بلراج مین را کی یاد میں

ڈاکٹر سرور الہدیٰ
شعبۂ اردو ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
15 جنوری کو دو بج کر 44 منٹ پر مین را کے انتقال کی خبر ملی۔ کوئی دو ماہ کے بعد ان کے موبائل سے فون آیا تھا۔ نام دیکھ کر اطمینان ہوا کہ اب ان کی طبیعت سنبھل گئی ہے۔ اسی خیال میں تھا کہ ادھر سے آواز آئی سرور دس منٹ پہلے پاپا کی Death ہوگئی۔ یہ آواز مین را کے بیٹے مشکن کی تھی۔ اس سے زیادہ کچھ کہنے اور سننے کے لیے باقی نہیں تھا۔ میں وطن سے لوٹ رہا تھا۔ ٹرین کافی لیٹ ہوچکی تھی۔ پانچ بجے گھر پہنچا اور فوراً ہی نگم بودھ گھاٹ کے لیے اپنے ایک شاگرد ثاقب فریدی کے ساتھ روانہ ہوگیا۔ مین را کی لاش پشتے پر رکھی تھی۔ سامنے مشکن کھڑے تھے اور اردگرد ان کے گھر اور خاندان کے لوگ۔ مین را کے دو دوست عبدالمغنی اور عتیق الرحمن بھی موجود تھے۔ مشکن کو گلے لگاتے ہوئے مین را کی موجودگی کا احساس کچھ اور تیز ہوگیا۔ کوئی سات بجے آخری رسومات کی ادائیگی شروع ہوئی۔ آخری مرحلہ تو وجود خاکی کو نذر آتش کیا جانا تھا۔ لکڑیاں اکٹھا تھیں اور انھیں ذرا دیر میں اپنا کام شروع کرنا تھا۔ میں بلراج مین راکو آخری مرتبہ دیکھنا چاہتا تھا۔ میں نے بھی دیکھا اور وہاں موجود تمام لوگوں نے بھی ، ایک شعلہ خاموش تھا۔ مین را کے اردگرد زندگی میں کبھی سناٹا نہیں چھایا۔ لیکن یہ زندگی کی ایک بڑی حقیقت ہے۔ جیسے جیسے  آگ کی لپٹیں اٹھنے لگیں میرا دل بجھنے لگا۔ اس آگ کی لپٹوں میں ایک ریڈیکل، اصول پسند اورایماندار شخص کا وجود جل رہا تھا اور ایک معنی میں روشن ہورہا تھا۔ اوپر اٹھتی ہوئی آگ نہ جانے کتنی مرتبہ مین را کے وجودکے اندر اٹھ چکی تھی۔ اس کی تپش کو ان لوگوں نے محسوس کیا جو مین را کے سچے دوست اور قدردان تھے۔ میر نے اپنے شعلے کو کس قدر پہچانا تھا:
آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم
یک شعلہ برق خرمن صد کوہ طور تھا
آج ایسا محسوس ہوا کہ دل کی آگ بلند ہورہی ہے۔ ایک آگ بلند ہورہی تھی اور دوسری آگ بدستور تہہ نشیں تھی۔ جو آگ دبی تھی اس کی عمر زیادہ ہے۔ اسی آگ سے مین را کا وجود روشن تھا۔ اسی روشنی میں مین را نے اپنا تخلیقی سفر جاری رکھا۔ا یک شعلہ دوسرے شعلہ سے بے تعلق نہیں رہ سکتا مگر دونوں کی اپنی اپنی الگ پہچان اور اس کا مقام ہے۔ میں نگم بودھ گھاٹ چند سال قبل بلراج مین را کی اہلیہ کی آخری رسومات کی ادائیگی کے وقت بھی آیا تھا۔ مجھے یاد ہے بلراج مین را نے اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے میرا مشکل وقت میں بڑا ساتھ دیا۔ میرے کئی احباب جے این یو سے آئے تھے اور وہ سبھی مین را کی اس فطری بات کو یاد کرتے تھے۔
