بزم سعید کے زیر اہتمام ادبی اجلاس و مشاعرہ

محبوب خان اصغر
جن شعراء نے غزلوں میں بلند آہنگی ، گہرائی و گیرائی ، تنوع ، رنگارنگی اور دلآویزی کے ذریعے چونکادیا ہے ان میں ایک نام حضرت سعید شہیدی مرحوم کا ہے جن کی وفات کو ایک دہے سے زائد عرصہ ہوچکا مگر ان کے وارث و ممتاز شاعر رشید شہیدی نے اپنے والد بزرگور سے موسوم بزم سعید قائم کرکے حیات بعد ممات کا سامان کردیا ۔ اس بزم کے تحت ہر سال سعید شہیدی کی یاد میں ادبی جلسہ و مشاعرہ منعقد کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ 28 فبروری کی شام اردو ہال حمایت نگر میں بزم سعید کے زیر اہتمام ادبی اجلاس و مشاعرہ منعقد ہوا ۔ ادبی اجلاس کی صدارت ماہر اقبالیات مضطر مجاز نے انجام دی جبکہ یوروپ اور خلیجی ممالک میں اردو زبان وادب کے موضوع پر کلام کرنے کیلئے ڈاکٹر مجید بیدار ،سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی اور جناب عباس زیدی لندن تشریف فرما تھے ۔

آغاز میں جناب رشید شہیدی معتمد بزم سعید نے اپنے خطاب میں کہا کہ سعید شہیدی کو اس دارفانی سے کوچ کئے چودہ برس بیت گئے ۔ مرحوم نے تین شعری تصانیف چھوڑیں۔ رواں سال اگست میں عظیم الشان پیمانے پر صدی تقاریب منعقد کئے جانے کی بابت مقرر نے بتایا کہ مرحوم کے مداح عرب ممالک کے علاوہ برطانیہ اور امریکہ میں بھی ہیں اور ان ہی کے اصرار پر تقاریب کو قطعیت دی گئی ہے ۔ ڈاکٹر مجید بیدار نے اپنے خطاب میں ہندوستان کا ادبی منظر نامہ پیش کیا نیز انہوں نے دکن کے ادیب اور شعراء کی فکر تخیل اور میلان کا دیگر ممالک کے قلمکاروں سے تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے نہایت وثوق سے کہا کہ ہماری تخلیقات طاقتور ہوتی ہیں اس لئے پڑھی جاتی ہیں ۔

اجلاس کے دوسرے مقرر عباس زیدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو ہند کی سرحدوں سے نکل کر اقطاع عالم میں اپنے پر پھیلاچکی ہے ۔ آب و دانہ کی تلاش میں جس سرعت سے ہندوستانیوں نے مشرق وسطی کا رخ کیا اتنی ہی سرعت سے اردو وہاں کے ماحول میں رچ بس گئی ۔
صدر جلسہ جناب مضطر مجاز نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ اردو کی بقا اور ارتقا کے لئے جوکام سنجیدگی سے ہونا چاہئے تھا نہیں ہوا ۔ صرف مشاعرے یا ادبی جلسے اردو کی بقا کے ضامن نہیں ہوسکتے ۔ انہوں نے نئی نسل کی اردو سے دوری پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا کہ رومن انگلش کا چلن عام ہوتا جارہا ہے ۔ اسکی بڑی وجہ اردو سے نابلد ہونا ہے ۔ مضطر مجاز نے شاعری اور مشاعروں کے متعلق کہا کہ خود حیدرآباد شہر کا منظر بھی مایوس کن ہے ۔ سماجی اور سیاسی حالات کا گہرا شعور رکھنے والے شعراء کم رہ گئے ہیں ۔ جن شعراء کے دم سے اردو شاعری میں زندگی کی رمق باقی تھی وہ اب نہیں رہے ۔ صدارتی کلمات کے بعد ناظم جلسہ و مشاعرہ جناب رشید شہیدی نے جدید لب و لہجہ کے شاعر اثر غوری کی صدارت میں محفل شعر منعقد کی ۔ قبل اس کے کہ وہ شاعر کو زحمت کلام دیتے انہوں نے مضطر مجاز کے نعتیہ شعر پیش کئے
جامۂ نور میں انوار کا پیکر اترا
سینۂ ظلمت اوہام میں خنجراترا
ماہ و انجم اسی حسرت میں رہے سرگرداں
ناز دھرتی کو ہے یہ چاند میرے گھر اترا
ان اشعار کی پیشکشی کے بعد مشاعرے کی فضا خوشگوار ہوگئی ۔ ظفر فاروقی نے حالات کی تصویر کشی کی ۔

