکار رہتا ہے ۔ مکان دار کرایہ بڑھانے کا بہانہ ڈھونڈتا ہے ۔ کرایہ دار مکان کی مرمت یا پانی کی تکلیف کی شکایت کو لے کر کرایہ کیلئے ستاتا ہے۔

 

معمولی انسانی بہانے اپنی جگہ لیکن بڑے ممالک مختلف بہانے تراش کر کمزور ملکوں کی کمر توڑتے رہتے ہیں۔ امریکہ نے اپنے جنگی بہانوں سے افعانستان اور پورے مڈل ایسٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اسرائیل مختلف بہانوں سے فلسطین کو تنگ کرتا رہتا ہے۔ بہرحال ساری دنیا کی سیاست بہانہ بازی کا شکار ہے اور ساری انسانیت بہانوں سے چھٹکارا پانا چاہتی ہے ۔ امریکہ نے تو حالیہ برسوں میں تیل پیدا کرنے والے کئی ملکوں کو تباہ و تاراج کردیا ہے ۔ عراق کا دردناک انجام ہمیں آج بھی یاد ہے ۔ امریکہ نے بہانہ بنایا کہ عراق کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرے ہیں۔ اس لئے وہ عراق کی باقاعدہ تلاشی لے گا ۔ ایٹمی ذخائر کی تلاشی کے بہانے اس نے نہ صرف ملک کی معیشت تباہ کردی بلکہ صدام حسین کو زندہ درگور کردیا اور عین بقرعید کے دن اسے موت کے گھاٹ اتار دیا لیکن قدرت کا قانون ہے کہ سیر کو سواسیر مل ہی جاتا ہے ۔ امریکہ کی لاکھ کوششوں کے باوجود شمالی کوریا ایٹمی تجربے کرتا ہی چلا جارہا ہے ۔ ابھی ایک آدھ ہفتہ پہلے شمالی کوریا نے ہائیڈروجن بم کا نہایت خوفناک تجربہ کیا اور مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ کو دانت پیس کر رہ جانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہا ۔ آج بہانہ بازی کی بجائے راست بازی کی ضرورت ہے اور راست بازی نایاب ہے۔