بھوک اور غربت کے خاتمہ کیلئے ہندوستان اور پاکستان کے نوجوانوں کی پہل

ریسٹورنٹس اور تقاریب سے انواع و اقسام کے کھانے جمع کرکے غریبوں میں تقسیم
حیدرآباد ۔ 30 ڈسمبر (ایجنسیز ) بھوک و افلاس انسان کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہیں اور یہ کسی مذہب، مسلک، ذات پات، علاقہ، سرحد اور ملک کو نہیں دیکھتی۔ اسی لئے بھوکوں کو کھانا کھلانے کی دین اسلام میں بڑی فضیلت بتائی گئی ہے۔ کراچی کے چند نوجوان بھوکوں کو کھانا کھلانے کا انتظام کرتے ہوئے نیکیاں بٹور رہے ہیں۔ کارساز کراچی میں ایک اتوار کی صبح تقریباً 30 نوجوان جمع ہوئے اور نصف گھنٹے تک تبادلہ خیال کے بعد کاروں میں سوار ہو کر شہر کے گلشن علاقہ کی 13-D بستی کیلئے روانہ ہوگئے۔ یہ نوجوان دراصل رابن ھڈ آرمی پاکستان RHAP کے والینٹرس ہیں جو غریب خاندان میں غذائی اشیاء کھانے وغیرہ تقسیم کرتے ہوئے بھوک کے خاتمہ کیلئے شروع کی گئی ایک سماجی پہل ہے۔ جنس ٹی شرٹ زیب تن کئے ہوئے یہ نوجوان والینٹرس قومی ترانے کے ساتھ اپنا کام شروع کرتے ہیں۔ ایک والینٹر کا کہنا تھا کہ رابن ھڈ آرمی پاکستان کے والینٹرس پچھلے دو برسوں سے علاقہ گلشن کا دورہ کررہے ہیں یہ لوگ وہاں کے غریب بچوں میں بریانی، دال، چاول، بعض مرتبہ پیڑا، مشروبات اور بسکٹس وغیرہ تقسیم کرتے ہیں۔ یہ والینٹر سلم بستی کے تمام عارضی مکانات (جھونپڑیوں) پر جا کر وہاں رہنے والے مکینوں کی تعداد کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔ ان کے پہنچتے ہی غریب اور بھوکے بچے قریبی میدان میں ایک دائرہ بنا کر ٹھہر جاتے ہیں۔ درمیان میں ایک والینٹر نغمیں گانا شروع کردیتا ہے۔ 20 سالہ مریم احمد کے مطابق وہ رابن ھڈ آرمی سے کافی متاثر ہے۔ غریبوں کی مدد ان کے لئے ایک غیرمعمولی تجربہ ہے۔ سلم بستی کے مکینوں سے مل کر ان سے بات کرنے پر ان کی زندگیوں میں آنے والی مشکلات و پریشانیوں اور زندگی کی تلخ حقیقتوں کو جاننے کا موقع ملتا ہے۔ مریم احمد ان مکینوں سے نہ صرف بات کرکے خوشی محسوس کرتی ہیں بلکہ انہیں دلاسہ دیتی ہیں، انہیں ہمت دلاتی ہیں۔ ان میں کچھ کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ رابن ھڈ آرمی پاکستان کی قیادت کرنے والے سمیر بیگ کو شادیوں کا موسم شروع ہونے پر خوشی ہے کیونکہ اب تک رابن ھڈ آرمی پاکستان ریسٹورنٹس اور ہوٹلوں سے بچا ہوا کھانا جمع کررہی تھی۔ اب انہیں شادیوں میں بچ جانے والے انواع و اقسام کے کھانے حاصل کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس ضمن میں آر ایچ اے کے والینٹروں نے شادی بیاہ کی منصوبہ بندی کرنے اور کیٹرنگ کا کام کرنے والے اداروں کو یہ قائل کروانے میں کامیابی حاصل کی کہ بچ جانے والے کھانے سے غرباء و مساکین کے پیٹ بھرے جاسکتے ہیں۔ انہیں بھی لذیذ غذائیں فراہم کی جاسکتی ہیں۔ واضح رہیکہ رابن ھڈ آرمی پاکستان کے فی الوقت 300 والینٹرس ہیں آئندہ سال سے اس غیرمعمولی پہل میں لاہور اور اسلام آباد کے والینٹرس بھی شامل ہوجائیں گے۔ رابن ھڈ آرمی دراصل ایک ہندوستانی طالب علم نیل گھوش نے 2014ء میں لندن سے واپسی پر شروع کی تھی وہ فینانس میں ماسٹر کرنے کے بعد واپس ہوا تھا۔ اس کی پیدائش کولکتہ میں ہوئی اور وہ وہیں پلا بڑا ہوا۔ دہلی میں وہ زماٹو نامی ایک ادارہ میں شمولیت اختیار کی جو ایک ریسٹورنٹ اگریکٹر تھا اتفاق سے پرتگال کے دوروں پر فاضل یا اضافی کھانا غریبوں اور بھوکوں میں تقسیم کرنے کے بارے میں سنا جو ہندوستان میں ان کے رابن ھڈ آرمی کی بنیاد ڈالنے کاباعث بنا۔ مسٹر گھوش نے جو ہاروڈ بزنس اسکول میں ایم بی اے کررہے ہیں، بتاتے ہیں کہ رابن ھڈ آرمی نام رکھنے کا خیال ان کے ذہن میں اچانک آیا وہ اپنی ایک دوست آروشی کے ساتھ رابن ھڈ کے بارے میں سوچ رہے تھے جو مال امیروں سے لوٹ کر غریبوں میں تقسیم کرتا ہے تب ہی ان لوگوں نے اپنی اس پہل کا نام رابن ھڈ آرمی رکھنے کا فیصلہ کرلیا اب رابن ھڈ آرمی انڈیا ملک کے 75 شہروں میں کام کرتی ہے اور اس کے10 ہزار سے زائد والینٹرس ہیں۔ ہندوستان میں رابن ھڈ آرمی قائم کرنے کے بعد گھوش نے اپنی پاکستانی ہم جماعت سارہ آفریدی سے ربط پیدا کیا اور اسے پاکستان میں بھی رابن ھڈ آرمی قائم کرنے کی حوصلہ کی کیونکہ دونوں ملک بھوک اور عدم مساوات کے ایک جیسے مسائل کا سامنا کررہے ہیں۔ گھوش کی ترغیب نے اثر کیا سارہ آفریدی اوران کے شوہر سرفراز نے بالآخر رابن ھڈ آرمی پاکستان کی بنیاد ڈال دی۔ سارہ آفریدی نے 15 فروری 2015ء کو یہ پہل اس وقت شروع کی جب پاکستان اور ہندوستان کی کرکٹ ٹیموں نے ورلڈ کپ کے ایک میچ میں ایک دوسرے کا مقابلہ کیا۔ ابتداء میں سارہ کے ساتھ صرف ان کے 6 رشتہ دار تھے اور اس ٹیم کے موجودہ لیڈر سمیر بیگ 9 ویں نمبر کے والینٹر تھے۔ آج یہ پہل یا پروگرام 15 ملکوں تک وسعت اختیار کر گیا ہے جو زیادہ تر جنوب، جنوب مشرقی ایشیاء کے ممالک میں مسٹر گھوش اور مسٹر بیگ دونوں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حکومت سے حکومت تعلقات پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔
اس سلسلہ میں گھوش کہتے ہیں دونوں ملکوں میں بھوک اور دہشت گردی سے زیادہ لوگ مرتے ہیں اس لئے ہم نے اپنے ملکوں سے بھوک کے خاتمہ کیلئے یہ پہل شروع کی ہے۔