بڑی سیاسی طاقتوں کی مدح سرائی، شخصیت پرستی

 

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
حکمراں لیڈر کو جب اقتدار سے محرومی کا احساس ہونے لگتا ہے تو اُداسی اس پر غالب آجاتی ہے اور یہی اُداسی جب عروج پر پہنچتی ہے تو طاقتور سیاسی مرکز کا سایہ تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اقتدار نکل جانے کا اندیشہ اُداس کردیتا ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ بھی اس اُداس ماحول کا شکار معلوم ہوتے ہیں، اس لئے خوشامد کی الرجی نے ان پر حملہ کردیا ہے۔ افواہیں گرم ہیں کہ بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار کی طرح سے چندر شیکھر راؤ بھی این ڈی اے کا دامن تھام کر اپنی حکومت کی بقاء کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔ خیال رہے کہ اس سے قبل یہ خبریں بھی منظر عام پر آئیں ہیں کہ حیدرآباد کی اراضی اسکامس نے مرکز کو چراغ پا کردیا ہے۔ سی بی آئی کی تحقیقات کا خوف ریاستی حکومت پر طاری ہے۔ بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار نے اپنی حکومت بچانے سیکولر اتحاد کو توڑ کر بی جے پی کی سرپرستی حاصل کی۔ ریاست تلنگانہ میں اسمبلی نشستوں میں اضافہ کیلئے چیف مسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے وزیر اعظم مودی سے درخواست کی ہے۔ اگر مرکزی حکومت ان کی درخواست کو قبول کرتی ہے تو وہ این ڈی اے کا حصہ بن جائیں گے۔ چیف منسٹر کو دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے بعد اندرون ریاست تلنگانہ جو سیاسی چہ میگوئیاں شروع ہوئی ہیں ان میں اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی کا بل پارلیمنٹ کے جاریہ مانسون سیشن میں اگر پیش کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب مرکز نے چیف منسٹر کی درخواست قبول کرلی ہے۔ چیف منسٹر نے مرکز کو یاد دلایا کہ آندھرا پردیش ری آرگنائزیشن ایکٹ میں تلنگانہ کو دیئے گئے تیقنات کے مطابق اسمبلی حلقوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تو ٹی آر ایس سربراہ نے سکندرآباد کنٹونمنٹ علاقہ میں ڈیفنس اراضی ریاستی حکومت کے حوالے کی جائے۔ اگرچہ مرکز اور ریاست تلنگانہ کے ساتھ ’’ سب کچھ ‘‘ چیف منسٹر کے سی آر کی خواہش کے کے مطابق ہوتا ہے تو اس کے عوض کے سی آر کو مرکز کی ایک خواہش پوری کرنی پڑے گی کہ اپنے سیکولر کردار کے ساتھ این ڈی اے میں شامل ہوجائیں۔

بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار نے سیکولر کردار کے ساتھ بہار کے رائے دہندوں سے ووٹ حاصل کیا اور اب وہ فرقہ پرستوں سے ہاتھ ملاچکے ہیں، اسی خطوط پر تلنگانہ کے سیکولر ووٹ لے کر کے سی آر بھی فرقہ پرستوں کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ کوشش سیاسی اُداسی کا نتیجہ ہے۔ ریاستی سکریٹریٹ بھی گزشتہ تین سال سے اُداسی کا شکار ہے کیونکہ یہاں چیف منسٹر کا آنا جانا بہت ہی کم بلکہ نہیں کے برابر ہے۔ ان سے فریاد کرنے کیلئے اضلاع سے حیدرآباد پہنچنے والوں کو ہر روز مایوسی اور اُداسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گذشتہ دنوں بھی ایک پنشنرس گروپ کوسکریٹریٹ پہنچ کر مایوسی ہوئی تھی۔ ضلع محبوب ـآباد سے تعلق رکھنے والے 7 ضعیف وعمررسیدہ کمزور افراد اپنے محبوب لیڈر کے چندر شیکھر راؤ سے ملاقات کے لئے پہنچے، نہایت ہی تکلیف اور تھکادینے والے سفر کے بعد ان ضعیف افراد کو یہ امید تھی کہ وہ جب چیف منسٹر سے ملاقات کرلیں گے تو ان سے مل کر چیف منسٹر ان کی شکایت کی سماعت کریں گے لیکن سکریٹریٹ کے سیکورٹی گارڈس نے انھیں اندر جانے سے روک دیا اور کہا کہ چیف منسٹر یہاں نہیں ہیں۔ ریاست کے پنشنرس کی تقریباً یہی صورتحال ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی مصیبت زدہ پریشان حال شہری سکریٹریٹ کا رُخ کرتا ہے مگر یہاں اسے صرف اُداسی اور مایوسی ہی ہاتھ آتی ہے۔
اولڈ ایج پنشن ایک ایسا راحت کا ذریعہ ہے جو عمر رسیدہ لوگوں کے لئے زندہ رہنے کا سہارا ہے۔ ریاست بھر میں ہزاروں اولڈ ایج پنشن حاصل کرنے والوں کو ان دنوں کئی مسائل کا سامنا ہے ۔ بزرگوں ، ضعیف افراد کو ان کے جواں بچوں نے نظرانداز کردیا ہے۔ ریاستی حکومت نے ان ضعیف افراد کو اولڈ ایج پنشن دیتے ہوئے مالی راحت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن جب سے نئی ریاست بنی ہے اور نئی حکومت کے سربراہ کے طور پر کے چندر شیکھر راؤ نے اقتدار سنبھالا ہے ضعیف پنشنرس کو وظیفہ دینا بند کردیا گیا ۔ سابق میں چیف منسٹر راج شیکھر ریڈی کی حکومت میں ہر ایک ضعیف شخص کو 200 روپئے کا وظیفہ ملتا تھا لیکن اب یہ سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔ بچوں نے بھی انھیں چھوڑ دیا ہے، اب ان کے پاس چیف منسٹر کے سی آر سے اُمید رکھنے کے سوا دوسرا راستہ نہیں ہے۔ لیکن چیف منسٹر کو ان کی پریشانیوں کا علم ہی نہیں ہے، اس لئے ہر روز مایوس ہوکر تلنگانہ بنانے کیلئے جوش و خروش رکھنے والے لوگ اپنے وطن واپس ہوتے رہتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ چیف منسٹر سے ملاقات کے بغیر واپس ہونے والوں کا صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ہر روز کئی گروپس اسی اُمید کے ساتھ تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد کا دوردراز سفر طئے کرکے پہنچتے ہیں کہ چیف منسٹر ان کی پریشانیوں کی سماعت کریں گے۔ انھیں یہ نہیں معلوم کہ ان کے منتخب کردہ چیف منسٹر صاحب سکریٹریٹ میں نہیں آتے بلکہ وہ اپنے ایر کنڈیشنڈ شاندار کیمپ آفس کی بلند و بالا چار دیواری میں تلگو فلموں کی نمائش سے محظوظ ہوتے ہیں، یا پھر فارم ہاؤز میں آرام کرتے ہیں۔ چیف منسٹر نے جب تلگو فلم ’’ فدا ‘‘ کو اپنے کیمپ آفس کے پروجیکٹر پر دیکھا تو اس وقت ان سے درخواست کرنے کے لئے تلنگانہ کے کونے کونے سے آئے ہوئے شہری سکریٹریٹ پر دھوپ میں انتظار کرتے نظر آئے۔ شدت کی دھوپ اور پیاس سے نڈھال کئی ضعیف لوگ دل ہی دل میں اُداس ہوکر بس خاموش تھے کیونکہ انہوں نے اپنی جہدوجہد و خواہش سے تلنگانہ حاصل کیا تھا اور چیف منسٹر کی حیثیت سے کے سی آر کو اقتدار حوالے کیا تھا۔ اب ان کے لئے یہ سب خواب بکھر چکے ہیں۔

