بچے لڑائی کریں۔ بڑے مذہب کو بدنام

محمد مصطفی علی سروری
مارچ کی اکیس تاریخ کو جمعرات کا دن تھا۔ پورے ملک میں ہندوئوں کی بڑی تعداد ہولی کا تہوار منارہی تھی۔ دارالحکومت دہلی سے تقریباً 50 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہریانہ کے گڑ گائوں میں بھونڈسی نام کے ایک گائوں کا منظر ہے، جہاں پر شام پانچ بجے کے آس پاس محمد ساجد نام کے ایک بزنس مین کے مکان پر 20 تا 25 نوجوانوں کا گروپ حملہ کر کے نہ صرف مکینوں کو بری طرح زخمی کردیتا ہے بلکہ مکان میں زبردست توڑ پھوڑ بھی مچاتا ہے۔ اس وقت ساجد کے مکان پر مہمان بھی موجود تھے جو کہ حملے کے دوران زخمی ہوگئے۔ اخبار انڈین ایکسپریس میں شائع شدہ ساکشی دیال نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ساجد کے بھانجے دلشاد نے بھونڈسی پولیس اسٹیشن میں جو شکایت درج کروائی ہے اس کے مطابق ان کے گھر کے کچھ بچے جب گھر کے قریب میں کرکٹ کھیل رہے تھے تو دو لوگ جو ایک بائک پر سوار تھے وہاں آکر ان سے جھگڑا کرنے لگے اور کہنے لگے تم لوگ پاکستان جاکر کھیلو۔ اس جھگڑے میں جب ساجد نے مداخلت کی تو ایک بائک سوار نے ساجد کو تھپڑ مارا ۔ پھر یہ لڑائی اس قدر بڑھ گئی کہ بائک سواروں نے اپنے مزید ساتھیوں کے ہمراہ ساجد کے گھر میں گھس کر حملہ کیا، توڑ پھوڑ مچائی اور گھر والوں کو مار کر زخمی کردیا اور جاتے وقت اپنے ساتھ کیا لے کر گئے اس کے متعلق انڈین ایکسپریس نے ساجد کی بیگم ثمینہ کے حوالے سے لکھا کہ ’’حملہ آوروں نے ہماری کھڑکیوں کو توڑا کار کو توڑا اور قیمتی اشیاء لے کر چلتے بنے جس میں سونے کی بالیاں، سونے کی ایک چین اور 25 ہزار روپئے نقدی بھی شامل تھی۔‘‘
گروگرام ہریانہ کے بھونڈسی گائوں میں مسلمانوں پر ہوئے اس حملہ کو مین اسٹریم میڈیا نے تو کوریج کیا ہی مگر اس سے بہت پہلے سوشیل میڈیا کے توسط سے بھونڈسی کے گائوں میں ساجد کے گھر پر حملے کی ایک ویڈیو کلپ ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی جس میں لاٹھی بردار نوجوانوں کا ایک گروپ ساجد اور اس کے گھر والوں بشمول خواتین کو لاٹھیوں سے بری طرح مارپیٹ کا نشانہ بنارہا ہے۔ اور اجنبیوں کے اس غیر متوقع حملے سے گھر کی خواتین چیخ و پکار کرتی ہوئی دیکھی گئیں۔
قارئین پچھلے پانچ برسوں کے دوران ہجومی تشدد کے ہاتھوں مسلمانوں کے مارے جانے کے کئی وقعات سامنے آئے ہیں لیکن یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس میں مسلمانوں کو ان کے گھر میں گھس کر مارا گیا اور خواتین و بچوں کا بھی کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔ گرو گرام میں ساجد کے گھر پر حملے کی ویڈیو ملک کے مسلمانوں میں بڑی تیزی کے ساتھ گشت کرنے لگی اور کہا گیا کہ مسلمان اب اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اس ویڈیو کو جس نے بھی دیکھا اس کے دل و دماغ میں مختلف خدشات ابھر رہے ہیں۔
اخبار دی ہندو کا شمار ملک کے ایک سنجیدہ اور سیکولر، غیر جانبدار صحافتی ادارے کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اخبار دی ہندو نے 23؍ مارچ 2019ء کو اپنے خصوصی نمائندے کے ذریعہ گروگرام میں مسلم گھر پر حملے کی رپورٹ شائع کی۔ اخبار نے لکھا کہ ’’گرائونڈ پر کرکٹ کھیلنے کے مسئلہ پر دو گروپوں میں لڑائی‘‘۔ اخبار ہندو نے گرو گرام پولیس کے ترجمان سبھاش بوکن کے حوالے سے لکھا ہے کہ دو گروپوں میں ایک ہی گرائونڈ پر کرکٹ کھیلنے کو لے کر جھگڑا ہوگیا۔ یہ واقعہ فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں ہے۔