مین را کی چِتا کے ساتھ جو آس پاس چتائیں جل رہی تھیں اسے دیکھ کرمین را کی کہانی ’آتما رام‘ یاد آگئی جو انھوں نے اپنے والد کے انتقال پر لکھی تھی۔ اس کہانی میں ان آخری رسومات کی ادائیگی کا بھی ذکر ہے جو آج کی شام مین را کے لیے ادا کی جارہی تھیں ۔ موت کے بارے میں مین را نے عام زندگی میں کچھ اس طرح سوچا ہے ایک انسان پیدا ہوا ہے اور اس کا خاتمہ ہونا ہے۔ ان کے کسی رویے سے یہ ظاہر نہیں ہوا کہ موت کا انھیں خوف ہے یا زندگی سے انھیں حددرجہ پیار ہے۔
دہلی کی یہ ایک سرد شام تھی جس میں ایک آگ روشن تھی اگر آگ مستقل طور پر وجود کا حصہ ہو اس میں تمام عمر جلنا زیادہ بڑا کام ہے۔ مین را کی اس آگ اور سلگنے کی کیفیت کو جن لوگوں نے محسوس کیا وہ ان کی اپنی ضرورت ہے جنھوں نے محسوس نہیں کیا یہ ان کا اپنا مسئلہ ہے مگر مین را کو قابو میں کرنا کسی کے لیے آسان نہیں تھا۔ جو لوگ قابومیں آسکتے تھے انھیں ایک خاص طرح کی جدیدیت کے فریم ورک میں فٹ کیا گیا۔ ان پر مضامین لکھے اور لکھوائے گئے۔ انھیں مین را کے مقابلے میں بڑا ثابت کرنے کی کوششیں ہوئیں۔ کیا فرق پڑا شاید ہی کوئی اچھی تنقید ہو جس میں مین را کی کہانی کا ذکر نہ آیا ہو۔ مسئلہ مین را اور ان کی کہانی کا تھا۔ مین را کو بھی معلوم تھا کہ کیا ہورہا ہے یا کون سا کھیل کھیلا جارہا ہے۔گذشتہ پچیس تیس برسوں میں مین را کا ذکر تو ہوتا رہا لیکن بعض لوگوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ جیسے مین را کو وہ جانتے نہیں۔ میں  نے محسوس کیا ہے کہ مین را کے نام سے ہمارے کچھ لوگوں کے چہرے پر تناؤ آجاتا ہے۔ تناؤ تو مین را کے چہرے پر بھی تھا لیکن اس میں کوئی شخصی غصہ، عداوت یاذہنی تنگ نائی نہیں تھی۔ مین را کا تناؤ اچھے ادب کی تخلیق اور قرأت کا تھا۔ مین را اپنے عہد کے بعض اشخاص کی چالاکیوں سے جتنے واقف تھے اس بارے میں بہت کم انھوں نے گفتگو کی۔ میں سمجھتا ہو ںکہ مین را کی طاقت مین را کی کنارہ کشی بن گئی۔بہتوں کی موجودگی اور شرکت ان کی کمزوری بن گئی۔ زمانے سے بدلہ لینے کا ایک طریقہ بلکہ شاید سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس کی طرف سے آنکھیں پھیر لی جائیں۔
آج جیسے جیسے یہ آگ روشن ہورہی تھی مین را کے ساتھ وہ روایت بھی روپوش ہورہی تھی جسے مین را نے روشن کیا تھا۔ اس روایت کی سب سے بڑی عطا اچھی کتابوں کو پڑھنا اور ان پر گفتگو کرنا تھا۔ مین را کی گفتگو مین را کا غصہ ادبی حلقے کی ناگزیر ضرورت بن گیا تھا۔ مین را کے ساتھ گذشتہ نصف صدی کی ادبی ہلچل، مباحثے، مذاکرے یہ سب کچھ رخصت ہوگئے، ان سب کے حوالے تحریروں میں کچھ مل جائیں گے لیکن مین رانے اپنی گفتگو سے اسے جس قدر اہم اور دلچسپ بنا دیا تھا اس کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔ مین را جب گفتگو کرتے تھے تو پورا وجود اس گفتگو میں کچھ اس طرح شریک ہوتا تھا جیسے زبان ہی نہیں بلکہ جیسے پورا وجود گویا ہے۔ کناٹ پیلیس اور دریاگنج مین را کے لیے سڑکوں کے  اور علاقوں کے محض نام نہیں تھے ان سے مین را نے تخلیقی سطح پر مکالمہ کیا ہے۔ مین را جیسے جیسے کمزور ہوتے گئے، کناٹ پلیس اور دریاگنج کی معنویت بھی دھندلی ہونے لگی، یہ آگہی کا سفر تھا جس نے مین را کو اور مین را کی کہانی کو کچھ نیا دیکھنے اور نیا سوچنے کا حوصلہ بخشا۔ بلراج مین را کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں تھا جس نے اپنی آوارگی اور گرم گفتاری کے ذریعہ ادبی حلقے میں ایسی ہلچل پیدا کی ہو۔
