بھارتیہ جنتا پارٹی کے دور میں رشوت و اسکامس

سیاست فیچر
موجودہ وقت میں ہندوستانی معیشت کو زبردست جھٹکا لگا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے دور کے زبردست انحطاط کا شکار ہوگئی ہے ۔ سابق منعقدہ انتخابات میں کئے گئے تمام وعدے بس وعدے ہی بن کر رہ گئے ہیں ۔ نئی آزادانہ پالیسی نے حکومت کے اس Dominant فیچر نے کرنی ازم کے انسٹی ٹیوشنالائز کردیا ہے جو کہ کرپشن اور اسکامس کی اونچی سطح پر پہنچ گیا ہے ۔ حکومت کی جانب سے کارپوریٹ پارٹنرشپ اور اسپانسر شپ کو تحفظ ریگولیٹرس ؤ آزاد ایجنسیوں کو اور ان کے مذکورہ بالا امور کے باہم تعامل کو نظرانداز کردیا ہے جس کی وجہ سے ’’ چیک اور بیالنس ‘‘ کا اصول بری طرح متاثر ہوگیا ہے ۔ پھر چاہے وہ رافیل معاملت ہو یا پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا ہو ؤ ٹیلی کام سیکٹر کے Shenanigans اور بڑے بینکوں میں انجام پائی ڈکیتیوں نے ان عناصر کو طشت ازبام کیا ہے اور کرونی کیپٹل ازم کو مرکزی نکتہ بنادیا ہے ۔ اس لئے مشہور خیال کے برمخالف ہندوستانی معیشت نہ صرف بدنظمی کی وجہ بن گئی ہے بلکہ فینانشیل حالات بھی اس کی وجہ سے ناگفتہ بہ ہوگئے ہیں ۔ مذکورہ بالا سب چیزیں کرونی ازم کی وجہ سے ان کا صدور ہوا ہے ۔ مذکورہ بالا تمام اُمور کو سمجھنے کیلئے ان نکات کو ذہن میں رکھا جانا ضروری ہے ۔

رافیل اسکام :
حکومت کی جانب سے کی گئی کئی بدعنوانیاں اور بے قاعدگیاں رافیل معاملت میں سامنے آئی ہیں ۔ ان میں سب سے زیادہ حساس وہ ہے جس میں حکومت نے بذات خود اعتراف کیا ہے جو سپریم کورٹ میں کیا گیا کہ فرانسیسی حکومت نے اس ضمن میں کوئی Sovereignگیارنٹی نہیں دی تھی بلکہ فرانسیسی حکومت نے صرف اس بات کی طمانیت ’’ لیٹر آف کمفورٹ ‘‘ کے ذریعہ دی تھی جسے باوقار کنٹراکٹ کی ترسیل کیلئے اُسے مجبور کیا جاسکے اور جس پر کسی بھی قانون کے تحت دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا ۔
قیمت کے سلسلہ میں حکومت نے مارچ 2018 میں کہا تھا کہ اس ’’ ایئرکرافٹ ‘‘ کی بنیادی قیمت 670 کروڑ روپئے ہے جو صرف ایک ایئرکرافٹ کی ہوگی ۔ بعد ازاں حکومت نے ستمبر 2016ء میں نے کہا کہ 36 ایئرکرافٹ طیارو ں کی قیمت 60,000 کروڑ روپئے ہوگی جس میں اس ایئرکرافٹ میں کئے گئے تمام اضافے / تبدیلیاں شامل ہوں گے جس کی وجہ سے ایک ایر کرافٹ 1600 کروڑ فی ایئرکرافٹ ہوجائے گی ۔ ڈسالٹ سی ای او نے کہا کہ 36 ایئرکرافٹ اب 18فلائی Away کے برابر ہوگئے ہیں جسے ’’ ایم ایم آر سی اے ‘‘ معاملت میں قبل ازیں کیا گیا تھا ۔ ڈسالٹ سی ای او نے مارچ 2015ء میں کہا کہ مذکورہ معاملت قریب التکمیل ہے جو ضروریات کے ساتھ وہ ایچ اے ایل کے ساتھ لائن میں ہیں ۔