اخبار ہندوستان ٹائمز ، دہلی کا ایک اور مشہور اخبار ہے۔ 23؍ مارچ کو گر وگرام میں ساجد کے گھر پر حملے کے متعلق خبر دیتے ہوئے ہندوستان ٹائمز نے لکھا کہ ’’کرکٹ کی لڑائی نے خطرناک شکل اختیار کرلی۔ ایک ہی خاندان کے 11 افراد زخمی۔‘‘ ہندوستان ٹائمز کے نمائندے لینا دھنکر نے 24؍ مارچ کو اپنی ایک رپورٹ میں ڈپٹی کمشنر آف پولیس ہیمانشو گرگ کے حوالے سے لکھا کہ بائک پر دو نوجوان ہولی کھیل کر نشے کی حالت میں واپس جارہے تھے ۔ اس وقت وہاں پر کھیلی جارہی کرکٹ کا بال انہیں آکر لگا۔ اسی مسئلے پر جھگڑا شروع ہوا۔‘‘ڈی سی پی نے ایک بڑا ہی اہم بیان دیا کہ ’’جھگڑے کے دوران دونوں گروپ ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ یہ ایک منصوبہ بند حملہ تھا۔ یہ واقعہ کرکٹ کے بال سے شروع ہوا ا ور خطرناک شکل اختیار کرگیا۔‘‘
قارئین آیئے اب ذرا اس مسلم خاندان کے بارے میں تفصیلات جان لیتے ہیں جن کے گھر پر ہولی کے دن گروگرام میں حملہ کیا گیا۔ اخبار انڈین ایکسپریس میں ساکشی دیال کی رپورٹ 24؍ مارچ کو شائع ہوئی۔ جس میں بتلایا گیا کہ محمد ساجد کا تعلق اتر پردیش کے باغپت سے قریب میں واقع ایک گائوں پانچی سے ہے اور ساجد نے 15 برس پہلے گڑ گائوں نقل مکانی کی تھی۔ پانچی گائوں کتنا بڑا ہے اس کے متعلق مردم شماری کی سال 2011کی رپورٹ میں لکھا ہے اس گائوں میں صرف 557 گھر ہیں اور گائوں کی آبادی 3954 بتلائی گئی۔ یہاں کے لوگوں کی معاشی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بیشتر لوگ مزدوری کرتے ہیں۔ محمد ساجد نے 15 برس قبل پانچی سے ہریانہ کے گروگرام کا رخ کیا تھا۔ قارئین گروگرام اور گڑگائوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ گڑگائوں کو ہی بی جے پی کی منوہر لعل کھتر حکومت نے سال 2016ء میں بدل کر گروگرام کردیا تھا۔ گڑگائوں ضلع کی ہی ایک تحصیل کا نام سوہنا ہے اور بھونڈسی اسی تحصیل کا ایک گائوں ہے جہاں پر اتر پردیش کے محمد ساجد نے سکونت اختیار کی تھی۔
قارئین بھونڈسی کا علاقہ کتنا بڑا ہے اس کے متعلق سال 2011ء کی مردم شماری نے لکھا ہے کہ اس ٹائون کی کل آبادی 17,410 ہے۔ یہاں پر 93.3 فیصد ہندو رہتے ہیں اور مسلمانوں کی آبادی 5.3 فیصد ہے۔ یہاں رہنے والے اکثر لوگوں کا ذریعہ معاش کاروبار ہے۔
ساکشی دیال نے اخبار انڈین ایکسپریس میں 26؍ مارچ کو اپنی رپورٹ میں ساجد کی بیوی کے حوالے سے لکھا کہ ان کے گھر پر حملہ کرنے والے ایک شخص نے کہا کہ ان مسلمانوں نے یہاں پر ایک تو محل تعمیر کر رکھا ہے۔ ہم انہیں نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ کیا ساجد نے واقعی بھونڈسی کے علاقے میں اپنے لیے محل تعمیر کیا تھا۔ ABP نیوز کے نمائندے نے ساجد کے گھر کے اندر کی جو ویڈیو بنائی ہے اس میں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ساجد نے اپنے گھر کی تعمیر پر بہت سارا پیسہ خرچ کیا۔ یہاں تک کہ سیڑھیوں پر بھی ماربل لگایا گیا۔ دیواروں پر بہترین پی او پی کی گئی۔
اخبار ہندوستان ٹائمز کی 26؍ مارچ کی لینا دھنکر کی رپورٹ میں بھونڈسی پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کروانے والے ساجد کے رشتہ دار محمد دلشاد کے حوالے سے لکھا کہ ’’ہم نے سال 2016ء میں 42 لاکھ کے خرچہ سے اپنے گھر کی تعمیر کی تھی۔‘‘
