بزم تنویر دیگلور کے زیر اہتمام کل ہند مشاعرہ

شیخ احمد ضیاء
علاقہ مرہٹواڑہ میں شہر دیگلور اپنی انفرادیت رکھتا ہے ۔ اس شہر میں آئے دن ادبی ، سماجی ، فلاحی تنظیمیں اپنے پروگرام منعقد کرتی رہتی ہیں ۔ آزادی سے قبل بھی یہ شہر جداگانہ شناخت کا حامل تھا اور اسکی جداگانہ شناخت کو ملکی سطح پر نمایاں کرنے میں جس شخصیت نے اہم کردار ادا کیا وہ مجاہد آزادی ، ادیب و شاعر ، اردو زبان کے محسن ، فلاحی کاموں کے روح رواں ، مسلمانوں کے بے باک رہنما قاضی حامد تنویر کی تھی ، جنہوں نے اپنی صلاحیتوں سے نہ صرف اپنے علاقہ کا نام روشن کیا بلکہ ملکی سطح کے رہنماؤں کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہوئے علاقہ کی ترقی خصوصاً مختلف تعلیمی اداروں کے قیام اور ملت کی صحیح رہنمائی کا بیڑہ اٹھایا اورکامیاب رہے ۔

آج بھی آپ کے قائم کئے ہوئے تعلیمی ادارے ملت کے نونہالوں کو زیور علم سے آراستہ کررہے ہیں ۔ محترم کے لائق سپوتوں نے اپنے والد کے ان کاموں کو جاری و ساری رکھنے کی غرض سے بزم تنویر ایجوکیشن سوشیل ویلفیر کلچرل سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا ، جس کے صدر قاضی سید امداد علی اور معتمد سید قاسم ساجد انجینئر ہیں ۔ اس فعال بزم کے زیر اہتمام نہ صرف علاقہ کے تعلیمی امور کی ترقی و ترویج کے لئے کام ہوتے ہیں بلکہ پابندی سے ہر سال وقفہ وقفہ سے نعتیہ ، سنجیدہ و مزاحیہ کل ہند مشاعروں کا انعقاد عمل میں آتا ہے ۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی کے طور پر 9 فبروری بروز اتوار درگاہ شریف میدان میں عظیم الشان کل ہند ادبی و سنجیدہ و مزاحیہ مشاعرہ کا انعقاد عمل میں آیا ۔

اس عظیم الشان ادبی مشاعرہ کے کنوینر جناب قاضی سید لائق علی نے سب سے پہلے مشاعرہ کی صدارت کے لئے محترمہ وندنا سجیت کامبلے صدر نشین بلدیہ دیگلور کو ڈائس پر مدعو کیا ۔ علاقہ کے سابق اراکین اسمبلی ، مارکٹ کمیٹی صدور ، اراکین بلدیہ و دیگر سماجی ذمہ داروں کو بحیثیت مہمانان خصوصی ڈائس پر مدعو کیا گیا ۔ مولانا ندیم صدیقی صدر مہاراشٹرا جمعیتہ العلماء بھی بحیثیت خصوصی مہمان تشریف فرما تھے ۔ مشاعرہ کے آغاز سے قبل بزم کی جانب سے ہونہار طلبا و طالبات کی خدمت میں انعامات و توصیف نامہ پیش کئے گئے جنہوں نے ریاستی سطح پر اپنے شہر اور اپنے تعلیمی اداروں کا نام روشن کیا ۔ ادبی کیلنڈر کی رسم اجرائی کے بعد ذمہ داران بزم نے تمام مہمانوں کا استقبال کیا اور گلپوشی کی گئی ۔ اس ابتدائی کارروائی کے بعد شعراء کرام کو ڈائس پر مدعو کرنے کے فرائض قاضی سید محسن علی و جناب بسم اللہ قریشی نے مشترکہ طور پر انجام دئے ۔ تمام شعراء کرام کی گلپوشی کے بعد کنوینر مشاعرہ جناب قاضی سید لائق علی نے مشاعرہ کی نظامت کے فرائض انجام دینے کے لئے مائک ابھرتے ہوئے ناظم مشاعرہ اشفاق اصفی کے حوالے کیا ۔ ناظم مشاعرہ نے تمہیدی کلمات اور حمدیہ اشعار کی پیشکش کے بعد بارگاہ رسالت مآبؐ میں نذرانہ نعت پیش کرنے کے لئے عادل آباد سے تشریف لائے معتبر شاعر جناب شاخ انور کو مدعو کیا ، جنھوں نے پرکیف نعت پیش کرتے ہوئے ماحول کو معتبر بنادیا ۔ ان اشعار کو سامعین نے کافی داد و تحسین سے نوازا
اس لئے ان کا سایہ نہیں ہے ، اس کا ہے کوئی اور ہی مصرف
حشر کے دن وہ ہوگا سروں پر اللہ اکبر، اللہ اکبر
چاند وہ تیری گود میں اترا ، نور سے جس کے چمکا زمانہ
دائی حلیمہ تیرا مقدر ، اللہ اکبر ، اللہ اکبر
شاخ انور کے بعد ناظم مشاعرہ نے غزل کے دور کے آغاز کے لئے مقامی شاعر و معتمد بزم جناب سید قاسم ساجد انجینئر کو آواز دی ۔ انھوں نے ’’بیٹی‘‘ کے عنوان سے ایک مرصع نظم پیش کی اور داد و تحسین سے نوازے گئے ۔ ایک اور مقامی شاعر ادریس علی سحر نے اپنی غزلوں کے ذریعہ سامعین کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔ ان کے ان اشعار کو پسند کیا گیا

