بہار بھی فرقہ پرستوں کے نشانہ پر نتیش کمار بے بس !

خلیل قادری
ویسے تو سارے ہندوستان میں ان دنوں فرقہ واریت کا زور چل رہا ہے ۔ ملک کی تقریبا ہر ریاست میں فرقہ پرستوں کی جانب سے ماحول کو پراگندہ کرنے کا عمل پوری شدت کے ساتھ چل رہا ہے ۔ فاشسٹوں اور فرقہ پرستوں کی جانب سے ملک کے سکیولر اور جمہوری تانے بانے کو کمزور کرنے کی سازشوں پر عمل شروع ہوچکا ہے ۔ کبھی رام نومی کے نام پر تشدد برپا کیا جاتا ہے تو کبھی گئو کشی کے نام پر قتل و خون کا بازار گرم کیا جاتا ہے ۔ کبھی گوشت رکھنے کے نام پر بے گناہوں کی جان لی جاتی ہے تو کبھی دلتوں کو انتہائی معمولی وجہ پر غیرانسانی سلوک کا شکار کیا جاتا ہے ۔ کہیں مساجد و دوسری مذہبی عبادتگاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو کبھی چرچوں و گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ کی جا رہی ہے ۔ یہ سب کچھ ایک مخصوص سوچ اور نظریہ کو مسلط کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے ۔ ساری کوششیں آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے مقاصد کی تکمیل کیلئے ہو رہی ہیں۔ ہندوستان کو سکیولر جمہوری ملک سے ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے منصوبوں پر عمل ہو رہا ہے ۔ راجستھان ہو کہ مدھیہ پردیش ہو ‘ اترکھنڈ ہو کہ اترپردیش ہو ‘ دہلی ہو کہ چھتیس گڑھ ہو ہر مقام پر ہندو فرقہ پرستوں کے عزائم بلند ہونے لگے ہیں اور وہ کھلے عام اپنے عزائم کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ وہ ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے اپنے ارادوں کا اعلان کرنے سے بھی باز نہیں آر ہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ مرکز کی نریندر مودی حکومت ان عناصر کی سرکوبی کرنے سے گریز کرتے ہوئے ان کے بالواسطہ طور پر حوصلے بلند کرنے کا کام انجام دے رہی ہے ۔ ایک طرح سے انہیں کھلی چھوٹ دیتے ہوئے حکومت ان کے عزائم کی تکمیل میں مدد کر رہی ہے۔

تاہم بہار ایک ایسی ریاست تھی جہاں اب تک فرقہ پرستوں کو استحکام حاصل نہیں ہوا تھا ۔ ماضی میں یقینی طور پر ریاست میںکچھ فسادات ہوئے تھے تاہم جس وقت سے ماضی بعید میں ریاست فرقہ وارایت کے اثرات سے پاک رہی تھی ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ اب فرقہ پرست طاقتوں نے اس ریاست کو بھی نشانہ بنانے اور یہاں بھی اپنے قدم جمانے کیلئے ہندوتوا کا راگ الاپنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ 2015 میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کراری شکست اور پھر گذشتہ دنوں ہوئے ضمنی انتخابات میں بھی شکست نے بی جے پی کو یہ واضح پیام دیا تھا کہ یہاں وہ کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ اسی لئے شائد اس نے اپنے منصوبوں میں قدرے تبدیلی کی ہے اور یہاں بھی ترقیاتی منصوبوں ‘ مستقبل کے عزائم وغیرہ کو اجاگر کرنے کی بجائے فرقہ پرستی کے ذریعہ ماحول کو پراگندہ کرنے اور اپنے سیاسی مستقبل کو چمکانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ پہلے تو اپنے منصوبے کے تحت بی جے پی نے ریاست میں نتیش کمار کو کانگریس اور راشٹریہ جنتادل کے ساتھ اتحاد سے علیحدہ کرنے کی سازشوں میں کامیابی حاصل کی اور چور دروازے سے اقتدار میں حصے داری پا لی ۔ اقتدار میں حصہ داری ملنے کے بعد فرقہ پرستوں کو کھلے اشارے دیدئے گئے اور ایسا لگتا ہے کہ اب وہ اپنے منصوبوں پر عمل آوری شروع کردی گئی ہے ۔ بی جے پی کے اقتدار میں حصہ داری حاصل کرنے اور ضمنی انتخابات میں ایک بار پھر شکست کھاجانے کے بعد سے ماحول کو مزید ابتر کیا جا رہا ہے اور نت نئے بہانوں سے فرقہ واریت کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔ رام نومی کے موقع پر جہاں دوسری ریاستوں میں تشدد برپا کیا گیا تھا وہیں بہار میں اس سے قبل ہی حالات کو کشیدہ کیا جانے لگا تھا ۔ یہ سب کچھ ریاست میں اپنے سیاسی مستقبل کو چمکانے بی جے پی کی کوششوں کا ہی حصہ ہے اور ایسا لگتا ہے کہ نتیش کمار اس معاملہ میں بے بس ہوگئے ہیں۔ ان کے سامنے اپنی کرسی اور اقتدار بچانا ہی ایک مقصد رہ گیا ہے ۔ وہ کانگریس اور آر جے ڈی کے اتحاد سے دور ہوچکے ہیں اور اب وزارت اعلی کی گدی پر براجمان رہنے کیلئے انہیں بی جے پی کے سہارے کی ضرورت ہے ۔ وہ اپنی کرسی بچانے ریاست کے امن و امان کو درہم برہم ہوتے دیکھ رہے ہیں اور خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔
بہار کے ضلع نیواڈا میں جمعہ کو ایک مذہبی مقام کی بیحرمتی کے بعد کشیدگی پیدا ہوگئی ۔ لوگ سڑکوں پر اتر آئے ۔ گاڑیاں اور دوکانیں نذر آتش کردی گئیں۔ پولیس پر پتھراؤ کیا گیا ۔ دو فرقوں میں تصادم ہوا ۔ پولیس نے بمشکل تمام حالانکہ حالات کو مزید بگڑنے سے بچا تو لیا لیکن فرقہ پرست عناصر سماج میں منافرت پھیلانے کے اپنے عزائم میں کامیاب ضرور ہوگئے ۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ یہاں حالات کو بگاڑنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ نیواڈا وہ پارلیمانی حلقہ ہے جس کی نمائندگی مرکزی وزیر گری راج سنگھ کرتے ہیں۔ گری راج سنگھ اپنے زہریلے بیانات اور ہندوتوا سیاست کیلئے جانے جاتے ہیں اور ان کے حلقہ میں حالات کا ابتر ہونا محض اتفاق نہیں ہوسکتا ۔ نیواڈا میں 2013 میں بھی فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوئی تھی اور کچھ جھڑپیں ہوئی تھیں۔ گذشتہ ہفتے ہی بہار کے اورنگ آباد ضلع میں رام نومی جلوس کے دوران فرقہ وارنہ کشیدگی پیدا ہوئی تھی جو سمستی پور ‘ مونگیر ‘ نالندہ ‘ شیخ پورہ اور گیا اضلاع تک پھیل گئی تھی ۔ اس طرح اچانک حالات کا بگڑنا اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا انتہائی تیزی کے ساتھ کئی اضلاع تک پھیل جانا صورتحال کی سنگینی اور اس کے پس پردہ محرکات کو ظاہر کرتا ہے ۔ ان حالات میں یہ شبہات مزید تقویت پاتے ہیں کہ یہاں فرقہ پرست طاقتیں ریاست کا امن درہم برہم کرنے کے درپہ ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ فرقہ وارانہ منافرت پھیلاتے ہوئے بی جے پی کی سیاسی قسمت کو چمکایا جائے ۔ ایسے وقت میں جبکہ آئندہ عام انتخابات کیلئے ایک سال کا وقت رہ گیا ہے حالات کو بتدریج بگاڑتے ہوئے سماج کے دو اہم طبقات اور فرقوں میں خلیج پیدا کی جا رہی ہے ۔ انہیں ایک دوسرے سے متنفر کیا جا رہا ہے اور ہندو ووٹ بینک کو مستحکم کرنے کی پالیسی پر عمل شروع ہوچکا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح گذشتہ عام انتخابات سے قبل اترپردیش میں مظفر نگر میں فرقہ وارانہ فسادات کروائے گئے تھے ۔ اس کے ساتھ کیرانہ سے ہندووں کی نقل مقامی کے فرضی قصے مشہور کئے گئے ۔ اس میں میڈیا کو بھی استعمال کیا گیا تھا اور اپنے منصوبے میں بی جے پی اور اس کے حواری کامیاب بھی رہے تھے ۔ فرقہ وارانہ منافرت کے ذریعہ ہی بی جے پی نے اترپردیش میں پہلے لوک سبھا اور پھر اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی ۔ یہی طریقہ کار تقریبا ہر ریاست میں اختیار کیا جاتا رہا ہے اور اب ریاست بہار میں بھی اس سے مستثنی نہیں رہ گئی ہے ۔

