بھارت اور ساری دنیا کے مسلم قائدین

ترکی کے صدر طیب اردگان کی تقلید کیوں نہیں کرتے ؟

قاری ایم ایس خان
قابل احترام قارئین کرام ۔ ماہ جولائی 2018ء کے ورقی ذرائع ابلاغ سے ترکی کے موجودہ صدر مردِ مجاہد، مردِ آہن ، دنیا کے جملہ مسلمانوں کے حقیقی غمخوار و ہمدرفد اور انشاء اللہ مستقبل کا صلاح الدین ایوبی و محمود غزنوی کے بارے میں محصلہ و مستند اور بیحد اہم و ضروری باتیں راقم المضمون قلبِ صادق اور نیتِ مخلص کے ساتھ آپ تمام قارئین محترم کے لئے باالعموم اور بھارت و ساری دنیا کے جملہ مسلم قائدین کیلئے باالخصوص پیش کررہا ہے ملاحظہ فرمائیں۔
شاید ہی کسی ملک کا الیکشن عالمی سطح پر اس قدر مرکز توجہ رہا ہو جس قدر ترکی کا حالیہ الیکشن تھا ۔ پوری دنیا سانس روکے اس الیکشن کے نتیجے کا انتظار کررہی تھی ، یوروپین ملکوں کو کچھ زیادہ ہی دلچسپی تھی ان ملکوں کی حکومتوںسے لے کر میڈیا تک کی دلچسپی کا موضوع ترکی کا الیکشن بنا ہوا تھا ۔ اقوام متحدہ کے آبزرور سمیت بہت سی بین الاقومی تنظیمیں انتخابی عمل کی شفافیت کا جائزہ لینے کے لئے ملک کے کونے کونے میں دندناتی پھرر ہی تھیں ۔ رائے عامہ کو متاثر کرنے کیلئے جھوٹ پر مبنی تجزیاتی رپورٹیں بھی شائع کی جارہی تھیں ۔ واشنگٹن سے تل ابیب تک اور تہران سے ریاض تک بے چینی تھی، اضطراب تھا، خوف تھا کہ کہیں طیب اردگان دوبارہ کامیابی حاصل نہ کرلیں ۔ دوسری طرف مسلمان تھے وہ بھی بے چین اور مضطرب تھے ۔ انہیں یہ ڈر تھا کہ کہیں طیب اردگان کے ہاتھوں سے ترکی کا اقتدار نہ نکل جائے ۔ عام آدمی سے لے کر سیاست سے دور رہنے والے علماء اور گوشہ نشین پیرانِ طریقت تک طیب اردگان کی کامیابی کیلئے دست بہ دعا نظر آئے۔ اللہ تعالیٰ نے لاج رکھ لی ایک مرتبہ پھر طیب اردگان صدر بننے میں کامیاب ہوگئے، انہیں 53 فیصد ووٹ ملے۔ ووٹنگ کا تناسب 87 رہا۔ خدا کا شکر ہے طیب اردگان پہلے ہی مرحلے میں کامیاب قرار دے دیئے گئے۔ ورنہ مغربی میڈیا دوسرے مرحلے کے الیکشن کی پیشن گوئی کررہا تھا اور اس مرحلے میں طیب اردگان کو چت کرنے کی سازشیں بھی عروج پر تھیں۔ لیکن جسے اللہ رکھے اس کون چکھے بیشک وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
آخر دنیا بھر کے مسلمان طیب اردگان کو کیوں پسند کرتے ہیں، ان کے دلوں کی یہ آرزو کیوں تھی کہ طیب اردگان پھر سے اقتدار میں آئیں۔ مضمون ہذا میں اس طرح کے کچھ سوالات کا جواب دینے کی ہر ممکنہ کوشش کی گئی ہے۔
معزز و محترم قارئین ترکی ایک یور ایشیائی ملک ہے جو جنوب مغربی ایشیا میں جزیرہ نما انا طولیہ اور جنوبی مشرقی یوروپ کے علاقہ بلقان تک پھیلا ہوا ہے۔ محل وقوع کے اعتبار سے یہ ایشیا میں بھی ہے اور یوروپ میں بھی اور یہی اس کا تاریخی حسن ہے جو اسے دوسرے ملکوں سے ممتاز کرتا ہے۔ مسلمانوں نے اسے1299ء میں فتح کیا اور چھ سو اکتیس (631) برس تک یہاں خلافت عثمانیہ کے نام سے حکومت کی ۔ اس حکومت کا دائرہ تین براعظموں میں پھیلا ہوا تھا۔ اس عظیم سلطانت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرہ قزوین، اور خلیج فارس، شمال میں آسٹریا، سلواکیہ اور یوکرین جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھیں مگر یہ عظیم سیاسی قوت پہلی جنگ عظیم کے دوران بکھر کر رہ گئی ۔ اس جنگ میں سلطنت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دی، شکست مقدر بنی اس کے ساتھ ہی اس عظیم سلطنت کا خاتمہ بھی ہوگیا۔ فاتح اتحادی قوتوں نے سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے اور ان ٹکڑوں کو آپس میں بانٹ لیا۔ موجودہ ترکی بھی اتحادی فوجوں کے زیرنگیں چلا گیا۔ 19 مئی 1919ء کو اس جارحیت کے خلاف ترک اُٹھ کھڑے ہوئے۔ خلافت عثمانیہ کے ایک فوجی افسر مصطفی کمال پاشاہ نے اس تحریک آزادی کی قیادت کی۔ 18ستمبر 1922ء کو قابض فوجوں کو باہر نکال دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک نئے ترکی کی بنیاد ڈال دی گئی جس میں خلافت عثمانیہ کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ بین الاقوامی برادری نے نئے ترکی کو تسلیم تو کیا لیکن اسے ایک معاہدے کا پابند بھی کردیا۔ جس کو معاہدہ لوازن کہا جاتا ہے ۔ اتفاق سے اس معاہدے کی مدت 2023ء میں ختم ہوگی اور موجودہ صدر ترکی طیب اردگان کو بھی 2023ء تک کیلئے صدر منتخب کیا گیا ہے۔ ترکی قوم کو یقین ہے کہ صرف طیب اردگان ہی واحد قوم پرست لیڈر ایسا ہے جو ملک کو معاہدہ لوازن سے آزاد کراسکتا ہے۔ یہ معاہدہ ملک کی معاشی ترقی میں بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اس معاہدے کی رو سے یہ ملک اپنے ساحلوں پر اور میدانی و پہاڑی علاقوں میں گیس، تیل اور دوسرے معدنیاتی ذخائر کی کھوج نہیں کرسکتا۔

