بندر نے ٹرین میں سفر کیا

میرا کالم مجتبیٰ حسین
صاحبو ، بعض اوقات موضوعات کی اتنی بھرمار اور تکرار ہوجاتی ہے کہ بار بار ایک ہی موضوع پر اظہار خیال کرنے کی نوبت آجاتی ہے۔ کچھ دنوں پہلے ہم نے ایک ایسے جانور کو موضوع بنایا تھا جسے جانور کہتے ہوئے ہم جیسے باضمیر اور خوددار انسان کو بڑی شرم آتی ہے۔ اس لیے کہ وقت کی دھار پر چلتے ہوئے انسان نے حیوانیت کی سمت اور حیوان نے انسانیت کی سمت کچھ ایسی تیز رفتاری سے سفر کیا ہے کہ اس ترقیِ معکوس کا خیال آتا ہے تو حیرت ہوتی ہے۔ کتا جیسا بے لوث، بے غرض اور بے ریا جانور ان دِنوں انسانوں میں بھی بڑی مشکل سے پایا جاتا ہے۔ آپ نے ’ہریالی کا کتا ضرور دیکھا ہوگا، جو سبزہ زار پر اُگی ہوئی ہریالی کی حفاظت کے کام پر مامور ہوتا ہے۔ جیسے ہی کوئی بھیڑ، بکری، گائے یا بھینس سبزہ زار پر پھیلی ہوئی مزیدار ہریالی پر منہ مارنے کے ارادے سے آگے بڑھتی ہے تو ’ہریالی کا کتا‘ بے ساختہ بھونکنے اور مذکورہ جانور کو کاٹنے کے لئے لپک پڑتا ہے۔ ایسے میں کوئی لالچی اور خود غرض انسان یہ منظر دیکھ لیتا ہے تو کتّے کی بیوقوفی کا مذاق اُڑاتا ہے کہ عجیب احمق جانور ہے، خود تو ہریالی نہیں کھا سکتا اور کوئی دوسرا جانور ہریالی کھانا چاہے تو اسے بھی کھانے نہیں دیتا حالانکہ آج کل ترقی یافتہ دَور ’امدادِ باہمی‘ کے اصول پر نہیں بلکہ ’بے ایمانیِ باہمی‘ کے اصول پر قائم ہے۔ خود کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھانے دو۔ اگر خود کوئی چیز نہیں کھاسکتے تو دوسرے کو اس چیز کے کھانے کا موقع فراہم کرنے کا معاوضہ وصول کرلو اور معاوضے کی مدد سے خود کی پسند کی کوئی چیز خرید کر کھالو۔

ایسے معاشرے میں جب کتّے جیسا یا ہم جیسا کوئی وفادار کردار غلطی سے نظر آجاتا ہے تو آج کا انسان اس کی حماقت کا مذاق اُڑاتا ہے کہ نہ خود کھاتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کو کھانے دیتا ہے۔ کتّے کی بات پر ہمیں حضرتِ شیخ سعدی کی بات یاد آگئی کہ ایک بار وہ کسی قصبے میں پہنچے تو ایک کتّے نے ان پر اچانک بھونکنا شروع کردیا۔ حضرت نے کتّے کو دھمکانے اور بھگانے کی خاطر زمین پر پڑے ہوئے پتھر کو اُٹھانا چاہا تو پتہ چلا کہ پتھر زمین میں دُور تک دھنسا ہوا ہے۔ اس پر حضرتِ شیخ سعدی نے اپنے مخصوص انداز میں اس شہر کے باسیوں پر نظر کرنے کی خاطر کہا : ’’یہاں کے لوگ بھی عجیب ہیں۔ کتّے کو تو کُھلا چھوڑ دیتے ہیں البتہ پتھر کو باندھ کر رکھتے ہیں‘‘۔ بہرحال وہ حضرتِ شیخ سعدی کا زمانہ تھا۔ اب زمانہ یکسر بدل گیا ہے۔ یہاں بے ایمانوں اور دھوکے بازوں کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے البتہ کتّوں اور ہم جیسے احمقوں کو وفاداری اور دیانت داری کے بھاری پتھر سے باندھ دیا گیا ہے۔ گھبرایئے نہیں، آج ہم کتّوں کے بارے میں اظہارِ خیال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے بلکہ آج ایک اور جانور ہمارے نشانے پر ہے۔