مذکورہ بالا مباحث سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وزیراعظم کی معلنہ معاملت اپریل 2015ء پیرس میں جسے ڈیفنس Procurement کونسل نے اجلاس منعقد کرتے ہوئے اسے مئی 2015ء میں Finalکیا تھا ۔ یہ معاملت انیل امبانی سے قبل از وقت حاصل کردہ ’’ دولت ‘‘ کے علاوہ ہے جو غیر فعال ’’ ریلائنس ڈیفنس اکاؤنٹ ‘‘ سے حاصل کرلئے گئے تھے ۔ اس اسکام کی حقیقت بالکل کھلی اور واضح ہے حقیقی معنوں میں Establish ہے ۔ اس اسکام کی حقیقت کو سپریم کورٹ کی جانب سے ’’ ایس آئی ٹی ‘‘ مقرر کی جانی چاہیئے ۔ جو راست سپریم کورٹ کی نگرانی میں انجام پائے گی جس کی وجہ سے اس اسکام پر پڑے دبیز پردوں کے پیچھے چھپے تلخ سچ کو سامنے لایا جاسکے اور کسی کو اس اسکام کا ذمہ دار اور جواب دہ قرار دیا جاسکے ۔ یہ ایک نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے جو پوری قوم کے مفاد میں ہے اور بطور خاص ملک کی سلامتی کا جس سے گہرا تعلق ہے ۔ اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ عوام کے پیسے سے کمائی گئی آمدنی کا حساب دینا اور رکھنا حکومت کی سب سے اہم ذمہ داری ہے ۔

نوٹ بندی :۔
8نومبر 2016 کو دولت وہیں پہنچ گئی جہاں وہ پہلے تھی ۔ اس سلسلہ میں چار معلنہ مقاصد کبھی بھی حاصل نہیں کئے گئے ۔اب عوام کی جانب سے سوال اُٹھ رہے ہیں کہ اس نوٹ بندی سے کسے فائدہ دیا گیا ؟ ۔ عام طور پر گجرات کے کوآپریٹیو بینکس میں بڑے بڑے مباحث ہوئے ۔ نوٹ بندی نے غیر منظم اور انفارمل سیکٹرس کو برباد کردیا جس کی وجہ سے ’’ معاشی شرحوں‘‘ میں زبردست گراوٹ درآئی ۔ تاہم اس قبیح نوٹ بندی کا سب سے زیادہ برا اثر ’’ روزگار ‘‘ یا ’’ ذریعہ معاش ‘‘ پر پڑا اور اب رگھورام راجن کی Exit کے بعد سے حکومت کے دعوؤں کی قلعی کھول دی اور آر بی آئی اگرچیکہ نوٹ بندی کے عمل کو بڑی حد تک سنبھال لیا لیکن اس پورے عمل کی بھی مکمل وضاحت اور کی باریک بینی سے تنقیح ضروری ہے ۔ ان تمام حقائق اور ڈیولپمنٹس کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’ جے پی سی ‘‘ تحقیقات کی ضرورت ہے تاکہ اس قبیح ترین نوٹ بندی کے مضر اثرات بدکو تلخ حقائق کے ذریعہ طشت از بام کیا جاسکے ۔

