برانڈ مودی ہنوز مضبوط‘ متحد اپوزیشن واحد چیلنج

راج دیپ سردیسائی
خوش گوار پُرامیدی کا احساس کسی بھی تجربہ کار سیاستدان کا مستقل ساتھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہر سروے دکھا رہا ہے کہ نریندر مودی زیر قیادت نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کی اقتدار پر واپسی ہونے والی ہے، پھر بھی اپوزیشن کے سیاستدانوں کو ہر گوشے سے یہی یاددہانی کرائی جارہی ہے کہ 2004ء میں کیا پیش آیا جبکہ تمام انتخابی پیش قیاسیاں بُری طرح غلط ثابت ہوئیں اور کانگریس زیرقیادت یونائیٹیڈ پروگریسیو الائنس (یو پی اے) نے واجپائی حکومت کو مشکلات میں پھنسا دیا۔ کیا مودی شائننگ 2019 اُس انڈیا شائننگ 2004ء کا تسلسل اور ایسا پُرفریب بلبلہ ثابت ہوگا جو بس پھٹنے ہی والا ہے؟ میرا جواب: ہاں اور نہیں۔
ہاں، 2004ء کے سیاسی حالات سے کافی مشابہت ہے جب واجپائی کو مرکز بناتے ہوئے شخصیت کا جادو جگانے کی کوشش کی گئی، اُس سے کہیں بڑھ کر کوششیں مودی کو زندگی سے کہیں بڑا لیڈر ثابت کرنے کیلئے ہورہی ہیں۔ زندگی پر مبنی فلم (بائیوپک) سے لے کر ویب سیریز تک، NaMo ٹی وی سے NaMo ایپ تک، اچھی ترکیب سے بنائے گئے انٹرویوز سے لے کر فی البدیہہ مخاطبت تک … ہر طرف برانڈ مودی کو پھیلا دیا گیا ہے۔ اور اس کے باوجود زوردار 2019 مودی شائننگ مہم کو 2004 انڈیا شائننگ مہم کے نقائص سے ملانا گمراہ کن ہے۔ اول یہ کہ ایسا خیال کرنا کہ واجپائی نے اپنی حکومت کے بارے میں مبالغہ آمیز تشہیر کی وجہ سے اقتدار کھویا، حقیقت سے میل نہیں کھاتا اور 2004ء کے خط اعتماد کو غلط باور کرلینا ہے۔ واجپائی بنیادی طور پر اقتدار سے اس لئے محروم ہوئے کیونکہ جنوب میں اُن کے حلیفوں تلگودیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) اور آل انڈیا انا ڈراویڈا مونیترا کڑاگم (اے آئی اے ڈی ایم کے) کا لگ بھگ صفایا ہوگیا۔ انھوں نے اپنی طاقت زیادہ آبادی والی ریاستوں اترپردیش (یو پی) اور بہار میں بھی کھوئی، جس کی جزوی وجہ یہ رہی کہ 2002ء کے گجرات فسادات کے بعد اُن کی حکومت کے خلاف طاقتور ذات۔ برادری کا عنصر اُبھر آیا تھا، لیکن اس لئے بھی کہ ان ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) آرگنائزیشن کمزور پڑرہی تھی۔ واجپائی کی شخصی مقبولیت برقرار رہی حالانکہ اُن کی پارٹی پیچھے ہٹتی جارہی تھی۔
اس طرح کا معاملہ 2019ء میں نہیں ہے۔ جہاں مودی بدستور کافی فرق کے ساتھ ہندوستان کے برتر سیاسی لیڈر ہیں، وہیں بی جے پی بھی اب ہندوستانی سیاست کا نمایاں حصہ ہے۔ 15 سال قبل بی جے پی بمشکل نصف درجن ریاستوں میں برسراقتدار تھی، لیکن آج وہ زائد از 16 ریاستی حکومتوں پر کنٹرول رکھتی ہے۔ 2004ء میں بی جے پی کی جغرافیائی حدیں واضح تھیں؛ آج پارٹی مشرق اور شمال مشرق کے ہرے بھرے علاقوں میں اپنی پہچان بنارہی ہے۔ علاوہ ازیں، واجپائی کے تحت بی جے پی ایسی پارٹی رہی جس نے اپنے دستوری حدود میں رہتے ہوئے کام کیا، لیکن مودی۔ امیت شاہ جوڑی کی قیادت میں بی جے پی ظاہر طور پر ایسی بے تکان مشین ہے جو اپنے حریفوں کو ختم کرنے کیلئے کوئی کسر باقی نہیں رکھے گی۔