یہ اور بات ہے کہ ہم خود بیسیوں بار اس کے نشانے پر رہ چکے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس جانور سے ہمارا رشتہ بہت پرانا ہے بلکہ ڈارون صاحب تو اس کا شمار ہمارے اجداد میں کرتے آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے کارناموں کے علاوہ خود ڈارون صاحب اور بندر کی کارستانیوں سے بخوبی واقف ہیں۔ بندر ایک ایسا جانور ہے جسے ہم جب بھی دیکھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم کسی دھندلے آئینے میں خود اپنے آپ کو دیکھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ دراصل انسان اور بندر کے بیچ پائی جانے والی گہری مماثلت ہے۔ ہمیں انسان اور بندر کے درمیان صرف ایک ہی فرق نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ بندر کے دُم ہوتی ہے اور انسان دُم سے بے بہرہ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ارتقا کے دَور سے گزرتے ہوئے بعض بندروں نے بیجا خوشنودی حاصل کرنے اور مصلحت آمیزی کے باعث اپنی دُم کو ضرورت سے زیادہ ہلانا شروع کردیا۔ نتیجے میں کثرتِ استعمال کے باعث ان بندروں کی دُم معدوم ہوگئی اور وہ بندر سے انسان بن گئے۔ بعد میں انسان نے خوشنودی حاصل کرنے کے آلے کے طور پراپنی زبان کو دُم کے نعم البدل کا درجہ عطا کردیا اور اظہارِ خوشنودی کو بالآخر چاپلوسی اور خوشامد کی حدوں تک پہنچادیا۔ یوں اچھے بھلے انسان کو ’مصاحب‘ بنادیا۔ افسوس کہ انسان نے زبان جیسی خطرناک چیز کو پانے کی خاطر دُم جیسی کارآمد اور مفید چیز سے دستبرداری اختیار کرلی۔ خیر یہ ایک لمبی بحث ہے جس میں اس وقت ہم اُلجھنا نہیں چاہتے۔ آج ہمیں بندر کی یاد اس لئے آئی کہ پچھلے دنوں ایک اطلاع کے مطابق دہلی کے نئے میٹرو ریلوے نظام کی ایک ٹرین میں سوِل لائنز کے علاقے سے پارلیمنٹ کے روبرو واقع میٹرو ریلوے اسٹیشن تک ایک شریر اور چالاک بندر نے سفر کیا اور ظاہر ہے کہ بندر مذکور نے یہ سفر ٹکٹ خریدے بغیر ہی کیا ہوگا کیوں کہ بندر ٹکٹ خریدنا نہیں جانتا۔ یہ اور بات ہے کہ انسان ٹکٹ خریدنا بہت اچھی طرح جانتا تو ہے لیکن پھر بھی حتی الامکان یہ کوشش کرتا ہے کہ ٹکٹ خریدنے کی نوبت نہ آئے۔ بندر اور انسان میں یہی تو بنیادی فرق ہے حالانکہ سائنسی نقطۂ نظر سے بندر کو ہمارا جدِّ اعلیٰ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ خیر یہ بھی ایک الگ معاملہ ہے

جس پر کبھی پھر بات ہوگی۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ میٹرو ٹرین میں اچانک بندر کے چلے آنے سے ٹرین کے مسافروں میں ایک کھلبلی مچ گئی اور وہ خوفزدہ ہوگئے کہ کہیں یہ بندر ان پر حملہ نہ کردے۔ انسان ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا رہتا ہے کہ ہر جانور اس پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جبکہ ہمیں انسان کی اس خوش فہمی پر ہنسی آتی ہے جس کے مطابق ہر انسان اس سادہ لوحی میں مبتلا رہتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان پر حملہ نہیں کرسکتا۔ حالانکہ اس دھرتی پر انسان ہی صدیوں سے ایک دوسرے کو ہلاک کرتا آیا ہے۔ بہرحال اس معصوم اور سادہ لوح بندر کی موجودگی کی وجہ سے ٹرین کے مسافر ایک ڈبے سے دوسرے ڈبے میں بھاگتے رہے۔ بالآخر پون گھنٹے کی تگ و دو کے بعد یہ بندر پارلیمنٹ کے قریب واقع میٹرو ریلوے اسٹیشن پر اُتر گیا۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ ہمیں یہ مصرع اس لئے بھی یاد آیا کہ تیس پینتیس برس پہلے ہم اس علاقے کی عمارتوں میں اپنے فرائض منصبی ادا کرتے تھے۔ یہاں مرکزی حکومت کے سارے اہم دفاتر کے علاوہ پارلیمنٹ اور راشٹرپتی بھون بھی واقع ہے۔ اس علاقے کی خوبی یہ ہے کہ یہاں انواع و اقسام کے بندر بھی پائے جاتے ہیں۔ ان بندروں سے ہماری بڑی پرانی شناسائی ہے۔ پتہ نہیں ان بندروں نے اپنے قیام و طعام کے لئے دہلی کے اس علاقے کا انتخاب کیا ہے حالانکہ اس علاقے میں مرکزی حکومت کے اہم عہدیداروں کے علاوہ ہمارے سیاسی حکمران بھی رہتے ہیں اور پارلیمنٹ کی عمارت بھی یہیں ہے۔ اب اگر بندروں سے یہ سوال پوچھا جائے اور وہ اُلٹا ہم سے یہ سوال پوچھ لیں کہ بتاؤ سیاسی حکمرانوں اور صاحبانِ اقتدار نے اپنے قیام و طعام کے لئے ہمارے علاقے کا انتخاب کیوں کیا تو ہم کیا جواب دیں گے۔ چاہے کچھ بھی ہو انسان اور بندر یہاں باہم شیر و شکر ہوکر رہتے ہیں۔ ایک ہی رکاب میں نہ صرف ساتھ کھانا کھاتے ہیں بلکہ جس رکابی میں کھاتے ہیں اس میں چھید بھی کر ڈالتے ہیں، بھلے ہی انسان نے بندروں سے کچھ نہ سیکھا ہو لیکن بندروں نے انسان سے رکابی میں چھید ڈالنے کا گُر سیکھ لیا ہے۔ بعض رحم دل سرکاری ملازمین اپنے دوپہر کے کھانے کے ساتھ بندروں کے لئے بھی کچھ نہ کچھ ضرور لے آتے ہیں جس کی وجہ سے بندر آس لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ ساری دہلی میں یہی ایک علاقہ ایسا ہے جہاں بندر کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی عمارتوں کے اندر اور عمارتوں کے باہر جو بھی ہنگامہ اور شور شرابا نظر آتا ہے

وہ ترقی یافتہ بندروں کا مرہونِ منت ہوتا ہے حالانکہ اس میں خالص بندروں کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا۔ بعد میں ہم جنوبی دہلی کے ایک دفتر میں کام کرنے لگے تو ایک عرصے تک محض اس لیے کام نہ کرسکے کہ بندر ہمارے شریک کار نہ تھے۔ ہوسکتا ہے میٹرو ریلوے میں جس بندر نے سوِل لائنز کے علاقے سے سفر کا آغاز کیا تھا وہ غلطی سے اس میں سوار ہوگیا ہو لیکن جس منزل پر پہنچ کر اس نے اپنے سفر کو انجام تک پہنچایا وہ اس کے لئے بالکل صحیح جگہ تھی۔ سنا ہے کہ اس بندر کو ٹرین سے نکالنے کی بڑی کوشش کی گئی لیکن یہ کسی کے ہاتھ نہ آیا۔ اس بات سے اس کے ذوقِ سفر کا اندازہ آپ لگاسکتے ہیں۔ سنا ہے کہ اس بندر کی موجودگی کی وجہ سے ٹرین کے سارے مسافر پریشان ہوگئے تھے حالانکہ اس میں پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ کسی اسٹیشن پر کسی کھچا کھچ بھری ہوئی ٹرین کو دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے کئی بندر ایک ساتھ مل کر سفر کررہے ہیں۔ جس طرح انسان ٹرینوں میں سوار ہوتے ہیں، کھڑکیوں سے لٹک کر اور نشستوں کو جکڑ کر جس طرح سفر کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر سوار ہوجاتے ہیں اس سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ٹرینوں میں سفر کرنے کا اصل حق تو صرف بندروں کو ہی حاصل ہے۔ مانا کہ بندر نے ترقی کی تو وہ انسان بن گیا اور انسان بن کر جب اس نے ترقی کی مزید منزلیں طے کیں تو ریل گاڑی بھی ایجاد کرلی لیکن جب ریل گاڑی میں سفر کرنے کی نوبت آئی تو اسے احساس ہوا کہ اس سواری میں سفر کے لئے انسان میں بندروں کی سی صفات اور خصوصیات کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ تب اسے افسوس ہوا کہ اس نے بندروں کی سی صفات اور خصلتوں سے بلاوجہ دستبرداری اختیار کرلی۔ بندر وہ جانور ہے جو بوقتِ ضرورت اپنی دُم کی مدد سے کسی بھی درخت کی ٹہنی سے لٹکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر انسان کے پاس دُم ہوتی تو ذرا سوچئے کہ ٹرین کا سفر کرنے میں آج انسان کو کتنی سہولت ہوتی۔ ہمیں یہ تسلیم ہے کہ ترقی یافتہ انسان دُم کا کام اپنی زبان سے لیتا ہے اور جانور کے مقابلے میں چاپلوسی اور خوشامد کا بہتر مظاہرہ کرسکتا ہے لیکن وہ ٹرین کے سفر کے دوران میں کسی چیز کو اپنی زبان سے پکڑ کر لٹک نہیں سکتا اور ٹرین کے سفر میں مسافر کے بیٹھنے اور کھڑے رہنے کے مقابلے میں لٹکنے کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اب اگر دہلی میں ایک بندر نے ٹرین میں سفر کیا ہے تو اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔ ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ بندروں کو ٹرینوں میں سفر کرنے کی سہولت فراہم کی جائے تاکہ انسانی مسافر ان کی حرکتوں اور کارستانیوں کو دیکھ کر ٹرینوں میں سفر کرنے کے آداب سیکھ لیں۔ یوں بھی انسان نے یہ سواری بندروں کی سہولت کے لئے ہی بنائی ہے۔

آخر میں ہمیں بے ساختہ ایک بندر کی یاد آگئی جس سے ہمارا سابقہ آج سے ٹھیک 68 برس پہلے پڑا تھا۔ حیدرآباد پر پولیس ایکشن ہوا تو ہماری عمر گیارہ بارہ سال کی ہوگی۔ گلبرگہ کے ایک ہوسٹل میں ہم تنہا رہتے تھے۔ ہر طرف افراتفری، قتل و غارت گری اور بربادی کا دور دورہ تھا۔ ہم نے راہِ فرار اختیار کرکے حیدرآباد جانے کی کوشش کی تو تانڈور تک جاکر رُک گئے کیوں کہ حمل و نقل کے سارے ذرائع اچانک مسدود ہوگئے تھے۔ ہم نے سوچا کہ پیدل ہی چنچولی تک چلے جائیں جہاں ہمارے ماموں رہتے تھے۔ زور کی بارش ہورہی تھی اور ہم جنگلوں میں چھپتے چھپاتے جارہے تھے کہ ہمیں زور کی بھوک لگی۔ ہمارے پاس ایک تھیلی میں آدھی ڈبل روٹی رکھی تھی۔ ہم نے ایک پیڑ کے نیچے کھڑے ہوکر جیسے ہی ڈبل روٹی نکالی اوپر سے ایک بندر نے جست لگاکر روٹی ہمارے ہاتھ سے چھین لی۔ بندر کے اس اچانک حملے سے ہم خوف کے مارے کانپنے لگے۔ بڑی دیر کے بعد ہم خوف کے دائرے سے باہر نکل آئے تو دیکھا کہ بندر روٹی کھانے کے بعد ہمیں حیرت سے دیکھ رہا ہے۔ بندر کی اس حرکت کو دیکھ کر ہمیں ہنسی آگئی اور پھر ایک بار انسانیت پر ہمارا ایقان پختہ ہوگیا۔ کیوں کہ ہمیں پتہ تھا کہ بندر صرف ہماری روٹی چھین سکتا ہے، ہماری پیٹھ میں چُھرا نہیں گھونپ سکتا اور ہمارے گھر کو آگ نہیں لگا سکتا۔ ایک لمحے کے لیے ہم نے سوچا کہ انسان اگر بندر ہی برقرار رہتا تو آج ہر طرف انسانیت کا بول بالا ہوتا۔ (ایک پرانی تحریر)