سی بی آئی کی آمادی کو محدود کرنے کی سازش
سی بی آئی کی آزادانہ کام کو محدود کرنے کی کوشش اب منظر عام پر آگئی ہے ۔ سی بی آئی کے ڈائرکٹر کے کام میں رخنہ اندازی کو ’’ سی وی سی ‘‘ کے تحت سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی نگرانی میں کروائی جانی چاہیئے ۔ اس سلسلہ میں میڈیا رپورٹس آئی کے سی بی آئی کے ڈائرکٹر کی اب تک کی تحقیقات میں ان کی کسی بھی غلطی کا انکشاف نہیں ہوا ہے ۔ دوسری طرف حقائق واضح ہیں ؤ آر کے آستھانہ کو بطور سی بی آئی ڈائرکٹر مقرر کرنے میں ناکام ہوئے جبکہ جیوڈیشیل مداخلت کی وجہ سے حکومت کو ’’ اسپیشل ڈائرکٹر ‘‘ کی حیثیت سے قانع ہونا پڑا ۔
یاد رہے کہ آستھانہ کا ریکارڈ ماضی میں بھی برسراقتدار پارٹی کے ساتھ جڑا ہے جس میں سال 2002ء گودھرا تحقیقات اور تازہ معاملہ مدھیہ پردیش میں حالیہ ’’ ویاپم اسکام ‘‘ و دیگر کئی اس کی بہترین مثالیں ہیں ۔ سی بی آئی کی جاری تحقیقات میں ان کی ’’ رشوت اسکام ‘‘ اس وقت سامنے آیا جبکہ حکومت کے منظور نظر بنتے ہوئے آستھانہ نے سی بی آئی کے ڈائرکٹر کی جگہ لینے کیلئے انہوں نے اپنی دلچسپیوں کو بدل دیا ۔
حکومت کا رافیل معاملت میں جے بی سی انکوائری سے صریح انکار اور سی اے جی کے مطالعہ کو یکسر مسترد کرنا کہ جس میں سال 2023 سے پہلے ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ سی بی آئی کی آزادانہ فعلیت کو محدود کرنے کی واضخ مثال ہے ۔

آر بی آئی کی فعالیت کو محدود کرنے کی سازش
آر بی آئی ( ریزرو بینک آف انڈیا ) میں جو کچھ ہورہا ہے خود ’’ آر بی آئی ‘‘ اسے سمجھنے سے قاصر ہے ۔ سیکشن 7 آر بی آئی ایکٹ کے تحت Invokeکرنا بذات خود آر بی آئی کی آمادی کی جڑوں کو ہلا دیتا ہے جس کے ذریعہ آر بی آئی فینانشیل اسٹابلٹی کو یقینی بناتا ہے ۔ آر بی آئی کی آزادانہ پوزیشن نوٹ بندی پر بڑے قرضوں ( نادہندہ قرض لینے والے ) والوں سے معاملت ؤ موجودہ حکومت کی طرف سے آر بی آئی سے 99فیصد منافع کا حصول اور آر بی آئی سے 3.5 لاکھ کروڑ کی ابھی تازہ کوشش جسے وہ خساٹ Defieit کے لئے محفوظ رکھتی ہے ۔ یہ تمام مسائل سنٹرل بینک کو بری طرح نظرانداز کرنے کے مماثل ہے ۔
حکومت کے مطالبہ پر آر بی آئی کا انکار اور اس پر اٹل رہنا حکومت کو دوسرے ذرائع پر انحصار پر مجبور کیا جس کی وجہ سے حکومت نے ایس بی آئی سے کہا کہ وہ کارپوریٹ قرض جو ایک لاکھ کروڑ روپئے باقی ہیں اسے معاف کردے ۔

الکٹورل باؤنڈس
وزیراعظم مودی اور بی جے پی نے فوری اور وقتی منافعوں کو کرونی کیپٹل ازم کے ذریعہ حاصل کیا جسے وہ انتخابی منافعوں کیلئے کارپوریٹ سیکٹر سے فنڈنگ کروائی ہے ۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ بی جے پی کی فنڈنگ میں موجودہ وسیع خلا اور دیگر سیاسی پارٹیوں کی فنڈنگ نہایت ہی واضح ہے ۔ ترمیمش دہ انتخابی فنڈنگ قوانین نے الکٹورل بانڈس کو نئے ٹیکس دہندگان پر بوجھ مزید بڑھا دیا ہے جس کی وجہ سے ملک کے مفاد کو عمومی طور پر اور غریب و کام کرنے والے پر خصوصاً متاثر ہوئے ہیں ۔ اس لئے ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ’’ غیر محدود اور خفیہ کارپوریٹ فنڈنگ ‘‘ کو جو سیاسی پارٹیاں کرواتی ہیں اسے فوری اثر کے ساتھ ’’ بیخ کنی ‘‘ کی جائے جو ’’ الکٹورل بانڈس ‘‘ سے دست برداری کے ذریعہ ہو ۔