’’بدلتے موسم ‘‘ (مصنف رحیم انور) (مختصر افسانہ)

تبصرہ : جمیل نظام آبادی (ایم اے )
منی کہانی دریا کو کوزے میں سمیٹنے کا نام ہے اور دریا کو کوزے میں سمیٹنا کوئی آسان کام نہیں۔ رحیم انور یہی کام گزشتہ 25 برسوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ انہوں نے اب تک سینکڑوں کہانیاں لکھی ہیں۔ ان کی اب تک 10 تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں جن میں ’’یادوں کے سائے‘‘، ’’آواز کا درد‘‘، ’’اُس موڑ سے‘‘، ’’ہم کہاں کہاں سے گذرے‘‘، ’’بوند بوند سمندر‘‘، ’’احساس کا سفر‘‘، ’’سلگتے لمحات‘‘، ’’میرے افسانچے ماہیر اردو ادب‘‘ ، ’’کاماریڈی : حال اور ماضی کے آئینہ میں‘‘،’’زخم زخم زندگی‘‘ شامل ہیں۔ اب ان کا ایک اور مختصر افسانوں کا مجموعہ ’’بدلتے موسم‘‘ منظر عام پر آیا ہے جو قابل تعریف ہے۔ اس بار بھی رحیم انور نے اپنی مختصر کہانیوں کے ذریعہ سماج کی دکھتی رگوں پر بڑے ہی سلیقہ سے ہاتھ رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کی کہانیاں پڑھنے والوں میں ایک احساس اور شعور بیدار کرتی ہیں۔ یہاں اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ منی کہانی کے اپنے کچھ فنی تقاضے بھی ہوتے ہیں اور رحیم انور کی کہانیاں ان تقاضوں کو پورا کرتی ہیں۔ ان کی کہانیوں میں نہ صرف کہانی کے تقاضے پورے ہوتے ہیں بلکہ خود ایک پوری کہانی چند سطور میں سمٹ کر قاری کے سامنے آجاتی ہے اور قاری اس کے تاثر میں دیر تک کھویا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رحیم انور کی کہانیوں کو نہ صرف قارئین پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں بلکہ اردو کے کئی دانشور اور نقادوں نے بھی ان کہانیوں کو پسند کیا اور اپنے تاثرات سے رحیم انور کو آگاہ کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کی ہے اوریہی حوصلہ افزائی رحیم انور میں نئی حرارت پیدا کرتی ہے اور وہ مسلسل 25 برسوں سے بنا تھکے لکھتے چلے آرہے ہیں۔ ان کی کہانیوں کے موضوعات میں وہی سیاسی گندگی، مذہب کے نام پر بھولے بھالے عوام کا استحصال، وہی جہیز کی قربان گاہیں، رشوت خوری کی لعنتیں، رشتوں کے تقدس کی پامالی، حرص و حوس اور جنسی بے راہ روی یعنی زندگی کے حقائق تمام پردے پھاڑ کر سامنے آجاتے ہیں۔ رحیم انور کی کہانیاں سچ بولتی ہیں۔ یہ آج کے ماحول اور معاشرہ کی حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ اسی لئے رحیم انور کی نئی کہانیوں کو بھی عوامی پسندیدگی کی سند اور مقبولیت حاصل ہے۔ بہرحال ان کی نئی تصنیف ’’بدلتے موسم‘‘ کی کامیابی پر رحیم انور کو مبارکباد ۔ امید ہے کہ وہ اسی طرح مستقبل میں بھی اپناقلم چلاتے رہیں گے۔