بعد تدفین 40 قدم پردعاء کرنا

سوال :  آج کل ایک فیشن بن گیا ہے کہ نماز جنازہ مسجد کے پیش امام صاحب کے بجائے کسی اور سے پڑھائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسجد کے پیش امام صاحب کی اجازت کے بغیر پڑھائی گئی نماز جنازہ ادا ہی نہیں ہوتی۔ تدفین کے بعد 40 قدم کی دوری پر جو دعا کی جاتی ہے ، اس کے شرعی احکام کیا ہیں ؟
کامل غفران، ریڈہلز
جواب :  جب مسجد کے مقررہ امام موجود ہوں تو وہی امامت کریں گے۔ ان کی موجودگی میں ان سے قابل اور متقی موجود ہو تب بھی امام ہی بوجہ تعین امامت کریں گے اور اگر امام صاحب ان کو امامت کیلئے کہیں تو وہ امامت کریں گے۔ امام کی بلا اجازت کسی عالم کو آگے بڑھادیا جائے تو نماز ہوجائے گی لیکن امام سے اجازت لے لینا چاہئے کیونکہ وہ مقررہ ہیں۔
بعد تدفین قبر کے پاس کھڑے ہونا اور قرآن کی تلاوت کرنا اور میت کے لئے دعاء مغفرت کرنا اور منکر و نکیر کے سوال میں اس کے ثابت قدم رہنے کی اللہ سے دعاء مانگنا مستحب ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے دفن کے بعد سورہ بقرہ کی پہلی آیتیں اور ختم آیتیں یعنی ’’ الم ‘‘ سے ’’ مفلحون‘‘ تک اور ’’ آمن الرسول‘‘ سے ختم سورہ تک پڑھنا مستحب فرمایا (تفصیل کے لئے در مختار باب الجنائز مطلب فی دفن المیت)  عالمگیری  جلد اول باب الجنائز فصل  سادس میں ہے، و یستحب اذا دفن المیت ان یجلسو اساعۃ عندالقبر بعد ا لفراغ بقدر ما ینحر جزور ویقسم لحمھا یتلون القرآن و یدعون للمیت کذا فی الجوھرۃ النیرۃ ۔ لہذا بعد تدفین کچھ فاصلہ پر میت کی مغفرت اور ثبات قدمی کے لئے دعاء کی جائے تو شرعاً کوئی حرج نہیں ۔

انٹرنیٹ کے ذریعہ نکاح
سوال :  میرے لڑکے کا نکاح کیا انٹرنیٹ پر کرسکتے ہیں ؟ چونکہ وہ سعودی عرب میں ہے ۔ کیا شریعت ہے، کیا شرائط ہے ؟ کیا ایسا ہوسکتا ہے ؟ اگر نکاح ممکن ہے تو ہندوستان میں کس طرح کی تقاریب کرنی ہوگی ۔ استقبالیہ پھر وداعی کب ہوگی ۔ اس کا جواب تفصیل سے چاہتا ہوں۔ جواب سے مطمئن کریں گے تو نوازش ہوگی۔
نام …
جواب :  نکاح کے منعقد ہونے کے لئے عاقد و عاقدہ کا دو گواہوں کے روبرو ایک مجلس میں ایجاب و قبول کرنا ضروری ہے اور اگر عاقد محفل عقد میں نہ ہو تو عاقد کی طرف سے اس کا وکیل (جس کو عاقد اپنی طرف سے ایجاب و قبول کے لئے مقرر کرے) ایجاب و قبول کرے تو نکاح منعقد ہوگا۔ لڑکا آنے کے بعد وداعی و رخصتی کی جاسکتی ہے ۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ ایجاب و قبول کیا جائے تو نکاح منعقد نہیں ہوتا کیونکہ عاقد اور عاقدہ کی مجلس ایک نہیں ہے۔ متعلقہ قاضی سے رجوع ہوں تو وہ وکالت کی تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔

