بنگلہ دیش سے ہندوستان نقل مقام کرنے والوںکے خلاف کارروائی

کریم گنج؍ دیفو(آسام)۔ 30؍مارچ (سیاست ڈاٹ کام)۔ صدر بی جے پی راج ناتھ سنگھ نے آج کہا کہ 1971ء کے بعد جو لوگ بنگلہ دیش سے آکر آسام یا ملک کے کسی حصہ میں بس گئے ہوں انہیں غیرقانونی تارکین وطن تصور کیا جانا چاہیئے اور ان کے خلاف ضروری کارروائی کی جانی چاہیئے ۔ بارک ویلی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے راج ناتھ سنگھ نے کہا ہر شخص یہ جانتا ہے کہ عوام بالخصوص مخصوص فرقہ کا گذشتہ چار دہوں کے دوران بنگلہ دیش یہاں آنے کا سلسلہ جاری ہے اور مخصوص سیاسی جماعتیں محض ووٹ بینک سیاست کے خاطر ان کی سرپرستی کررہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ بی جے پی اقتدار پر آنے کے بعد ہم تحقیقات شروع کریں گے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ مخصوص فرقہ کے کتنے لوگ غیرقانونی طور پر ملک میں داخل ہوئے اور یہاں بس گئے ۔

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اگر کوئی پاسپورٹ ‘ ویزا یا ورک پرمٹ کیساتھ ملک میں داخل ہوا ہے تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں لیکن کوئی شخص یہیں بس جائے اور واپس نہ جائے تو ہم اسے قبول نہیں کرسکتے ۔ انہوں نے کہا کہ ایسے معمولات میں جہاں ہندوؤں کو بنگلہ دیش میں ہراساں کیا جارہا ہے اور انہیں ملک چھوڑ نے پر مجبور کیا جارہا ہے ‘ ہم انہیں پناہ گزیں نہیں تصور کرسکتے بلکہ ان کے ساتھ خصوصی ہمدردی کا معاملہ کیا جائے گا ۔ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ بی جے پی مختلف مذاہب کے مابین فرق یا مذہب کی بنیاد پر ملک کی تقسیم پر ایقان نہیں رکھتی جیسا کہ آزادی کے وقت کیا گیا ۔ بی جے پی انسانیت کی سیاست پر یقین رکھتی ہے مذہب کی نہیں ۔ انہوں نے کہاکہ آسام میں ہندو اور مسلم کے مابین کوئی فرق نہیں لیکن غیرقانونی تارکین وطن جو یہاں کی مقامی آبادی کیلئے خطرہ بنے ہوئے ہیں انہیں ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا ۔

اس سے پہلے 1998ء میں بی جے پی اقتدار پر آنے سے قبل ہندوستان کو ایک کمزور ملک تصور کیا جاتا تھا اور یہ بات واجپائی جی کیلئے انتہائی ناگوار تھی ۔ اقتدار پر آنے کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہندوستان نیوکلیئر تجربات کرے ۔ چنانچہ کئی ممالک کی مخالفت کے باوجود ہم نے یہ تجربات کئے ۔ انہوں نے بتایا کہ طاقتور ممالک نے معاشی امداد روک دینے اور تحدیدات عائد کرنے کی دھمکیاں دیں لیکن ہم نے خود کو طاقتور ثابت کیا اور اب کوئی بھی ملک ہمیں کمزور نہیں سمجھتا ۔ بی جے پی صدر نے کہاکہ کانگریس زیر قیادت یو پی اے حکومت کے اقتدار پر آنے کے بعد صورتحال تبدیل ہوئی کیونکہ وزیراعظم منموہن سنگھ اُس وقت بھی خاموش رہے جب پاکستانی فوج ہندوستانی سرزمین پر داخل ہوگئی تھی ۔ اس سے ساری دنیا کو غلط اشارے ملے۔