بلوچی عسکریت پسندوں سے چین کی خفیہ بات چیت

اسلام آباد کی جانب سے خیرمقدم، 60 ارب ڈالر مالیتی زیر تعمیر راہداری بچانے بیجنگ کی کوشش
اسلام آباد 20 فروری (سیاست ڈاٹ کام) پاکستان میں 60 ارب امریکی ڈالر کے خطیر سرمایہ سے تعمیر کی جانے والی چین۔ پاکستان اقتصادی راہداری کو بچانے کے لئے چین گزشتہ پانچ سال سے پاکستان کے شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں سرگرم بلوچ عسکریت پسندوں سے انتہائی خاموشی کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہے۔ 3000 کیلو میٹر طویل دنیا کی اس سب سے بڑی اقتصادی راہداری کی تعمیر کا مقصد چین اور پاکستان کو ریل، روڈ، پائپ لائنس، آپٹیکل فائبر، کیبل فائبر نیٹ ورک سے مربوط کرنا ہے۔ یہ راہداری چین کے صوبہ زنجیانگ کو بلوچستان کے بندرگاہ گوادر سے مربوط کرے گی جہاں سے چین کو بالخصوص بحر عرب اور بالعموم دنیا بھر تک آسان رسائی حاصل ہوگی۔ اس پراجکٹ کی تکمیل کے بعد چین کو مشرق وسطی سے براہ پائپ لائنس زنجیانگ تک تیل منتقل کرنے کی سہولت حاصل ہوجائے گی۔ جس سے اس صوبہ تک سفر کرنے والی چینی کشتیوں کے فاصلے اور اس پر عائد ہونے والے مصارف میں قابل لحاظ کمی ہوگی۔ چین گزشتہ نصف صدی سے دیگر ممالک کے داخلی معاملات اور گھریلو سیاست میں عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے لیکن بلوچ عسکریت پسندوں سے اُس کی خاموش بات چیت دراصل اس پراجکٹ کو بچانے کی کوشش کا حصہ ہے۔ علاوہ ازیں چین تیزی سے اُبھرنے والی معیشت اور قومی دولت میں بے پناہ اضافہ کے ساتھ یوروپ، ایشیاء اور افریقہ میں تجارتی راستے بنانے کے لئے ایک نئی شاہراہ ریشم تعمیر کررہا ہے۔ اس طرح دنیا بھر میں بری و بحری راستوں کے لئے چین کی جانب سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے چنانچہ اس ملک کی داخلی سیاست میں حصہ سمجھی جانے والی بات چیت کو بھی سرمایہ کاری کی حفاظتی مساعی کا حصہ ہوسکتی ہے۔ پاکستانی میڈیا کی رپورٹ میں شائع شدہ اس خبر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’پاکستانی سیاست میں ملوث ہونے چین کی آمادگی سے نئی دہلی میں تشویش پیدا ہوسکتی ہے جو (ہندوستان) اپنے دیگر پڑوسی ملکوں نیپال، مائنمار اور سری لنکا میں چین کے بڑھتے ہوئے سیاسی اثر و رسوخ پر پہلے ہی پریشان ہے‘‘۔ چین ۔ پاکستان اقتصادی راہداری پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے راستہ سے گذر رہی ہے جس کے خلاف ہندوستان پہلے ہی چین سے احتجاج کرچکا ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند جنگی سرداروں کا کافی اثر و رسوخ ہے۔ پاکستان نے بلوچی عسکریت پسندوں سے چین کی بات چیت کا خیرمقدم کیا ہے حالانکہ اس کی تفصیلات سے باخبر بھی نہیں کیا گیا ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق حالیہ عرصہ کے دوران امریکہ نے پاکستان کو دی جانے والی سکیورٹی امداد معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس نے اسلام آباد میں کئی تجزیہ نگاروں اور اعلیٰ سرکاری ذمہ داروں کو یہ باور کروادیا ہے کہ واشنگٹن کے مقابلہ بیجنگ ہی اسلام آباد کا اصل حلیف اور ساجھیدار ہے۔ پاکستان کی نئی نسل بھی اب تخریب کاری سے ایسی دلچسپی نہیں رکھتی جیسی 10 سال قبل دیکھی جاتی تھی۔ چنانچہ اکثر افراد کا احساس ہے کہ آنے والے برسوں کے دوران چین ۔ پاکستان راہداری مستقبل میں ترقی و خوشحالی لاسکتی ہے۔