بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے

کے این واصف
انٹرنیٹ ایک ایسی چیز ہے کہ وہ جس قدر استعمال کیا جاتا ہے اتنی ہی ہر روز اس پر لعنت ملامت بھی کی جاتی ہے ۔ انٹرنیٹ ، سیل فون اور اسی پریوار کے دیگر عصری آلات اب دکھاوے یا شان و شوکت کے زمرے سے نکل کر ہماری ضروریات زندگی میں شامل ہوگئے ہیں ۔ ہمارے سماج میں ان عصری آلات کے بارے میں جو عام شکایت ہے وہ یہ ہے کہ اس سے ہماری نئی نسل بگڑ رہی ہے ۔ ہم کسی بھی دور پر نظر ڈالیں تو ہم یہ دیکھیں گے کہ ہمارے سماج نے ہمیشہ نئی ایجادات یا ترقی پر گزشتہ دور کے افراد نے تنقید کی یا انہیں قبول کرنے میں کافی وقت لیا جبکہ نئی نسل ان پر فوری ٹوٹ پڑتی ہے۔ مشاہدہ ہے کہ آج کے بچے کسی نئی چیز کے بارے میں جاننے یا اپنے ذ ہن میں ابھرنے والے سوال کا جواب حاصل کرنے پچھلے وقتوں کی طرح اپنے بزرگوں ، ماں باپ یا ٹیچرز سے رجوع نہیں ہوتے بلکہ سیدھے گوگل (Google) پر جاتے ہیں۔ wikipedia میں جواب تلاش کرتے ہیں۔ اس تلاش میں وہ غلط راہ پر بھی نکل سکتے ہیں اور بھٹکنے کا احتمال صرف نئی نسل یا نو عمر بچوں ہی تک محدود نہیں ہے

کیونکہ انٹرنیٹ یا اسی قماش کی دیگر اشیاء کے اسیر افراد کی نجی زندگی مسائل کا شکار ہورہی ہے ۔ ان مسائل کا حل صرف اعتدال پسندی میں ہے ۔ یعنی ان عصری آلات کے استعمال کو اسی حد تک محدود رکھیں جہاں ضرورت کا تعلق ہے ۔ اس کے استعمال کو نشہ بازی یا لت نہ بننے دیں۔ اس اصول کی خود بھی پابندی کریں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تلقین کریں۔ کیونکہ ہم اپنے بچوں کو ان حالات سے پوری طرح دور رکھ سکتے ہیں، نہ ان کو اس کے خراب اثرات سے متاثر ہونے دے سکتے ہیں۔
عصری آلات کے استعمال کے منفی اثرات زیادہ تر ترقی یافتہ اور امیر سوسائٹیز میں ہیں ۔ ان میں مسلم سوسائٹیز اپنے بچوں پر ہونے والے منفی اثرات سے زیادہ پریشان ہیں۔ سعودی عرب میں اس موضوع پر عام مباحثے اور اخبارات و رسائل میں مضامین شائع ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں سعودی صحافی علی السید کا ایک مضمون عربی اخبار ’’عکاظ‘‘ میں شائع ہوا جس میں انہوں نے لکھا ہمارے بچے ہمارے کلیجے کے ٹکڑے ہیں۔

ہم ان کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے بچوں کو کسی چیز کی کمی نہ ہو۔ شاید اسی جذبے کے تحت ہم اپنے بچوں کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں۔ موجودہ دور کے بچوں کو موبائیل فون ، انٹرنیٹ ، آئی پیڈ ، آئی پوڈ، پلے اسٹیشن ، گیم باکس وغیرہ کی ضرورت ہے ۔ اب یہ چیزیں آسائش سے زیادہ ضرورت بن گئی ہیں۔ ہمارے بچوں کی انگلیاں بڑی تیزی سے موبائیل کے بٹن پر چلتی ہیں۔ وہ دیر تک موبائل یا لیب ٹاپ پر سر جھکائے بیٹھے رہتے ہیں۔ ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ شاید کوئی معصوم کھیل کھیل رہے ہیں۔ شاید فیس بک ، ٹوئیٹر پر رکھ رہے ہیں۔ حقیقت میں ہمیں نہیں معلوم ہوتا کہ نیٹ کی دنیا میں ان کی کیا سرگرمیاں ہیں۔ نیز انٹرنیٹ ان کی کسی طرح کی فکری اخلاقی ، تہذیبی تربیت کر رہا ہے ۔ تعلیم و تربیت کے ایک ماہر کا خیال ہے کہ موجودہ نسل شاید کسی نہ کسی طرح اپنے دین ، تہذیب اور ثقافت پر قائم رہے مگر آنے والی نسلوں کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے آنے والی نسلوں کی تربیت انٹرنیٹ پر چھوڑدی ہے ۔