اس کے برعکس، کانگریس اُس دور کے مقابل آج کافی کمزور پارٹی ہے۔ دو ریاستیں آندھرا پردیش اور مہاراشٹرا جو کانگریس کے احیاء کیلئے کلید ہیں، اس قدیم پارٹی کے بحران کی عکاس بن چکی ہیں۔ منقسم آندھرا میں کانگریس اب حاشیہ پر ہوچکی ہے۔ مہاراشٹرا میں کانگریس قائدین کا متواتر بی جے پی کی طرف انحراف کرنا بنیادی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ زعفرانی پارٹی کانگریس کے ابتدائی قلعہ میں نمایاں سیاسی طاقت بن کر اُبھر آئی ہے۔
2004ء اور 2019ء کے درمیان دیگر بڑا فرق ملک کے سماجی آبادیات میں مضمر ہے۔ تب، ہندوستانی متوسط طبقہ آج کے مقابل کمتر غلبہ رکھتا تھا، اور دیہی۔ شہری تقسیم بدستور نمایاں تھی۔ 2004ء کے بعد کے دہے میں ہندوستانی متوسط طبقہ پھیل گیا، اور جسامت میں دوگنا ہوکر زائد از 600 ملین ہوچکا ہے۔ اس طبقہ کی بڑھتی امنگوں کو کنزیومر کی طاقت نے جلا بخشی، جس کی بہترین مثال ڈرامائی موبائل انقلاب ہے۔ زائد از 400 ملین اسمارٹ فونس، زائد از 250 ملین واٹس ایپ یوزرس، تقریباً 300 ملین فیس بک اکاؤنٹس کے ساتھ ہندوستان عملاً متحرک قوم ہے۔ پھر 24×7 نیوز چیانلوں کی تعداد چار گنا اضافے کے ساتھ اس مدت میں زائد از 400 ہوچکی ہے۔ اس مواصلاتی انقلاب نے روایتی انڈیا۔ بھارت تقسیم کو بتدریج پاٹ دیا ہے اور زیادہ مربوط ماحول پیدا کیا ہے جہاں کوئی بھی زوردار سیاسی پیام فوری لاکھوں کروڑوں ممکنہ ووٹروں تک پہنچ جاتا ہے۔ یہی پُرجوش واپسی ہے جس میں نیا متوسط طبقہ اب بی جے پی کے مودی توا انقلاب کو آگے بڑھا رہا ہے، جسے بالاکوٹ حملوں کے بعد طاقتور قوم پرستی کی مدد مل رہی ہے، مذہبی اکثریت پسندی کا رجحان ہے اور بڑھتے معاشی عزائم بھی ہیں۔
اس طبقہ کیلئے راہول گاندھی کا اقل ترین آمدنی کی ضمانت والی اسکیم کے ذریعے ’نیائے‘ کا وعدہ زیادہ ارتعاش پیدا نہیں کررہا ہے کیونکہ ان کی اکثریت تو پہلے سے ہی ماہانہ 12,000 روپئے سے کہیں زیادہ کی کمائی کرلیتی ہے۔ یہ اسکیم کانگریس کیلئے کچھ موضوع گفتگو تو فراہم کرتی ہے، لیکن اس کے مسابقتی پہلو کو جزوی طور پر بی جے پی کے خود اپنے کیاش ٹرانسفر اقدامات کے ذریعے غریب تر علاقوں میں رسائی حاصل کرنے سے بے اثر ہوگیا ہے۔ اس طرح کے یکطرفہ بی جے پی موافق ماحول میں منقسم اپوزیشن کیلئے واحد حقیقی امید اس آخری مرحلے میں بھی بعض کلیدی ریاستوں میں اہم اتحاد قائم کرنے میں اس کی کامیابی ہے جیسے کہ یو پی۔ عمومی رجحان تو برانڈ مودی کے ساتھ ہے، صرف حقیقی معنی میں متحد اپوزیشن اعداد و شمار کے معاملے میں برتری حاصل کرسکتا ہے۔
اختتاحی تبصرہ :
ودربھ کو حالیہ سفر میں میری بات چیت ضلع ناگپور میں سنگترہ کے کسانوں سے ہوئی۔ انھوں نے بالاکوٹ کے بارے میں مبہم سنا ہے، نیائے اسکیم سے لاعلم ہیں لیکن اپنی پیداوار کیلئے متغیر قیمتوں پر برہم ہیں۔ انھوں نے افسوس ظاہر کیا: ’’تمام حکومتیں یکساں ہیں، وہ کسان کیلئے کچھ نہیں کرتی ہیں۔‘‘ میں نے پوچھا، تو پھر آپ کسے ووٹ دوگے، ان کا جواب رہا: ’’مودی جی ہی تو ہے، اور کس کو دیں؟‘‘ اپوزیشن کے پاس اب چند ہفتے ہیں کہ ناراض کسانوں کو مطمئن کریں کہ بی جے پی کی علامت کیلئے حقیقی متبادل بھی ہوسکتے ہیں۔
rajdeepsardesai52@gmail.com