غم زندگی کی راہ میں بکھرتے تھے جابجا
لیکن خوشی کو دور تلک ڈھونڈنا پڑا
دشمن کی دشمنی بھی لگی مجھ کو ماند ماند
اپنے ہی گھر کے خون سے جب سابقہ پڑا
ناظم مشاعرہ کی دعوت پر ڈاکٹرمجید بیدار غزل سرا ہوئے ۔
پلکوں پہ نئے خواب سجانے نہیں آتے
جو بیت گئے پھر سے زمانے نہیں آتے
یہ دور عجب دور ہے اس دور میں یارو
کعبہ کو ابابیل بچانے نہیں آتے

ڈاکٹر مجید بیدار کے بعد ممتاز شاعر ممتاز لکھنوی نے اپنے سخن کا چراغ جلایا
کچھ غم نہیں حیات اگر مختصر ملے
یا رب مجھے وہ جتنی ملے معتبر ملے
ماضی کی دھول بن کے وہ غائب ہوا کہیں
جو چاہتا تھا لوگوں کا قدموں میں سر ملے
اور اب فراز رضوی اپنے کلام سے سرفراز کررہے ہیں۔
شب خوں کی طرح آتا ہے ہر شب تیرا خیال
ہر لہجۂ خاموشی میں تو ہی سنائی دے
مانا کہ ہے تو نزد رگ جاں تو کیا ہوا
لیکن کبھی کبھی تو مجھے بھی دکھائی دے
ناظم جلسہ نے اطیب اعجاز سے التماس کیا ۔

غلامی نفس کی ایک روز چھوڑ کر دیکھو
بڑے مزے ہیں دیار ہوس کے باہر بھی
دل و دماغ ہے احساس کے شکنجے میں
عجیب قید ملی ہے قفس کے باہر بھی
ان کے بعد جگجیون لال آستھانہ سحر اپنی سخنوری کا سحر جگارہے ہیں۔
ہر چہرہ اجنبی ہے ہر آواز ان سنی
کوئی تو ہو شہر میں جو اپنا دکھائی دے
جس شخص کو بھلائے زمانہ گذر گیا
پہلو میں جیسے آج بھی بیٹھا دکھائی دے
اور اب رشید شہیدی کا رنگ دیکھئے

نگاہیں ڈھونڈتی ہیں کھوگئے نہ جانے کہاں
ستم کی دھوپ میں وہ چھاؤں دینے والے ہاتھ
چلا تھا گھر سے تو پیروں کی ہمسفر تھی دھوپ
سفر سے تھک کے جو لوٹا تو آئے چھالے ہاتھ
اس کے بعد وحید پاشاہ قادری آئے
چیخوں میں بلبلاؤں تجھے دیکھنے کے بعد
کیسے سکون پاؤں تجھے دیکھنے کے بعد
اے مرغ تیری ہیلتھ بڑی شاندار ہے
اب دال کیسے کھاؤں تجھے دیکھنے کے بعد
شگفتہ لہجے کے شاعر ڈاکٹر محسن جلگانوی سخن سرا ہوئے
یہ جانتے تھے وہ خنجر چھپا کے لائے گا
اسے بھی اپنے گلے سے لگالیا ہم نے
ہمارے شہر کو پانی کی کیا ضرورت ہے؟
کہ اس برس تو لہو سے نہالیا ہم نے
اس کے بعد اختر علوی گل افشانی کررہے ہیں۔

ایسا نہیں کہ درد سے رشتہ نہیں رہا
سینے میں اپنے اب وہ کلیجہ نہیں رہا
ویسے برائے نام ہی جلتے ہیں اب چراغ
تم کیا گئے کہ گھر میں اجالا نہیں رہا
اس کے بعد ڈاکٹر سلیم عابدی مائک پر آئے ۔
کس کا تھا کیا بتائیں اشارہ تمام رات
ہنگامہ شہر میں ہوا برپا تمام رات
بس کھیلتے ہیں لطف اٹھانے کے واسطے
ہر غم کو ہم سمجھ کے کھلونا تمام رات

اس کے بعد ڈاکٹر رحمت یوسف زئی اپنا کلام عنایت فرمارہے ہیں ۔
آخر ہوگا کب تک پیچھا سورج کا
آؤ بڑھ کر روکیں رستہ سورج کا
اس کے بعد مضطر مجاز مائک پر آئے
پھینک دیا موجوں نے اسے کنارے پر
میں کشتی میں ڈوب گیا آسانی سے
مجھ پر جو گذری سو گذری اس سے کیا
دل تو تمہارا بہلا میری کہانی سے
اس کے بعد اثر غوری سامعین سے ہم کلام ہوئے
خواب کے تکیے پر میرے ساتھ ہی
آرزو سوتی ہوتی اچھی لگی
آکسیجن کے سلینڈر سے کہیں
سانس کی بیماری بھی اچھی لگی
اس طرح یہ پراثر جلسہ و مشاعرہ ناظم جلسہ رشید شہیدی کے کلمات تشکر کے ساتھ ہی اختتام کو پہونچا ۔