مسجد عائشہ سے عمرہ
سوال :  زید پندرہ روزہ عمرہ کے سفر پر پہلے مکہ مکرمہ بعدہ مدینہ منورہ کے روحانی سفر پر گیا تھا ۔ مکہ شریف میں ہندوستان سے احرام باندھ کر نکلے تھے۔ لہذا پہلے ایک عمرہ راست مکہ شریف پہنچتے ہی ہم (زید) نے ادا کیا پھر چونکہ اور سات دن مکہ میں قیام تھا لہذا ایک روز عمرہ کی ادائیگی الحمدللہ زید نے کی اس کے لئے احرام باندھنے زید بعد غسل مسجد عائشہ جاکر وہاں دو رکعت نماز کی ادائیگی کے بعد احرام باندھ کر وہاں سے نئے عمرہ کی تلبیہ پڑھتا اور تمام عمرہ کے مناسک ادا کرتا رہا ۔ جب مدینہ طیبہ جانا ہوا زیارت روضہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم اور مسجد نبوی میں عبادت کیلئے وہاں ایک ثقہ عالم دین ملے، ان کا کہنا تھا (تبادلہ خیالات کے موقعہ پر ) کہ مکہ شریف میں ہندوستان سے وارد ہونے کے بعد روزانہ عمرہ کا احرام باندھنے کیلئے مسجد عائشہ جانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ مسجد عائشہ کو جانے کیلئے مقامی طور پر آباد شہریوں کو لازم ہے ۔ اس کا لزوم آپ پر نہیں ہے ۔ ان کا اصرار رہا کہ اگر ایسا حدیث و قرآن کی رو شنی میں کوئی ثبوت / دلیل ہے تو ازراہِ کرم ان کے علم میں لائیں۔ لہذا مفتیان کرام سے ادباً التماس ہے کہ آیا بیرون مکہ مکرمہ سے / ہندوستان سے جانے والے عازمین عمرہ کیلئے آیا۔ کیا اس کا لزوم ہے کہ وہ ہر عمرہ کے لئے مسجد عائشہ تک جاکر وہاں سے احرام باندھیں۔ ازراہ کرم اس کے اثبات میں یا ردمیں کوئی حدیث یا فقہ حنفی کی دلیل ہو تو جواب دیکر عنداللہ ماجور و عندالناس شکر گزاری کا موقع عنایت فرمائیں۔
نام …
جواب :  ایک عمرہ کرلینے کے بعد ، معتمر(عمرہ کرنے والا) مکہ میں رہتے ہوئے مزید عمرہ کا ارادہ رکھتا ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ ’’حِل‘‘ کی جانب جائے  اور تنعیم کو جانا (جو’’ حِل‘‘ میں داخل ہے) افضل ہے ۔ عالمگیری جلد اول کتاب المناسک باب المواقیت میں ہے : ووقت المکی للاحرام للحج الحرم و للعمرۃ الحل کذا فی الکافی فیخرج الذی یرید العمرۃ الی الحل من ای جانب شاء کذا فی المحیط والتنعیم افضل کذا فی الہدایۃ۔

پانچواں مسلک
سوال :  (1 مسلکِ حنفیت اور مسلک اعلحضرت یہ دونوں ایک ہیں یا الگ الگ ؟
(2 اگر ایک ہے تو کیا ایک مسلمان کو اتنا کہنا کافی نہیں ہے کہ میرا مسلک حنفی ہے ؟
(3 اگر یہ کافی ہے تو پھر مسلک اعلی حضرت کہنے کی کیا ضرورت ہے ؟
(4 بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ دونوں الگ نہیں ہے بلکہ ایک ہی ہیں، اگر ایک ہی ہیں تو پھر مسلک اعلیٰ حضرت کیوں کہے بعض کا یہ ماننا ہے کہ حنفی مسلک کے ساتھ دورِ حاضر میں کسی سنی بزرگ کا نام ضروری ہے تو مسلک حنفی کے ساتھ کیا ہم مسلک غریب نواز نہیں کہہ سکتے جن کی طرف سے اہل ہند کو ایمان اور اسلام ملا اگر ان بزرگ کا نام مسلک حنفیت کے لئے ہم استعمال نہیں کرسکتے تو پھر جس شخصیت کا وجود صرف ایک صدی سے بھی کم کا ہو اور جن کا مسلک بذات خود حنفی رہا ہو کیا ان کا نام لینا ضروری ہے ؟
حافظ محمد فردوس، مقطعہ مدار
جواب :  باجماع امت چار مسالک حنفی ، مالکی ، شافعی، حنبلی برحق ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی پانچواں مسلک نہیں ۔ چاروں مسالک کے متبعین کو عصر حاضر میں بھی کسی سنی بزرگ کے نام کے مسلک کی چنداں ضرورت نہیں۔ پانچویں مسلک کا دعویٰ شذوذ ہے ۔ فرط عقیدت میں کسی عظیم بزرگ کے گراں قدر کارناموں کی بناء ان کو مجتہدین وائمہ متقدمین سے ملا دینا مناسب نہیں ہے۔ اگرچہ پانچویں مسلک کی تاویل کی جاسکتی ہے مگر یہ عامۃ المسلمین کے الجھن کا سبب ہے اس لئے اس سے احتیاط کرنا چاہئے۔(اس موضوع پر اس سے پہلے بھی لکھا جاچکا ہے ، دوبارہ اس سے متعلق پوچھے جانے پر مختصراً تحریر کیا گیا)

