بہار کی نئی کابینہ

فصلوں کے حقدار سے ، کہتا ہے یہ کھیت
کیسے بھولوگے اسے ، جس نے ڈالی ہے کھاد
بہار کی نئی کابینہ
بہار کے سیاسی درخت پر لکھی یہ عبارت پڑھی جارہی ہے کہ نتیش کمار کی زیرقیادت سیکولر عظیم اتحاد کی حکومت کا مستقبل غیرمستحکم ہوسکتا ہے۔ آر جے ڈی کے سربراہ لالو پرساد یادو کے دو فرزندان کو کابینہ میں شامل کرتے ہوئے چیف منسٹر کی حیثیت سے مسلسل تیسری مرتبہ حلف لینے والے نتیش کمار کیلئے یہ سیاسی اتحاد آسان راہ فراہم کرے گا تو حکمرانی کیلئے جو انتخابی وعدے کئے گئے تھے انہیں پورا کرنے میں مدد ملے گی۔ گورنر رام ناتھ کوند نے بہار کی 29 رکنی کابینہ کو حلف دلایا۔ ڈپٹی چیف منسٹر کی حیثیت سے لالو پرساد کے فرزند تیجسوی نے حلف لیا۔ 26 سالہ تیجسوی بہار کے اس اہم عہدہ کو سنبھالنے میں کس حد تک کامیاب ہوں گے یہ آنے والے وقت میں ظاہر ہوگا کیونکہ ان کے والدین لالو پرساد یادو اور رابڑی دیوی کے سیاسی تجربات بھی ان کی کارکردگی کی راہ کی رہنمائی کریں گے۔ توقع کی جارہی ہیکہ بی جے پی کے خلاف سیکلور اتحاد بنانے والوں کا یہ کاررواں اپنی منزل تک کامیابی کے ساتھ پہنچے گا لیکن سیاسی طرفداری اور برتری کی اس دنیا مںی کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ایسے میں نتیش کمار اور لالو پرساد کو ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ نتیش کمار کو اپنی حکمرانی کے سابق وعدوں کے ساتھ نئے انتخابی وعدوں کو بھی پورا کرنے پر دھیان دینا پڑے گا۔ عوام نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ اس اتحاد کے حق میں ووٹ دیا تھا ان کے بھروسہ کو برقرار رکھنے میں ہی حکومت کے دیرپا برقرار رہنے کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف اپوزیشن کو متحد کرنے کا تجربہ مقبول ہوا ہے تو اب 2019 کے قومی انتخابات میں وہ وزیراعظم مودی کے اہم حریف بھی ہوں گے۔ بہار کے ودھان سبھا انتخابات میں تاریخی کامیابی سے نتیش کمار کے سیاسی حوصلوں کو بلند ضرور کیا ہے اور وہ ان بلند حوصلوں کے ساھت مرکز تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رول ادا کرسکتے ہیں۔ بہار ملک کی غریب ترین ریاستوں میں سے ایک ہے۔ اس کیلئے مرکز کی حمایت بھی حاصل ہونا ضروری ہے۔ ریاست کی پیداوار ترقی کو بڑھانے کیئلے مرکز کی سرپرستی اہمیت کی حامل ہے تو نتیش کمار فی الحال مرکز سے تصادم کی راہ اختیار کرنے کی غلطی نہیں کرسکتے۔ بہار میں گذشتہ 25 سال کے دوران کئے جانے والے ترقیاتی اقدامات سڑکوں کی تعمیر اور برقی کی سربراہی کو مؤثر بنانے کی کوششوں نے بھی انتخابی کامیابی کی راہ ہموار کی ہے لیکن اس ریاست کی خصوصیت یہ ہیکہ برسوں یہاں پر اپوزیشن پارٹی کی ہی حکمرانی رہی ہے۔ مرکز میں جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے اس کے برعکس ریاست بہار میں اپوزیشن پارٹی کی حکومت دیکھی گئی ہے۔ مرکز سے اچھے تعلقات کے بغیر اہم پراجکٹس کی منظوری اور فنڈس کا حصول مشکل ہوتا ہے۔ بہار کیلئے این ڈی اے حکومت کی جانب سے کس حد تک امدادی کام انجام دیئے جائیں گے یا چیف منسٹر کی حیثیت سے نتیش کمار مرکز سے بہار کے حصہ کے فنڈس حاصل کرسکیں گے۔ یہ مرکز ریاست تعلقات پر منحصر ہوں گے۔ بہار اسمبلی میں جنتادل یو کی اکثریت کم ہے جبکہ آر جے ڈی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ 2010 میں جنتادل یو نے 115 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اب سے صرف 71 پر کامیابی ملی ہے۔ آر جے ڈی اپنے 80 ارکان کی اکثریت کے ساتھ جنتادل یو پر سبقت رکھتی ہے تو یہ اکثریتی اور عددی طاقت اتحاد والی حکومت کی راہ میں رکاوٹ بن جائے تو مسائل پیدا ہوں گے۔ ایسے دونوں پارٹیوں کے قائدین نے خاص کر لالو پرساد یادو نے واضح کردیا ہیکہ ان کی پارٹی کو زیادہ نشستیں ملنے کے باوجود حکمرانی کے امور میں نتیش کمار کو ہی کامل اختیارات ہوں گے۔ لالو پرساد یادو اپنی اس بات پر کب تک قائم رہتے ہیں یہ آنے والے وقت میں پتہ چلے گا۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے نتیش کمار نے بہار کے عوام کو آئندہ پانچ سال تک 24 گھنٹے برقی سربراہ کرنے کا وعدہ کیا تو وہ اس وعدہ کو پورا کرنے سے قاصر ہوں گے کیونکہ برقی کا مسئلہ صرف ریاست بہار کا ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی کئی ریاستوں میں یہ مسئلہ حکومتوں کیلئے نازک بنتا جارہا ہے۔ بلاشبہ اس وقت بہار میں روزگار کا مسئلہ بھی سنگین ہے۔ روزگار پیدا کرنا او رحکومت کیلئے دولت اکھٹا کرنا نتیش کمار کیلئے دو اہم ہدف ہیں۔ انہیں ایسی پالیسیاں بنانے ہوں گی، جس سے ان کے رائے دہندوں کو راحت و روزگار ملے۔ تعلیمی مواقع پیدا کرنا اور ریاستی ترقی کو مضبوط بنانا خاص کر روزگار، صحت عامہ اور انفراسٹرکچر کی فراہمی ان کی حکومت کی اہم ذمہ داریاں ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ اتحاد اپنے انتخابی وعدوں کے معرکہ کو سر کرنے کیلئے دیانتدارانہ کوشش کرتا ہے تو نتیش کمار حکومت کی پالیسیوں کی اچھائیاں مرکزی حکومت کے زوال کا اشارہ دیں گی۔
پے کمیشن اور خسارہ
مرکزی سرکاری ملازمین اور وظیفہ یابوں کی تنخواہوں میں اضافہ کیلئے ساتویں پے کمیشن کی سفارشات پر اعتراضات اور ناراضگیوں کا اظہار ہونے لگا ہے۔ ٹریڈ یونینوں نے اس تجویز کو صدیوں بعد بہت کم اضافہ قرار دیا ہے اور مہنگائی کے تناسب اضافہ نہیں کے برابر ہے جبکہ ماہرین مالیات نے مودی حکومت کے لئے درد سر بتایا ہے۔ اگر حکومت پے کمیشن کی سفارشات کے مطابق تنخواہوں میں 16 فیصد کا اضافہ کرتی ہے تو اس کا راست اثر مرکزی بجٹ پر مرتب ہوگا اور سالانہ خسارہ کے فیصد میں اضافہ ہوگا۔ حکومت کو اعتماد ہے کہ وہ اس خسارہ پر قابو پانے کے اقدامات کرے گی لیکن اس مہنگائی کے دور میں ملازمین کی تنخواہوں میں صرف 16 فیصد اضافہ کو ناکافی قرار دینے والی ٹریڈ یونینوں نے اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ان سفارشات سے 47 لاکھ مرکزی ملازمین اور 52 لاکھ وظیفہ یابوں کو فائدہ ہوگا، جس سے مرکزی بجٹ پر مزید 73.650 کروڑ روپئے کا بوجھ پڑے گا۔ نریندر مودی حکومت کو آنے والے برسوں میں سرکاری ملازمین کی ناراضگیوں سے بچنا بھی ضروری ہے کیونکہ مرکزی ملازمین کی تنخواہوں کے خطوط پر بعض ریاستی حکومتیں اپنے ملازمین کی تنخواہوں پر نظرثانی کرتی ہیں۔ ہندوستان میں سرکاری ملازمین کو بھی ایک اہم ووٹر مانا جاتا ہے۔ ان کے حق ووٹ کا فیصلہ ریاستی سطح سے لیکر مرکزی سطح تک حکومتوں کی تقدیر بھی بدل دیتی ہیں۔ مرکز کی مودی حکومت جو اس سال مسلسل دوسری مرتبہ دہلی اور بہار میں شکست کا منہ دیکھ چکی ہے، آنے والے دنوں میں دیگر ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے ورک فورس کو خوش رکھنا ضروری ہے۔ یہ بات اس لئے بھی اہم ہیکہ عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کے ساتھ ان کے مسائل کی یکسوئی پر توجہ دینا اہم فریضہ بن جاتا ہے۔