بچّے ہی بچّے

میرا کالم سید امتیاز الدین

بچّے ہی بچّے
ہمارا ملک دنیا کی ایک عظیم جمہوریت ہے ۔ آزادی تحریر و تقریر جتنی ہمیں حاصل ہے شاید بہت کم ملکوں کے عوام کو حاصل ہوگی ۔ لیکن آزادی تحریر و تقریر کا جتنا غلط استعمال ہم کرتے ہیں بہت کم ملکوں کے لوگ کرتے ہوں گے ۔ پچھلے پارلیمنٹری الیکشن میں مودی جی کی ملک گیر مقبولیت کی وجہ سے کئی ایسے لوگ بھی پارلیمنٹ میں داخل ہوگئے جن کو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب کیا بات کہنی چاہئے ۔ انہی میں ایک ہمارے ساکشی مہاراج ہیں ۔ پچھلے چھ مہینوں میں انھوں نے بعض ایسی باتیں کہہ دی ہیں کہ ہر بار ان کی پارٹی کو یہ کہہ کردامن جھاڑنا پڑا کہ ایسے بیانات سے پارٹی کا لینا دینا نہیں ہے ۔ ہم نہیں جانتے کہ ساکشی مہاراج کی تعلیم کہاں تک ہے ۔ ہمارا خیال ہے کہ مہاراج علم و لاعلمی کی چوکھٹ پر کھڑے ہیں اور خود انھیں پتہ نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ اس سے پہلے انھوں نے لو جہاد کا نعرہ دیا تھا جس کا مطلب کسی کی سمجھ میں نہیں آیا اور بالآخر وہ نعرہ بھونڈا مذاق بن کر رہ گیا ۔ پچھلے ہفتے ساکشی مہاراج پھر سیاسی افق پر نمودار ہوئے اور بہنوں کو مشورہ دیا کہ ہر ماں چار بچے پیدا کرے اور ہر بچے کو بڑا ہو کر کیا کام کرنا چاہئے اس کی تفصیل بھی بتادی ۔ اس بیان پر کئی لوگوں نے اعتراض کیا لیکن ہم کو اعتراض کی کوئی خاص وجہ سمجھ میں نہیں آئی ۔ دراصل ماؤں کی خدمت میں یہ ایک مشورہ ہے ۔ ہمارا خیال ہے کہ صحیح مشورہ دینے کے لئے مشورہ دینے والے کے لئے دو باتوں کی ضرورت ہے ۔ مشورہ دینے والا مخلص ہو اور صاحب عقل ہو ۔ ہمیں پتہ نہیں کہ ساکشی مہاراج ان دونوں شرائط کو پورا کرتے ہیں یا نہیں ۔ لیکن اتنا ضرور ہوا ہے کہ جن لوگوں نے مہاراج کا بیان پڑھا ہے وہ کسی قدر پریشان ضرور ہوئے ہیں ۔ ابھی حال ہی میں ہمارے ایک دوست کے لڑکے کی شادی ہوئی ۔ دو دن ہوئے وہ اپنے ہنی مون سے لوٹا ہے ۔ کل سرراہ وہ ہم سے ملا ۔ ہم نے خوش دلی سے اسے مبارک باد دی اور پوچھا ’کہو بیٹا ہنی مون کیسا رہا‘ ۔ اس نے بُرا سا منہ بنا کر کہا ’کیا بتاؤں انکل ، راتوں میں اکثر ساکشی مہاراج خواب میں آجاتے تھے جس سے بڑبڑا کر آنکھ کھل جاتی تھی پھر احساس ذمہ داری کی وجہ سے دیر تک لگتی نہ تھی‘ ۔ ہم نے اپنے دوست کے لڑکے سے کہا کہ جو آدمی گاندھی جی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کو محب وطن قرار دے اس کی باتوں پر زیادہ غور کرنے کی ضرورت نہیں ۔
ابھی لوگ ساکشی مہاراج کی نصیحت سے سنبھلے بھی نہیں تھے کہ سادھوی پراچی نے مہاراج کے بیان کی تائید میں ایک تقریر کرڈالی ۔ انھوں نے کہا کہ پہلے ہم دو اور ہمارے دو کے قائل تھے لیکن اب ہم بھی چار بچوں کے حق میں ہیں ۔ ایک سرحد پر دشمنوں سے لڑے گا ، ایک سادھو بنے گا اور ایک ان کی جماعت کے لئے کام کرے گا ۔ چوتھے بچے کے سپرد کیا خدمت ہوگی اس کے بارے میں یا تو انھوں نے کوئی تصفیہ نہیں کیا یا پھر اخبار والے رپورٹ کرنا بھول گئے ۔ ابھی چار بچوں کا چکر چل ہی رہا تھا کہ بنگال کے ایک لیڈر شیامل گوسوامی نے ایک قدم آگے بڑھ کر فرمایا کہ چار بچے بھی ناکافی ہوں گے ۔ آبادی کے صحیح تناسب کو قائم رکھنے کے لئے فی ماں پانچ بچوں کی پیدائش ضروری ہے ۔
بچوں کی پیدائش کے تعلق سے یہ تنازعہ چل رہا تھا کہ پروین توگاڑیہ جی نے ایک اور بیان دے دیا کہ ایسا قانون بنایا جائے جس میں دو سے زیادہ بچوں کی پیدائش پر پابندی لگائی جائے ۔