دسمبر کے تیسرے ہفتے میں بلراج مین را سے ملنے روہنی ان کے گھر گیا ۔ اس آخری ملاقات میں بھی ثاقب فریدی میرے ساتھ تھے۔ وہ نوجوانوں سے مل کر خوش ہوتے تھے۔ اس ملاقات میں انھوں نے فریدی سے زیادہ باتیں کیں۔ گذشتہ کئی ماہ سے صرف پچیس فیصد ہارٹ ہی ان کا کام کررہا تھا۔ انہیں جو تکلیف تھی اس کا علاج آپریشن تھا مگر آپریشن مناسب نہیں سمجھا گیا۔ ملاقات میں مین را مایوس نہیں تھے اور زبان پر کوئی حرف شکوہ نہیں تھا۔ آواز گلوگیر ہوچکی تھی۔ کبھی لیٹ جاتے تو کبھی بیٹھ جاتے۔ میں نے آنے کی اجازت چاہی تو ہاتھ پکڑ لیا۔ انھوں نے جس طرح مجھے دیکھا تھا اس طرح پہلے کبھی نہیں دیکھا، صرف ایک جملہ کہا سرور یہ قصہ اب ختم ہونا چاہیے۔
مین را اپنے سینے کی آگ کو جس طرح دہکائے رکھا اور اس کی جیسی حفاظت کی اس کی مثال ادبی دنیا میں مشکل ہی سے ملے گی۔ یہ شعلہ صرف علم اور مطالعے کا نہیں تھا بلکہ اصول اور نظریے کا بھی تھا جس نے زمانے کے آگے کبھی خود کو نہ تو مجبور بنا کر پیش کیا اور نہ ہی اپنے شعلے کی قیمت لگانے کی کوشش کی۔ قیمت لگانے اور اسے اپنے مطابق بنانے والے جو ادارے اور اشخاص تھے مین را نے ان سے بھی دھیرے دھیرے خود کو کنارا کرلیا۔ مین را کے لیے وجودی فکر اور وجود کی آگ ہی تھی جو ان کے لیے سب کچھ تھی۔ اس فکر اور آگ کو دوستووسکی، آئین اینڈ اور منٹو کی زندگی اور فن سے تقویت ملتی رہی۔ پھر کیا تھا مین را نے خود کو اتنا ثروت بنا لیا کہ کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، مین را کو نذر آتش کیا جانا اور ان کا رخصت ہوجانا گذشتہ پچاس سال کی دہلی کی ادبی زندگی کا رخصت ہوجانا ہے۔ اس عرصے میں مین را نے جو نقوش ثبت کیے ہیں وہ  دھندلے نہیںہوں گے ،اس ادبی کلچر میں مین را نے اچھا ادب پڑھنے اور اچھا ادب لکھنے کا شعور پیدا کیا۔ایک فطری آسودگی ہی فطری بے قراری کے ساتھ ان کے یہاں تھی۔ اپنے کئی دوستوں کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا مگر یہ نہیں کہا کہ ان کی عمر بھی ہوگئی تھی اوریہ وقت تو آتاہی ہے، لیکن اپنے بارے میں وہ عمر کا حوالہ دیتے تھے۔ وہ چاہے جس قدر ذہین حساس، باخبر تھے ایک فطری معصومیت بھی ان کے یہاں تھی۔ وقت کے ساتھ ان کے ادبی نظریات اور خیالات میں بہت تھوری سی تبدیلی آئی۔ وہ منٹو کے بارے میں جذباتی توآخر وقت تک رہے مگر انتظار حسین کے سلسلے میں انھوں نے کئی مرتبہ کہا کہ وہ فکری لحاظ سے منٹو سے بڑے افسانہ نگار ہیں۔ انتظار حسین کے انتقال کا ان پر سب سے زیادہ اثر ہوا۔ مجھ سے کئی مرتبہ فون پر کہا کہ کیا بتاؤں ایسا لگتا ہے انتظار حسین کے ساتھ میں بھی رخصت ہوگیا ہوں۔ یار کیا آدمی تھے۔ ان کی رینج بہت بڑی ہے۔ خود انتظار حسین جب آخری مرتبہ2015 میں دہلی آئے تو میں نے مین را سے ان کی بات کرائی۔ مین را نے ملنے کا وقت طے کیا مگر طبیعت کی خرابی کے سبب مل نہیں سکے۔ انتظار حسین نے کئی مرتبہ فون پر دوستوں سے بات کرتے ہوئے مین را کی علالت کا ذکر کیا۔ اسی سفر میں انتظار صاحب نے مین را پر میری کتاب ’بلراج مین: ایک ناتمام سفر‘ کے لیے فلیپ لکھا، اس میں اختلافی بات بھی لکھی۔ مین را نے پڑھ کر کہا کہ انتظار حسین صاحب نے جو لکھا ہے اسے اسی طرح شائع ہونا چاہیے۔ گذشتہ نصف صدی  کی افسانہ نگاری کو بنیادی طور پر سریندر پرکاش، انور سجاد اور بلراج مین را کی تثلیث سے پہچانا گیا۔ مگر اس تثلیث پر الگ الگ گفتگو نہیںہوئی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تینوں کے یہاں جو مماثلتیں یااختلافات ہیں ان کی نشاندہی کی جائے۔ یہ کام محمود ہاشمی نے اپنے ایک مضمون آگہی کی تمثیل کے ذریعہ کیا ہے جس میں بلراج مین را اور انور سجاد کی ایک ایک کہانی کا مطالعہ ہے۔ مین را نے انور سجاد کے بارے میں ایک مرتبہ مجھ سے کہا تھا کہ سرور میں انور سجاد ہوں اور انور سجاد بلراج مین را ہے۔ کم و بیش دونوں کے افسانوں پر ایک ہی طرح کے اعتراضات درج کیے گئے  اور دونوں کی لمبی خاموشی کا سبب  ان کے اسلوب کو قرار دیا گیا۔
اردو کے کچھ ناقدین کا کام لکھنے والوں کو خوش کرنا ہے۔ ایسے میں مین را کی یہ بات انھیں پریشان کرتی ہے کہ میں نے یہ کوشش کی ہے کہ اچھے اور خراب ادب کے درمیان فرق کرنے کا شعور پیدا ہو۔ خراب لکھنے والوں کو لکھنا بند کردینا چاہیے۔ یہ خیالات اس ادبی معاشرے کے مزاج سے ٹکراتے ہیں جس نے یہ تعلیم پائی ہے کہ ادب کا مزاج جمہوری ہے اور اس میں ہر ادب کے نام پر جو کچھ لکھا جارہا ہے اس کا ایک جواز ہے اور اس کی  ترتیب و تحسین کی بنیادیں تلاش کرنی چاہئیں۔ اس وقت جو فکشن لکھا جارہا ہے اس میں زیادہ تر ایسے لکھنے والے ہیں جو اچھی نثر نہیں لکھ سکتے۔ وہ عصری مسائل پر لکھ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا فکشن معاصر مسائل پر مشتمل ہے۔ لہذا اسے بہت اہم سمجھا جائے گویا مسائل ہی سے افسانہ، افسانہ بنتا ہے اور ناول، ناول بنتا ہے۔ نثر اور تخلیقی نثر تو محض ایک وسیلہ ہے۔  فکشن نگاروں کے ساتھ وہ ناقدین بھی مغالطے میں ہیں جنھیں خوش کرنے کا ہنر آتا ہے۔ بیشک کسی عہد کی ادبی سرگرمی میں تمام لکھنے والوں کی تھوڑی کم یا زیادہ اہمیت ہوتی ہے لیکن یہ بات مین را کو بھی معلوم تھی پھر شعور نکالنے کی انھیں کیوں ضرورت پیش آئی۔ اگر شعور اسی طرح ہر ایک کو خوش کرنے کی کوشش کرتا تو شعور شعور نہیں بن پاتا۔ مین را کے ذہن میں اچھے اور اعلیٰ ادب کا تصور ترقی پسندی اور جدیدیت کا مرہون منت نہیں ہے۔