اولاد ، اللہ تعالیٰ کا قیمتی انعام ہیں۔ قرآن پاک میں انہیں زینت اور دنیاوی زندگی کی رونق بھی کہا گیا ہے لیکن یہ رونق و بہار اور زینت و کمال اس وقت ہے جب اس نعمت کی قدر کی جائے ۔ دین اخلاق اور تعلیم کے زیور سے انہیں آراستہ کیا جائے ۔ بچپن ہی سے ان کی صحیح نشو و نما ہو۔ دینی تربیت کا خاص خیال رکھا جائے۔ نیز اسلامی و ایمانی ماحول میں انہیں پروان چڑھایا جائے ۔ والدین پر اولاد کے حقوق ہیں، ان میں سب سے اہم اور مقدم ان کی دینی تعلیم و تربیت ہی ہے ۔ اسلام عصری تعلیم کا ہرگز مخالف نہیں لیکن دین کی بنیادی تعلیم کا حصول اور اسلام کے مبادیات و ارکان کا جاننا تو ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس پر اخروی فلاح و کامیابی کا دارومدار ہے۔ جہنم کی اس آگ سے بچاؤ کیونکر ہوگا جب تک دین کی بنیادی تعلیم سے آگہی اور اس پر عمل نہ ہو ۔

توحید، رسالت اور آخرت پر سچا ایمان نہ ہو یا نماز روزہ سے اور روز مرہ زندگی میں احکام شریعت سے غفلت ہو۔ نارجہنم سے بچنے کی فکر جس طرح خود کو کرنی ہے اسی طرح والدین کی یہ اہم ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی بچپن سے ایسی تربیت کریں کہ ان میں دینی شعور پختہ ہو اور بڑے ہوکر وہ زندگی کے جس میدان میں بھی رہیں ، ایمان و عمل صالح سے ان کا رشتہ نہ صرف قائم بلکہ مضبوط رہے ۔ آج والدین دنیوی زندگی کی حد تک بچوں کے بہتر مستقبل کی خوب فکر اور کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ معاشرہ میں سرخرو رہیں اور آرام و راحت کی زندگی گزار سکیں لیکن دنیا کی چند روزہ زندگی کے بعد آ خرت کی جو لامحدود زندگی ہے وہاں کی سرخروئی اور سرفرازی سے خود بھی غافل ہیں اور بچوں کی تربیت میں بھی اس پہلو کو اہمیت نہیں دیتے۔

بچوں کا ذ ہن صاف اور قرطاس ابیض کی طرح ہوتا ہے ۔ اس پر جو چیز بھی نقش کردی جائے وہ مضبوط و پائیدار ہوتی ہے ۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ’’بچپن میں علم کا حصول پتھر پر نقش کی طرح ہوتا ہے‘‘۔ زمین سے اگنے والے نرم و نازک پودوں کی طرح بچوں کے خیالات ، فکر اورطرز زندگی جس رخ پر چاہے بآسانی موڑا جاسکتا ہے ۔ جب وہ بڑے ہوجائیں اور ان کی عقل پختہ ہوجائے تو ان میں تبدیلی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتی ہے ۔ اس لئے ابتدائی عمر میں بچوں کی نگرانی اور ان کی صحیح تربیت والدین اور سرپرستوں کی اہم ذمہ داری ہے ۔ اس عمر میں ان کی تربیت سے غفلت اور انہیں مکمل طور پر انٹرنیٹ کے سپرد کردینا بہت بڑی غلطی ہے ۔ قرآن و حدیث میں یہ حقیقت بیان ہوئی ہے کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے ۔ اصل کے اعتبار سے اس میں طہارت ، پاکیزگی ، برائیوں سے دوری اور ایمان کی روشنی ہوتی ہے ۔ پھر اسے گھر میں اچھی تربیت اور معاشرہ میں اچھے ساتھی میسر آجائیں تو وہ ایمان و اخلاق میں اسوہ و نمونہ اور کامل انسان بن جاتا ہے۔ اگر اسے ایمانی ماحول اور اسلامی تربیت میسر آجائے تو وہ یقیناً معاشرہ میں حقیقی مسلمان بن کر ابھرے گا لیکن اس کی تربیت صحیح نہج پر نہ ہو، گھر کے اندر اور باہر اسے اچھا ماحول نہ ملے تو وہ معاشرے میں مجرم اور فسادی انسان بن کر ابھرسکتا ہے ۔

