بلراج مین رااور براڈ وے کی خالی کرسی

ڈاکٹر سرورالہدیٰ
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
آج جنوری کی 9 تاریخ ہے۔ 15جنوری 2017 کو مین را رخصت ہوئے تھے۔ یہ عرصہ بھی بیت گیا اور وقت نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ’’غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں‘‘ لیکن کیا واقعی سارے کام اسی طرح ہورہے ہیں جس طرح ہونے چاہئیں۔ اس کا جواب ظاہر ہے کہ ایک سے زیادہ ہوگا۔ لوگ قدرت کا قانون بتائیں گے کہ زندگی اسی طرح چلتی رہتی ہے۔ ایک نسل آتی ہے اور دوسری نسل جاتی ہے۔ کبھی کبھی ہمیںذاتی سطح پر وقت ٹھہرا ہوا محسوس ہوتا ہے لیکن بس یہ ایک احساس ہے حقیقت نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ مین را کے سلسلے میں جوتعزیتی نشست ہوئی تھی اس موقعے پر میں نے کہا تھا کہ میری طرح کئی لوگوںکی ذہنی تنہائی بڑھتی جاتی ہے۔ مین را کے وجود سے ایک ڈھارس تھی، ظاہر ہے کہ یہ میرا خیال ہے، کیا ضروری ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس ذہنی تنہائی کو محسوس کریں۔ محسوس کرنا یوں بھی خود کو پریشانی میں ڈالنا ہے۔ کسی خیال، فکر اور احساس کو جس قدر جھٹکا جائے اتنا ہی اچھا ہے۔ بے شک وقت ہی زندگی کے مختلف حقائق کا مفہوم سمجھاتا ہے لیکن ہم سمجھتے کہاں ہیں۔ میری زندگی میں چند ایسی تاریخیں ہیں جومیرے وجود سے کبھی الگ نہیں ہوسکتیں۔ ان تاریخوں میں جو شخصیات رخصت ہوئیں انھیں یاد کرتے ہوئے ناصر کاظمی کا شعر یاد آتا ہے:
جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں
بلراج مین را سے ملاقات کا ایک بہانہ دریاگنج کا بک بازار تھا۔ کتابوں کو دیکھنے کے بعد کوئی ایک بجے وہ براڈوے ہوٹل آجاتے تھے۔ ہر اتوار کو عتیق الرحمن ان کے ساتھ ہوتے۔ میں بھی ایک بجے کے قریب ہوٹل پہنچ جاتا۔ وہ منتظر رہتے، دیر ہوتی تو فون کردیتے۔ میں نے دریاگنج کے ایک خاص حصے ہی میں انھیں کتابوں کی تلاش میں سرگرداںدیکھا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ پورا بازار تو میں نہیں دیکھ سکتا۔ وہ جب پورا بازار بولتے تو یہ بازار دریاگنج کا نہیں بلکہ دنیا کا بازار معلوم ہوتا اور مجھے شہریار یاد آجاتے:
امید سے کم چشم خریدار میں آئے
ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے
روہنی سے دریاگنج آنا ان کے لیے ہمیشہ ایک خوشگوار عمل رہا۔ وہ اتوار کا انتظار کرتے۔ ان کی مصروفیات سمٹ گئی تھیں، گھر پر کتابوں کا مطالعہ کرنا، ٹی وی دیکھنا اور بچوں کے ساتھ اچھے خوشگوار ماحول میں زندگی گزارنا اور بک بازار آنا ان کی زندگی کے معمولات بھی تھے اور عنوانات بھی۔ اتوار کی صبح کو میں انھیں فون کرتا تھا یا ان کا فون آجاتا۔ طبیعت ٹھیک نہیں ہوتی تو کہہ دیتے تھے کہ میں نہیں آؤں گا۔ سانس چڑھا ہواہے، طبیعت ڈھیلی ہے۔ پھر میں بھی نہیں جاتا تھا۔ بک بازار میں عموماً لوگ دن بھر گھومتے ہیں اور انھیں مطلب کی کتاب نہیں ملتی ہے۔ مین را کا معاملہ بہت عجیب تھا۔ انھیں معلوم ہوتا تھا کہ کس دکان پر انھیں پہلے جانا چاہیے۔ بس کھڑے ہوگئے کہ ایک لمحے کے بعددکان دارکو اشارہ کردیا کہ وہ کتاب اٹھائیے۔ وہ کتاب کی قیمت کم تو کراتے تھے لیکن بس ایک یا دو باربولتے تھے۔ دکان دار بھی سمجھتا تھا کہ یہ شخص مول تول کرنے والا نہیں ہے۔ مین را روپے نکالتے اور کتاب تھیلے میں رکھ کرآگے بڑھ جاتے۔مجھے محسوس ہوتا کہ کتاب کی قیمت پر اصرار کرنا ان کی تہذیب میں شامل نہیں تھا۔ میں نے تو روپے پیسے کا ذکر بھی ان کی زبان سے ایک یا دو بار سنا وہ بھی کسی خاص سیاق میں۔ ان کے کاندھے پر کپڑے کا ایک تھیلا ہوا کرتا تھا جو کتابوں کے بوجھ کو برداشت کرلیتا تھا مگر وہ کاندھا تھوڑا جھک جاتا۔ کئی مرتبہ کوشش کی کہ تھیلا میں رکھ لوں مگر انھیں یہ گوارا نہیں تھا۔ بس چلتے ہوئے وہ کسی کے ہاتھ اور بازو کا سہارا لے لیتے تھے۔ ہمدردی حاصل کرنے کا ان میں کوئی عنصر ہی نہیں تھا۔ اپنی تکلیف کا ذکر وہ ایک دو جملے میں ختم کردیتے تھے۔ پچھلے ایک سال کے عرصے میں میں دو یا تین مرتبہ دریاگنج بک بازار گیا۔ میں نے اپنے شاگرد معاذ احمد سے کہاکہ اب ہمیں براڈوے ہوٹل جانا چاہیے۔ ہوٹل میں جو شخص ان کا استقبال کرتا اور خیال رکھتا تھا اسے مین را کا انتظار ضرور ہوگا۔ چناںچہ ایک اتوار ہم لوگ براڈوے پہنچ گئے۔ اس شخص نے ہم لوگوں کو دیکھا اور پھر اس کی نگاہ دروازے کی طرف جمی رہی کہ مین را اب داخل ہوں گے۔ لیکن ہم لوگ اسی جگہ بیٹھ گئے، کرسیاں بھی بہت سی خالی تھیں مگر ایک جگہ اور ایک کرسی پر نگاہ بار بار جاتی تھی۔ مین را کا استقبال کرنے والا شخص قریب آیا اور میں نے مین را کے انتقال کی اسے خبر دی۔ پھر ایک دو لوگ اور بھی وہاں جمع ہوگئے۔ چاے کی پیالی اس نے سامنے رکھ دی۔ مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ وہ کرسی خالی تھی۔