قارئین ذرا سا سونچیے۔ بھونڈسی کے علاقے میں ساجد کا شاندار بنگلہ پچھلے تین برسوں سے کھڑا ہے۔ اس گھر پر کانچ کے بڑے بڑے شیشے بالکل محفوظ تھے۔ اگر ساجد کو مسلمان ہونے پر نشانہ بنایا گیا تو حملہ آور شرپسند رات کے اندھیرے میں بھی آسکتے تھے اور اپنا کام کر کے جاسکتے تھے اور علاقے میں اتنا شاندار گھر تو کسی کو بھی آسانی سے مل جاتا کہ ڈھونڈنے کی ضرورت بھی نہ پڑے۔ ساجد کے گھر پر حملے کی ویڈیو اور بعد میں میڈیا نے بھی ساجد کے گھر اور گھروالوں کی جو ویڈیو نیوز چیانلس اور انٹرنیٹ پر دکھلائی گئی۔ اس میں تو کوئی بھی نوجوان، خاتون یا بچہ ایسا نظر نہیں آیا یا زخمی شخص ایسا نہیں تھا جن کو دیکھ کر ہی پتہ چلے کہ یہ مسلمان ہیں۔ ناکسی خاتون نے برقعہ پہنا تھا اور نہ کوئی حجاب تھا۔ ویسے گھر میں تو کوئی برقعہ پہنتا بھی نہیں لیکن بچوں سے لے کر بڑے مرد حضرات میں سے بھی کسی کا حلیہ ایسا نہ تھا کہ وہ شکل سے مسلمان لگے اور نہ ہی کسی نے کرتا پائجامہ پہن رکھا تھا کہ حلیہ سے ہی اجنبی لوگ پہچان پاتے کہ یہ مسلمان ہیں۔ قارئین یہ نکتہ اس لیے قابل توجہ ہے کہ یقینا لڑائی سے پہلے کرکٹ کھیلنے کے دوران اجنبیوں اور ساجد کے گھر والوں کے درمیان بحث و مباحثہ ہوا جس سے شرپسند کو پتہ چلا کہ ساجد اور اس کے گھر والے مسلمان ہیں ورنہ کوئی اجنبی باہر سے آکر وہاں کھیلنے والوں کو کیسے کہتا کہ تم مسلمان ہو پاکستان جاکر کرکٹ کھیلو؟
کتنا آسان ہے اپنی آپسی لڑائی کو ہندو-مسلم کی لڑائی میں بدل ڈالنا۔ بھونڈسی کے علاقے میں ایک اخباری اطلاع کے مطابق صرف دو ہی مسلمانوں کے گھر ہیں۔ ایسے پس منظر میں ذرا سونچیے کہ جب ساجد کا گھر بن رہا ہوگا تو یہ کوئی دو ایک دن کا کام نہیں تھا۔ مہینوں کا عرصہ لگا ہوگا۔ اگر علاقے کے ہندو شرپسندی کرتے تو ساجد کا گھر بن ہی نہیں پاتا اور پھر پچھلے تین برسوں کے دوران (جب سے ساجد نے اس گھر میں رہنا شروع کیا) بھی کوئی مسئلہ کبھی پیش نہیں آیا۔
قارئین، میں (مضمون نگار) آپ حضرات کی توجہ اس بات پر مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ ساجد کے گھر پر حملہ کرنے والے شرپسند تھے۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال نے ساجد کے گھر پر حملہ کے بعد ٹویٹر کے ذریعہ اپنا بیان جاری کیا اور کہا ’’حملہ آور ہندو نہیں غنڈے تھے۔‘‘
ڈی سی پی ہیمانشو گرگ کے حوالے سے ہندوستان ٹائمز کے نمائندے نے 26؍ مارچ کو اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ساجد کے گھر پر حملہ کرنے کے الزام میں جن پانچ ملزمین کو پکڑا گیا ان میں سے دو تو ہسٹری شیٹرس ہیں اور اس سے پہلے بھی جیل کی ہوا کھاچکے ہیں۔ اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ بھونڈسی اور گڑگائوں کے سبھی ہندو لوگ مسلمانوں سے نفرت نہیں کرتے بلکہ چند مٹھی بھر شرپسند ہیں جو اپنی لڑائی کو ہندو – مسلم کی لڑائی بتانا چاہتے ہیں اور مسلمان بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں جو دو گروپوں کی آپسی لڑائی کو ہندو – مسلم کی لڑائی میں بدل کر دیکھ رہے ہیں۔ عام انتخابات عین ہمارے سروں پر ہیں۔ ایسے میں اگر ملک کی رائے عامہ کو مذہب کی بنیاد پر بانٹا جائے تو یہ تشویش کی بات ہے۔ اس طرح کے کام سے ان لوگوں کے لیے اپنی دکانیں چمکانا آسان ہوگا جو مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگتے ہیں۔ ذرا سونچیے یو پی کے گائوں سے ایک مسلمان 15 سال پہلے آکر گڑگائوں میں بس جاتا ہے اور وہیں پر ایک کاروبار کر کے اتنا کمالیتا ہے کہ پورے علاقے میں شاندار بنگلہ بنالیتا ہے جس کی قیمت وہ خود 40 لاکھ سے زائد بتارہا ہے۔ اگر ساجد کے ساتھ مسلمان ہونے کی بنیاد پر امتیاز ہوتا تو کیا وہ ایسے علاقے میں رہ پاتا اور 15 برسوں میں وہیں پر کاروبار کر کے لاکھوں کمالیتا؟ آپ اگر میرے تجزیہ سے متفق نہیں ہیں تو ان سوالات کے جوابات ضرور تلاش کیجیے جو میں نے اٹھائے ہیں۔ شائد کہ آپ کو جواب مل جائے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم ہندوستانی مسلمانوں کو صحیح فہم و فراست عطا فرمائے۔ (آمین یارب العالمین)
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com