کچھ وقت پہلے تک چیف منسٹر بہار نتیش کمار اپنی انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے بھی مقبولیت رکھتے تھے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کے منصوبوں کے آگے ان کی انتظامی صلاحیتیں بھی ماند پڑنے لگی ہیں۔ وہ ایک طرح سے بے بس ہوگئے ہیں یا پھر اقتدار کے لالچ میں بے بس کردئے گئے ہیں۔ بی جے پی نتیش کمار کو وزارت اعلی کی کرسی پر رکھتے ہوئے اپنے عزائم کی تکمیل میں جٹ گئی ہے ۔ نتیش کمار کی بے بسی کا ثبوت خود ان کا ایک بیان ہے ۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں بی جے پی اور جے ڈی یو کے امیدواروں کی شکست کے بعد نتیش کمار نے ایک بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ضمنی انتخابات کے امکانی نتائج سے واقف تھے تاہم انہوں نے ان انتخابات میں بی جے پی کے کہنے پر بلکہ بی جے پی کے دباؤ پر مقابلہ کیا تھا ۔ اس طرح یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اپنے اقتدار اور کرسی کو بچانے کیلئے نتیش کمار بی جے پی کے دباؤ میں کام کر رہے ہیں۔ جب وہ اپنی حلیف جماعت کو کنٹرول کرنے کی بجائے خود اس کے دباؤ میں کام کرنے لگیں ہیں تو پھر ریاست میں حالات کا بگڑنا اور لا اینڈ آرڈر کا ابتر ہونا فطری بات ہے ۔ نتیش کمار اپنی انتظامی صلاحیتوں کو بھی عملا فراموش کرچکے ہیں۔ وہ سماج میں یکجہتی اور اتحاد کا ماحول برقرار رکھنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ وہ ریاست کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی بجائے ریاست کو فرقہ واریت کی پستی اور تاریکی میں ڈھکیلنے کا موجب بن رہے ہیں ۔ بی جے پی اور اس کی ہم قبیل تنظیموں کے عزائم سے واقف ہوتے ہوئے بھی ان کی روک تھام سے قاصر ہیں اور اس سے ان کی انتہائی بے بسی کا پتہ چلتا ہے ۔ نتیش کمار کو اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہئے کہ جس طرح بی جے پی نے اترپردیش اور دوسری ریاستوں میں علاقائی جماعتوں کے ساتھ پہلے اتحاد کرتے ہوئے اقتدار میں حصہ داری اور شراکت حاصل کی اور بعد میں اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اقتدار پر بلا شرکت غیرے قبضہ کرلیا وہی عمل بہار میں بھی دہرایا جاسکتا ہے ۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ بہار میں اس منصوبے پر عمل آوری کا آغاز ہوچکا ہے ۔ وہ وقت زیادہ دور نہیں ہوسکتا جب نتیش کمار کو بی جے پی سے اتحاد کی اپنی غلطی کا احساس ہوجائیگا تاہم اس وقت تک نتیش کمار کیلئے دیر ہوچکی ہوگی اور وہ بہار کی سیاست میں بے اثر ہوکر رہ جائیں گے ۔ اگر انہیں اپنے سیاسی مستقبل کی اور بہار کی ترقی کی فکر ہے تو ابھی سے ہوش کے ناخن لینے ہونگے ۔ اگر زیادہ دیر تک وہ غفلت کا شکار رہیں گے یا دباؤ میں کام کرینگے تو ان کا سیاسی مستقبل بھی تاریک ہوجائیگا ۔