اچھی ترقی، خوشحال زندگی اور اپنے پن کا ماحول ہونے کا احساس ختم ہوچکا ہے کیونکہ تلنگانہ بن کر بھی یہاں کے مکین آندھرائی تسلط کے دور جیسے ماحول کو ہی دیکھ رہے ہیں۔ حکمرانوں کی وہی حماقت، وہی جھوٹی شان اور تانا شاہی نے تلنگانہ کے حصول کے مقاصد کو ناکام بنادیا ہے۔ گذشتہ ہفتہ بھی ایک خاندان کے ارکان نے پرگتی بھون کے احاطہ میں خودکشی کی کوشش کی تھی کیونکہ انھیں چیف منسٹر سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ عوام کے چیف منسٹر بن جانے کا وعدہ کرتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے کے بعد کے سی آر غیر عوامی لیڈر بنتے جارہے ہیں اور وہ صرف بڑی طاقتوں کے مداح نظر آرہے ہیں۔ بڑی طاقتوں سے ہی ملنے کی آرزو رکھتے ہیں۔ اقتدار و اختیار کا متکبرانہ ملاپ تلنگانہ اور اس کے عوام کیلئے آئندہ کیا حالات پیدا کرے گا یہ وقت ہی بتائے گا۔ دہلی میں چیف منسٹر کے سی آر کی وزیر اعظم مودی سے ملاقات میں اقتدار و اختیار کا متکبرانہ ملاپ دکھائی دے رہا ہے تو آپ یقین مانیئے کہ آپ ’’ بے شرم کہیں کے ‘‘ ٹائیٹل کا اصل حقدار کس کو ٹہرا سکیں گے یہ فیصلہ آپ نہیں کرسکیں گے۔تلنگانہ کے حصول کیلئے عوام نے جس طرح کی جدوجہد کی تھی اس کے برعکس اس کی حکمراں طاقت نے تمام ارمانوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ نوجوانوں اور غریبوں میں مقبول ترین لیڈر بن کر کے سی آر نے آہستہ آہستہ غلطیوں کا ارتکاب شروع کیا ہے۔ اپنی غلطیوں اور خرابیوں کو چھپانے کیلئے تلنگانہ کا اپنا سٹیلائیٹ شروع کرتے ہوئے عوام تک ملٹی پل چیانلوں کے ذریعہ حکومت کی خبریں پہنچانے کا منصوبہ بنایا ہے۔

حال ہی میں وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کے ٹی راما راؤ نے تلنگانہ کا اپنا سٹیلائیٹ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے ذریعہ تعلیم، زراعت، صحت، اِسکل ڈیولپمنٹ اور روزگار جیسے مختلف گوشوں تک رسائی حاصل کرکے ترقی دی جاسکے۔ وزیر آئی ٹی نے T-SAT نٹ ورک کا افتتاح کیا۔ اب اس سٹیلائیٹ کے ذریعہ ٹی آر ایس پارٹی اپنی حکومت پرستی کا مظاہرہ کرے گی۔ شخصیت پرستی تو قابل نفرت رویوں میں سے ایک مانا جاتا ہے اگر اب حکومت پرستی کے لئے سرکاری مشنری کا استعمال کیا جارہا ہے تو آئندہ کئی برس تک اقتدار پر رہنے کی کوشش ہے۔ مرکز سے دوستی کا مقصد وطن پرستی سے زیادہ شخصیت پرستی کا مظاہرہ ہے۔ شاید مرکز کے لیڈر کی شخصیت پرستی کی آڑ میں مفاد اور موقع پرستی کا کھیل کیلا جارہا ہوگا۔ بہار میں موقع پرستی کا کھیل اور مظاہرہ ہوچکا ہے تو تلنگانہ میں بھی ایسی صورتحال دکھائی دے سکتی ہے۔ لیڈروں کو کبھی ملک، کبھی علاقہ، کبھی شہر، کبھی ترقی کبھی جمہوریت کے نام کی دہائی دیتے ہوئے ساری حدیں پھلانگ کر ووٹروں سے ووٹ مانگتے دیکھا جاتا ہے، اس کے بعد مفاد پرستی و شخصیت پرستی کی خواہش ووٹروں سے کئے گئے وعدوں سے دور کردیتی ہے۔ خدارا تلنگانہ کے چیف منسٹر صاحب ایسے لوگوں کے سامنے تلنگانہ کے عوام کو قربانی کا بکرا بنانے سے پہلے سو بار ٹھنڈے دل سے سوچ لینا کہ مرکز کی ریاستوں کے تعلق سے ہمدردی خاصکر تلنگانہ کے بارے میں اس کا رویہ بہت ہی بے رحمانہ ہے۔
kbaig92@gmail.com