انہوں نے لکھا کہ امام غزانی نے والدین کو یہ نصیحت کی کہ بچوں کو قرآن پاک ، احادیث مبارکہ ، نیک لوگوں کے واقعات اور ضروری دینی احکام کی تعلیم دیں۔ بچہ والدین کے پاس امانت ہوتا ہے اور اس کا پاکیزہ دل ایک نفیس جوہر اور موتی کی طرح ہے ۔ اگر اسے خیر کا عادی بنایا جائے اور بھلے کام سکھائے جائیں تو وہ انہیں سیکھتا ہوا بڑھتا اور پلتا ہے پھر دنیا و آخرت دونوں جگہ خوش نصیب رہتا ہے ۔ اگر اسے برے کاموں کا عادی بنایا جائے یا مہمل چھوڑدیا جائے تو بدبختی و ہلاکت اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔ اس کی حفاظت کا طریقہ یہی ہے کہ اسے علم و ادب سکھایا جائے ، اچھے اخلاق سکھائے جائیں اور مہذب بنایا جائے ۔ ایک اور دانشور ڈاکٹر مصطفی سباعی کے حوالے سے جو انہوں نے اپنی ایک کتاب میں لکھا کہ ایک شرعی عدالت نے چور کا ہاتھ کاٹنے کی سزا سنائی تو ہاتھ کاٹے جانے سے قبل اس نے بلند آواز سے کہا کہ میرا ہاتھ کاٹنے سے پہلے میری ماں کی زبان کاٹ دو۔ اس لئے کہ میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ جب اپنے پڑوسی کے گھر سے ایک انڈہ چوری کیا تھا تو میری ماں نے اس جرم پر مجھے تنبیہ نہ کی بلکہ خوشی کا ا ظہار کیا تھا ۔ اگر مجھے اس وقت روکا جاتا تو آج میں معاشرہ میں چور نہ بنتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اولاد کے اچھے یا برے بننے میں والدین کی تربیت اوران کی نگرانی کو بہت بڑا دخل ہے اور یہ والدین کی اہم ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کی دینی و اسلامی تربیت کا خاص خیال رکھیں۔ انہیں بچپن ہی سے اچھے اخلاق و کردار کا حامل بنائیں اور دین سے تعلق ان کے ذہنوں میں راسخ کردیں۔

جدید وسائل و ذرائع سے بچوں کو محروم کرنا شاید ممکن نہیں مگر ان کی نگرانی اور انہیں ان چیزوں کے مشروط استعمال کی اجازت دی جاسکتی ہے ۔ بشرطیکہ ان پر کڑی نظر بھی رکھی جائے کیونکہ جدید ذرائع و وسائل میں اچھے مواد کی فراہمی بھی بچوں کی تربیت میں مدد دے سکتی ہے یعنی بچوں کو ان عصری آلات سے دور رکھا تو ان کا تجسس مزید بڑھتا ہے اور وہ گھر سے باہر جاکر ان کے چیزوں کے استعمال کی خواہش پوری کرتے ہیں، کیونکہ وہاں آزاد رہتے ہیں تو بگڑنے کا استعمال ز یادہ بڑھ جائے گا ۔ ہم سب اس سے واقف ہیں کہ آج کے بچے بہت ذہین اور تیز ہیں۔ اسی لئے تو پروین شاکر نے کہا تھا ؎
جگنو کو دن کے وقت پکڑنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے