’’برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر‘‘

غضنفر علی خان
نیوزی لینڈ جیسے ملک میں جمعہ کی نماز کے وقت ایک وحشی نے مسجد کے اندر داخل ہوکر بے تحاشہ فائرنگ کردی جس میں 50 نمازی شہید ہوگئے اور کئی دیگر زخمی ہوگئے ۔ شہید ہونے والے سب ہی مسلمان تھے اور انہوں نے کبھی نیوزی لینڈ کے خلاف نہ تو کوئی سازش کی تھی اور نہ دہشت پسندی کی واردات کی تھی پھر ان نہتے نمازیوں پر کیوں یہ ظلم کیا گیا۔ گرچہ نیوزی لینڈ کے وزیراعظم اور حکومت نے اس واقعہ پر اپنے گہرے افسوس کا اظہار کیا لیکن موت بہرحال موت ہوتی ہے ، زندگی لوٹ کر نہیں آتی ، کتنے گھر اُجڑ گئے ، کتنی خواتین بیوہ ہوگئیں ، کتنے بچے یتیم ہوگئے ، آخر انہوں نے ایسا کیا گناہ کیا تھا جس کے بدلے میں ان کی جان لے لی گئی ۔ ہوسکتا ہے کہ نیوزی لینڈ کی حکومت اور اس کے سیاستدان مسلمانوں سے نفرت نہیں کرتے ہیں لیکن اکثر مغربی ممالک میں مخالف اسلام جذبات پائے جاتے ہیں جن کو فروغ مل رہا ہے ۔ ایک بحث عرصہ دراز سے چل رہی ہے کہ آیا مسلمان دہشت گرد ہوتے ہیں یا نہیں ، اب تو یہ یوروپی اور مغربی ممالک نے گویا طئے کرلیا ہے کہ دہشت گرد صرف مسلمان ہوتے ہیں یعنی کسی دوسرے مذہب میں دہشت گرد پیدا نہیں ہوتے اور اسی دہشت گردی ، خون خرابہ کو اسلامو فوبیا کا نام بھی دیا جارہا ہے ، آج کی ترقی پسند دنیا میں کسی برائی کا پھیلنا آسان ہوگیا ہے ۔ ذرائع ابلاغ نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ کسی نئی اصطلاح کو عام کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔ رہا سوال اسلام اور دہشت پسندی کا تو یہ دو متضاد چیزیں ہیں یعنی کوئی شخص یا گروہ اگر دہشت پسند ہے تو وہ مسلمان نہیں ہوسکتا اور اسی طرح سے اسلام بحیثیت ایک دین کے ہمیشہ انسانوں میں نفرت اور مذہبی جنون کی نفی کی ہے چنانچہ قرآن حکیم میں کہا گیا ہے کہ ’’اللہ کی زمین پر فساد نہ پھیلاؤ‘‘ پیغمبر آخر الزماں حضور اکرمؐ سے زیادہ رحم دل اور دوسروں کے دکھ و درد بانٹنے والے کوئی اور نہیں ہوا ہے ، ساری سیرت طیبہ کے مطالعہ سے یہ بات آفتاب کی طرح روشن ہوجاتی ہے کہ ظلم ، زیادتی ، قتل و غارت گری کی اسلام نے ہرگز اجازت نہیں دی ، صلہ رحمی ہماری تعلیمات میں بڑی اہمیت رکھتا ہے ، یہاں تک کہ یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ ’’عفو و درگزر سب سے اچھا انتقام ہے ‘‘ لیکن اس کے باوجود عام طور پر بحیثیت ایک قوم ، ایک امت ، مسلمانوں میں ایسے گروہ پیدا ہوتے رہے ہیں جو کسی چھوٹے سے مقصد کے لئے دہشت گردی میں ملوث ہوتے ہیں اور دین مبین کی رسوائی کا باعث بنتے ہیں۔ آج کل جہاں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے فوراً مسلمانوں کا نام لیا جاتا ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو برائے نام مسلمان ہیں ان کا اسلام اور اس کی تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ،

مسلم ممالک نے ہر دہشت پسندانہ واقعہ کی مذمت کی ہے ، کسی ملک نے کبھی اس کی تائید نہیں کی کیونکہ دہشت پسندی کی تائید تعلیمات اسلامی کے عین مغائر ہے ۔ کوئی شخص بہ یک وقت دہشت گرد اور مسلمان نہیں ہوسکتا یا تو وہ صرف دہشت گرد ہوتا ہے یا پھر نیکو کار مسلمان ہوا کرتا ہے۔ نیوزی لینڈ کا یہ واقعہ آخر کیوں ہوا ، اس کی تحقیقات ہونی چاہئے ۔ بظاہر ایک وجہ یہ سمجھ میں آئی ہے کہ مغربی ممالک نے اسلام کے خلاف رسوا کن جو تحریک چلائی ہے اس سے ان ممالک کی عوام اسلام کے مخالف ہوگئے ہیں، ان کی اس مخالفت کا ایک سبب جو سب سے بڑا سبب ہے یہاں کی حکومتوں کی زیر سرپرستی اسلام دشمنی بھی ہے ۔ دہشت پسندوں سے یہ کہنا ہے کہ تم لوگ معصوم اور بے گناہ لوگوں کا قتل کر کے کچھ حاصل نہیں کرسکتے ۔ صرف دین اسلام کو بدنام کرسکتے ہو اگر کوئی شخص خود کو مسلمان سمجھتا ہے تو سب سے پہلے اس کو ساری نوع اسلامی کے لئے خیر و برکت اور فلاح کی کوشش کرنی چاہئے ۔ دہشت پسندی ہر اعتبار سے اسلام مخالف عناصر کی کارروائی ہے ۔ اس کو فروغ دینے کیلئے یوروپی ممالک اپنے ذرائع ابلاغ کا جس طرح استعمال کر رہے ہیں وہ ایک بے حد خطرناک اور عالم انسانیت کیلئے انتہائی تباہ کن ثابت ہورہا ہے ۔ مسلم ممالک کو مغربی ممالک کے اس طرز عمل کے خلاف پرامن لیکن موثر احتجاج کرنا چاہئے۔ پچاسوں مسلم ممالک ہیں ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو دنیاوی اعتبار سے بے حد خوشحال اور دولتمند بھی ہیں ۔ اگر ان میں سے کوئی ایک یا سب ہی مل کر کوئی اسلامی چینل بنائے اور مغربی ممالک کے اس اسلام دشمن رویہ کے خلاف آواز اٹھائے تو اس کے بے حد مفید نتائج برآمد ہوں گے ۔ دولتمند مسلم ممالک کا سانحہ یہ ہے کہ یہ تمام ممالک ترقی کو صرف اونچی اونچی نئی نئی عمارتیں بنانے چوڑی اور وسیع سڑکوں کی تعمیر کرنے ، اچھے سے اچھا لباس پہننے اور مغربی ممالک کی نقل کرنے کو ہی ترقی سمجھتے ہیں۔ دنیا میں وہ قومیں آن بان کے ساتھ زندہ نہیں رہ پاتی جو عصر حاضر کے تمام تقاضوں کو پورا نہیں کرتی ۔

اب یہ عالم ہے کہ خود کو اسلام دوست سمجھنے والے یہ ممالک اپنے آپ کو اسلام کے محافظ سمجھنے لگے ہیں، اپنے وسائل اور ذرائع کو امت مسلمہ کی فلاح و بہبود ، نیک نامی کیلئے استعمال نہیں کرتے ، یہ کام آسان نہیں ہے بلکہ انتہائی عرق ریزی کا کام ہے ۔ ایسا چینل جس میں دنیا بھر کے اہل قلم لائے جاسکتے ہیں تاکہ اسلام کی مخالفت کرنے والے چند ایک ممالک کو لگام دی جاسکے۔ دہشت گردی خواہ کوئی گروپ کرے، خواہ کسی ملک کی طرف سے ہو ، قابل صد نفرین ہے ۔ نیوزی لینڈ ایک ایسا ملک ہے جہاں کبھی کوئی دہشت پسندانہ واقعہ نہیں ہوا ، امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، حد تو نیدرلینڈ بھی دہشت پسندانہ حملوں کا شکار رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے واقعہ کے کچھ دن ہی بعد نیدر لینڈ میں بھی دہشت پسندی کا واقعہ رونما ہوا ۔ دوسری طرف دہشت گردی کے ناپاک منصوبوں کو ختم کرنے کیلئے اگر یوروپی ممالک اور دیگر مغربی ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا سے دہشت گردی ختم کرنے کیلئے صرف طاقت استعمال کی جانی چاہئے تو یہ سراسر غلط ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ دنیا کے تمام مذاہب اور عقیدہ کے ماننے والوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم ہونی چاہئے جو ان ادعیان کے ماہرین ، دانشوروں اور مذہبی پیشواؤں بشمول مسلم علماء اور دانشوروں پر مشتمل ہو، دہشت گردی بے شک ایک انتہائی پیچیدہ اور ہلاکت خیز ذہنی رویہ ہے ، اس ذہنیت کو اگر دوسرے ممالک طاقت کے استعمال سے ختم کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ دہشت گردی کی لعنت سے نوع انسانی کو نجات دلانا اس دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے ۔ مسلم ممالک نے سرکاری طور پر اس غیر انسانی رجحان کی ہمیشہ ہر وقت ہر جگہ مذمت کی ہے یعنی مسلم ممالک عالم اسلام اور بالعموم امت محمدیہ کسی قیمت پر اس مکروہ رجحان کی تائید نہیں کرتے ہیں اور انہیں تائید کرنی بھی نہیں چاہئے لیکن مغربی ممالک کو یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ بین الاقوامی سطح پر مذہبی رواداری ، انسانی اخوت کو فروغ دینے کیلئے ان ممالک کو بھی مثبت سوچ اپنے اندر لانی پڑے گی۔ اقوام عالم متحد ہوکر دہشت گردی کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ صرف چندا یک مغربی ممالک اپنے مخالف اسلام رویہ سے یہ کام نہیں کرسکتے۔ اب نیوزی لینڈ کے واقعہ کی مثال لیجئے تو کیا یہ 50 انسان جو مسلمان تھے ، کسی دہشت گردی کا شکار تھے کیا انہوں نے کوئی جابرانہ دہشت پسند تنظیم قائم کی تھی کیا انہوں نے نیوزی لینڈ حکومت کے خلاف کوئی بغاوت کی تھی۔ ہر سوال کا جواب نفی میں ملتا ہے تو پھر ان بے قصور مسلمانوں کے اس بہیمانہ قتل عام کا کیا جواز ہے ۔ اگر جواب ہے تو یہی ہے کہ عیسائی مذہب میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو انہیں مذہبی عصبیت کی خاطر مسلمانوں کے قتل عام کا جواز فراہم کرتے ہیں۔