دل مظلوم نے کیا بددعا دی
زمیں کیا آسماں رونے لگا ہے
سحر مشکل بہت ہے راہ منزل
زمانہ خار جو بونے لگا ہے
ناظم مشاعرہ نے مہاراشٹرا کے ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر عاقل احمد عقیل کو مدعو کیا یوں غزل سرا ہوئے
ہم ہیں فقیر ہم کو زمانہ سے کیا غرض
ملتے کہاں ہیں جھک کے کسی تاجور سے ہم
زخم وفا ہی اب تو سہارا ہے زیست کا
بس اس لئے ہی ملتے نہیں چارہ گر سے ہم
نرمل کے معتبر شاعر عسکر نرملی نے مترنم لہجہ میں کلام سنایا اور کافی داد بٹوری ۔ ان کے ان اشعار کو کافی پسند کیا گیا ۔
مسائل کم نہیں ہوتے پریشانی نہیںجاتی
نہ ہو ذکر خدا تو دل سے ویرانی نہیں جاتی
خدا کی راہ میں جس گھر سے دولت خرچ ہوتی ہے
وہاں تنگی نہیں آتی ، فراوانی نہیں جاتی
مدھیہ پردیش کے نوجوان شاعر اکرم قریشی نے معیاری کلام پیش کیا ۔
کوزے میں بھی سمٹ کے کبھی ہم سماگئے
پھیلے اگر تو قیصر و کسریٰ پہ چھاگئے
ناظم مشاعرہ نے تمیم نظام آبادی کو پیش کیا جن کے ان اشعار پر کافی داد ملی۔

جو راہ حق پہ اپنے آپ کو ہر دم چلاتا ہے
عمل یہ اس کا دنیا میں اسے عزت دلاتا ہے
سکون اس کو نہیں ملتا نہ اس کو نیند آتی ہے
حسد کی آگ میں جب بھی کوئی خود کو جلاتا ہے
اندور سے تشریف لائے ہوئے شاعر ستلج اندوری کے ان اشعار کو کافی پسند کیا گیا ۔
میں نے دھوپ بھی تیری رحمتوں سے پائی ہے
مجھ کو چھاؤں بھی تیرے آسرے سے ملتی ہے
احترام کرتی ہے وہ مرے پسینہ کا
جس کے جسم کی خوشبو موگرے سے ملتی ہے
مدھیہ پردیش کے نوجوان شاعر اشفاق نظامی مارولولی نے ان اشعار کے ذریعہ اپنی حاضری درج کروائی۔

دولت سے نہ طاقت سے نہ سیاست سے نکالا
حل ہم نے مسائل کا تلاوت سے نکالا
کچھ لوگ بھٹکتے رہے جنت کی طلب میں
اور ہم نے راستہ تری سنت سے نکالا
پروفیسر ڈاکٹر سلیم محی الدین کا شمار مرہٹواڑہ کے معتبر ادبی شعراء میں ہوتا ہے ۔ ان کے کلام کو کافی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور ان اشعار پر کافی داد و تحسین سے نوازے گئے ۔
خوش رہو تم جہان میں اپنے
ہم بھی اپنے مکاں میں خوش ہیں
تم اڑو آسماں چھولو تم
ہم زمیں کی امان میں خوش ہیں
اب ناظم مشاعرہ نے سامعین کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے طنزیہ و مزاحیہ کلام پیش کرنے کے لئے راقم الحروف (شیخ احمد ضیاء) کو مدعو کیا ۔ میں نے دکنی غزلیں پیش کیں اور مجھے داد و تحسین سے نوازا گیا ۔ اب ناظم مشاعرہ نے شاخ انور کو مدعو کیا ۔ شاخ انور کے اس شعر کو کافی پسند کیا گیا۔
اپنی رحمتوں سے ہم بس شجر لگاتے ہیں
اس میں تو ثمر تیری رحمتوں سے آتے ہیں
ای ٹی وی اردو سے وابستہ ڈاکٹر مہتاب عالم نے کافی مرصع غزلیں پیش کیں ان کے اس شعر کو کافی پسند کیا گیا۔

پھولوں میں جھلک حسن رخ یار کی نکلی
ہم خوش ہیں کوئی شکل تو دیدار کی نکلی
نعیم اختر خادمی برہانپور کے اس شعر کو سامعین نے کافی پسند کیا۔
ہم اپنے آپ میں سورج ہیں پھر بھی
اندھیرا ہم میں ڈھونڈا جارہا ہے
بدایوں سے تشریف لائے ہوئے معتبر شاعر جناب حبیب سوز کے اس شعر کو کافی پسند کیا گیا۔
کل تک میں اک کتاب تھا اب ہوں ورق ورق
اب وہ مزہ نہیں ہے میری داستان میں
اب ناظم مشاعرہ اشفاق اصفی خود غزل سرا ہوئے ۔ ان کے ان اشعار کو کافی پسند کیا گیا۔
خود کے بارے میں جو سوچوگے گھٹن سی ہوگی
زندگی چاہو تو لوگوں میں بکھر کر دیکھو
سر پہ آئی ہے بلا اس طرح ٹالی جائے
ہاتھ خالی نہ کوئی گھر سے سوالی جائے
اس عظیم الشان مشاعرہ کے آخری شاعر کے طور پر بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر جوہر کانپوری نے اپنے کلام پیش کیا ۔ ان کے ان اشعار پر کافی داد ملی۔
اس گھر کی سجاوٹ میں کمی کچھ نہ تھی لیکن
گھر ہوتا ہے گھر جس سے وہی گھر میں نہیں تھا
رکھتا ہے بعد مرگ یہاں کون کس کو یاد
کچھ بات تھی جو ان کو بھلایا نہیں گیا
صبح چار بجے کنوینر مشاعرہ قاضی سید لائق علی کے شکریہ پر اس مشاعرہ کے اختتام کا اعلان کیا گیا ۔