مسافر کی نماز
سوال :  صبح فجر کی نماز کے بعد روزانہ  وطن سے تقریباً 100 کیلو میٹر جانا اور 100 کیلو میٹر واپس ہونا ہوتا ہے جبکہ وہاں میری مستقل گورنمنٹ کی ملازمت ہے۔ کیا ایسی صورت میں مجھے ظہر ، عصر ، عشاء قصر پڑھنا چاہئے یا مکمل نماز ادا کرنا ہے ؟
وسیم قادری ،محبوب نگر
جواب :  جو شخص اپنے وطن اصلی (یعنی وہ مقام جہاں وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ مستقل سکونت کی غرض سے رہائش پذیر ہو) یا وطن اقامت (یعنی وہ مقام جہاں وہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ رہنے کے مقصد سے قیام کرے) تین دن کی مسافت (تخمینا 48 میل سفر ) کا ارادہ کر کے اپنے شہر کی آبادی سے باہر نکل جائے تو وہ مسافر ہے ۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد دوم ص : 130 میں ہے : (من خرج من عمارۃ موضع اقامۃ قاصدا مسیرۃ ثلاثۃ ایام و لیا لیھا بالسیر الوسط مع الاسترا حات المعتادۃ صلی الفرض الرباعی رکعتین)۔
پس صورت مسئول عنہا میں اگر آپ اپنے وطن سے تقریباً 100 کیلو میٹر کا سفر طئے کر کے اپنی ملازمت کو پہنچتے ہیں اور واپس ہوجاتے ہیں تو آپ شہر کی آبادی کو پہنچے تک مسافر ہی ہیں ۔ دوران سفر چار رکعت والی نماز کو آپ قصر کریں گے جبکہ آپ تنہا پڑھ رہے ہوں اور اگر کسی مقیم امام کے پیچھے جماعت سے ادا کر رہے ہوں تو چار ہی پڑھیں گے۔

میثاق مدینہ کی تاریخ
سوال :  میں طالب علم ہوں اور میں اسلامی قانون سے متعلق مطالعہ کرتے رہتا ہوں اور اسلام تاریخ میںایک معاہدہ کو کافی اہمیت حاصل ہے ۔ وہ معاہدہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود و نصاری سے کیا تھا ، جو اسلام کی جمہوری فکر کی غمازی کرتا ہے جس کو میثاق مدینہ کہتے ہیں ۔ مجھے دریافت کرنا یہ ہے کہ اس معاہدہ کی صحیح تاریخ کیا ہے؟ یہ معاہدہ کب کس وقت اور کس کے ساتھ کیا گیا ؟
عبدالقدوس
جواب :  میثاق مدینہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی الہامی بصیرت اور خداداد فراست کا شاہکار ہے ۔ ایک عظیم الشان ریاست کی تاسیس اور تدبیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ کارنامہ ہے جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ اس معاہدہ کی تاریخ کے بارے میں قدیم مورخین و محدثین کے ہاں کوئی واضح اختلاف نہیں پایا جاتا ۔ سبھی اسے ہجرت مدینہ کے فوری بعد اور غزوہ بدر سے پہلے کا معاہدہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے الفاظ یہ ہیں۔ ہماری رائے میں یہ معاہدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری کے آغاز کے وقت کیا گیا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اسلام کو استحکام و  غلبہ حاصل نہیں ہوا تھا ۔ نہ اس وقت تک اہل کتاب سے جزیہ لینے کا حکم صادر ہوا تھا یہ (مدینہ کے) اہل کتاب تین گرہوں پر مشتمل تھے۔ بنو ’’قینقاع ‘‘ بنو نضیر اور بنو قریضہ (کتاب الاموال، 1 : 364 ) دور جدید کے اہل علم نے میثاق مدینہ کی تاریخ کو بھی موضؤع بحث بنایا ہے ۔ مجید خدوری نے بھی بڑے یقین سے اسے غزوہ بدر سے پہلے کی دستاویز قرار دیا ہے ۔ (The Law of War and ) (ص: 206 ۔ peace in islam )
ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے اس معاہدہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے اور یہ رائے قائم کی ہے کہ اس کا پہلا حصہ غزوۂ بدر سے پہلے کا ہے اور دوسرا حصہ غزوہ بدر کے بعد کا ہے ۔ انہوں نے بڑی تفصیلی بحث کی ہے اور مضبوط دلائل دیئے ہیں ۔
بنو فینقاع جو اس معاہدہ کے ایک فریق تھے، انہیں غزوہ بدر  کے ایک ہی ماہ بعد ، اس معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے پر مدینہ سے نکالا گیا۔ ابن اسحاق نے اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے :  ان بنی قینقاع کانوا اول یھود نقضوا ما بینھم و بین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و حاربوا فی بدر واحد (ابن ہشام : السیرۃ االنبویہ 51:3 ) یعنی بنو قینقاع پہلی جماعت تھی جس نے اس معاہدہ کو توڑا  جو ان کے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہوا تھا ، انہوں نے بدر واحد کی درمیان مدت میں لڑائی کی تھی۔یہ عبارت اس بات کو پوری طرح سے واضح کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام یہودیوں سے جن میں بنو قینقاع بھی موجود تھے، یہ معاہدہ غزوہ بدر سے پہلے ہی کیا تھا۔واضح رہے کہ اس معاہدہ کے متن میں بنو قینقاع ، بنو نضیر اور بنو قریظہ کا نام درج نہیں۔ یاد رہے کہ ان قبائل کو اوس و خراج کا حلیف ہونے کی وجہ معاہدہ میں شریک کیا گیا۔