اس سارے منظر نامے میں کئی باتیں ہمیں بالکل عجیب معلوم ہوتی ہیں ۔ ہر بچے کی پیدائش میں ماں اور باپ دونوں شریک ہوتے ہیں لیکن افزائش نسل کے اس معاملے میں ہمارے محترم ’’مشیران برائے تعدادِ اطفال‘‘ صرف ماؤں سے چار بچوں یا پانچ بچوں کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ باپ سے کوئی بات نہیں کرتا ۔
اب کچھ ہماری ناچیز معروضات پیش خدمت ہیں ۔ بچوں کی پیدائش انسان کے ہاتھ میں نہیں ۔ بعض بالکل صحت مند جوڑے بھی لاولد رہ جاتے ہیں جس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔ کسی کو لڑکے کی خواہش ہوتی ہے لیکن اس کے گھر مسلسل لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں۔ بعض لوگ ایک بچی کی آرزو میں رہتے ہیں لیکن لڑکی ان کی قسمت میں نہیں ہوتی ۔ ایک نہایت خوبصورت خاتون نے جارج برنارڈ شا سے خواہش کی تھی کہ اگر آپ اور میں شادی کرلیں تو ہماری اولاد کو آپ کا دماغ اور میرا حُسن ملے گا تو دنیا عش عش کرے گی ۔ برنارڈ شا نے جواب دیا میڈم اگر اس کے برعکس آپ کا دماغ اور میری شکل و صورت آگئی تو شاید دنیا عش عش نہ کرسکے ۔
اسی طرح ایک صاحب اپنے بچے کا رجحان معلوم کرنا چاہتے تھے کہ لڑکا ڈاکٹر بننا پسند کرے گا یا انجینئر ۔ انھوں نے ایک نرس کے سیدھے ہاتھ میں انجکشن کی سیرنج دی اور بائیں ہاتھ میں ایک کیالکولیٹر Calculator دے دیا ۔ انھوں نے اپنے لڑکے سے کہا ’ان میں سے جو بھی پسند آئے لے لو‘ ۔ لڑکے نے نرس کو پسند کرلیا ۔ اب اگر کوئی صاحب یہ توقع کریں کہ ان کے حسب ارشاد مائیں چار بچے پیدا کریں جن میں ایک فوجی بنے ، ایک سائنسداں ، ایک بزنس مین اور ایک کچھ اور ۔ تو ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ ہم نے اپنے اسکول اور کالج کے دنوں میں بعض بچوں کو دیکھا ہے جو ابتدائی درجوں میں بہت زیادہ کھلنڈرے سمجھے جاتے تھے ۔ استاد ان سے ناخوش اور ماں باپ ناراض رہا کرتے تھے لیکن کالج میں داخل ہونے کے بعد اتنے ذمہ دار ہوگئے کہ اعلی ڈگریاں امتیاز کے ساتھ حاصل کیں ۔ اسی طرح بعض لڑکے ابتداء میں تو بہت اچھے رہے لیکن بعد کو بالکل ناکارہ ثابت ہوئے ۔ اگر آپ پیدائش سے پہلے ہی کسی بچے کی منزل مقصود کا تعین کرلیں توسوائے ناامیدی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ ہم کو یہ بھی یقین ہے کہ ایسے بیانات دینے والے بھی جانتے ہیں کہ ان باتوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ ان باتوں کا مقصد سوائے سستی شہرت اور تفرقہ پردازی کے کچھ اور نہیں ۔ ایک طرف تو حکومت سوچھ بھارت ، تجارت میں ترقی ، غریبوں کے لئے بینک اکاونٹ ، پٹرول کی قیمت میں کمی ، سائنس اور ٹکنالوجی میں ترقی جیسی اسکیموں ، سب کا وکاس اور سب کا ساتھ جیسا ایجنڈا سامنے رکھ کر چلنا چاہتی ہے وہیں اُسی پارٹی کے لوگ ایسی نفرت انگیز باتیں چھیڑ کر نفرت کا بیج بورہے ہیں ۔
ایسے میں ہمیں اردو کے دو شاعروں کی چشمک یاد آگئی ۔ فراق گورکھپوری اور اثر لکھنوی ۔ فراق بہت بڑے شاعر تھے ۔ اثر لکھنوی اتنے بڑے شاعر تو نہیں تھے لیکن زبان و بیان کے ماہر تھے ۔ دونوں اپنی شاعری میں ایک دوسرے پر چوٹ کرتے تھے ۔ فراق صاحب کی ایک غزل کا مطلع تھا ۔
فراق اپنی غزل پڑھتا ہے جس وقت
اثرؔ بیٹھے کیا کرتے ہیں ہی ہی
اثر لکھنوی کو طیش آگیا انھوں نے جوابی غزل کہی۔
اثرؔ کو کس نے دیکھا کرتے ہی ہی
کوئی حد ہے فراق اِس جھوٹ کی بھی
اس کے بعد غزل میں اور بھی شعر تھے جن میں اثر صاحب نے فراق کی شاعری کے بعض نقائص کی طرف اشارہ کیا تھا ۔ اثر کا مقطع تھا۔
بہت کچھ اور کہہ سکتا ہوں لیکن
جواب جاہلاں باشد خموشی
آج کی سیاست میں لوگ ہمہ قسم کی باتیں کرتے ہیں جن کا مقصد اشتعال انگیزی کے سوائے اور کچھ نہیں ۔ بچے مشوروں سے پیدا نہیں ہوتے ۔ ایسے بیانات کا جواب خاموشی اور خندہ زیرلبی کے سوا کچھ اور نہیں۔