حیدرآباد میٹرو ریل والے املی بن بس ڈپو تا فلک نما صرف 6 کیلو میٹر کی ریلوے لائن ابھی تک نہیں بچھائے ۔ قدیم شہر حیدرآباد کئی ضروری و اہم بنیادی ضرورتوں اور سہولتوں سے محروم ہے۔ فلک نما ریلوے اسٹیشن بھی کب ڈیولپ ہوگا کسی کو نہیں معلوم۔ 2009ء میں ترکی میں تیز رفتار ریل گاڑیاں چلنے لگیں۔ 1076 کیلو میٹر لمبی ریلوے لائینیں بچھائی گئیں۔ تعلیمی بجٹ 7.5 ارب ویرا سے بڑھا کر 34 ارب ویرا ہوگیا۔ ترقی کو آلودگی سے پاک جرائم سے پاک مافیا سے پاک اور رواں دواں ٹریفک والا ملک بنا دیا گیا ہے۔ پانی، بجلی، اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم کی اور بلوں میں بھی نمایاں کمی کی ۔ ٹرکش ایٹر لائن یوروپ کی بہترین اور ذخیرہ اندوزی ختم کردی گئی۔ ترکی پہلی بار دنیا کے اقتصادی لحاظ سے مضبوط 20 ممالک کے گروپG-20 میں شامل ہوا۔ 2013 ء میں ترکی کی سالانہ قومی پیداوار 100 ارب ڈالر تک جا پہنچی تھی پہلے ایک عام ترکی کی سالانہ آمدنی 3500 ڈالر تھی ۔ اب وہ بڑھ کر 11 ہزار ڈالر تک پہنچ گئی ۔ ترکی میں اقصادی خوشحالی کے خزانے میں اسوقت 100 ارب رکھے ہیں۔ اس وقت پوروپ میں فروخت ہونے والے الکٹرانک سامان میں سے سے ہرتیسرا سامان ترکی کا تیار کردہ ہے۔ دس سال کے دوران اردگان کی حکومت نے ملک بھر میں دو ارب 77 کروڑ درخت لگائے ہیں۔ یونیورسٹیوں اور اسکولوں میں تعلیم مفت ہوگی اور تمام اخراجات حکومت برداشت کرے گی۔2023 ء تک ترکی میں 3 لاکھ محقیقین تیار کئے جائیں گے۔ جدید ٹکنالوجی پر تحقیق کیلئے 35 یزار لیباریٹریاں قائم کی گئیں ۔ اردغان نے اپنی عوام کو وہ سبھی مادی و تعلیمی و صنعتی وسائل فراہم کئے جو ایک بہترو کامیاب زندگی کیلئے ضروری ہیں۔ اردغان حکومت فیصلے اکثریت کی رائے سے لیتی ہے۔ اردغان اور ان کے جماعت کے برخلاف ہماری دینی جماعتیں اور دینی ادارے اور غیر دینی جماعتیں بھی اندرونی جمہوریت سے منحصر ہے۔

ترکی میں بہت سارے مسلک ہیں بہت سارے بے عمل مسلمان ہیں ۔ انہوں نے کسی کو بے عمل کہہ کر رافضی اور شیعہ کہہ کر بریلوی یا دیوبندی کہکر اور مرتد و ملحد کہہ کر لعن طعن نہیں کی، اردغان ملک کے مفاد اور ملت کے اتحاد کو اولین ترجیح دیتے ہیں ۔ حدر درجہ وسیع النظر، وسیع القلب اور وسیع الظرف ہیں۔ تنقیدوں اور اختلافات کو محبت و صبر سے برادشت کرنا اور مختلف رائے، مسلک، مذہب رکھنے والے افراد کو ایک ساتھ لے کر چلتے رہنا ان کی کامیابی اور مقبولیت کی سب سے اہم وجہ ہے۔ اردغان ہر معاملہ میں جرآت مندانہ موقف رکھتے ہیں اس لئے دنیا کے مسلمان طیب اردغان میں مستقبل کا صلاح الدین ایوبی ڈھونڈ رہے ہیں۔