بجٹ پیش کرنے والوں کے فقط چہرے بدلتے ہیں

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
تلنگانہ میں گذشتہ 9 ماہ کے دوران جو مسائل موضوع بحث رہے ہیں ان میں حکومت کی فلاحی اسکیمات اور بجٹ میں مختص ہونے والے رقومات کے بارے میں قیاس آرائیاں تھیں۔ ریاست کے مفلوک الحال، مایوس، اداس عوام کی بڑی تعداد کو چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کی حکومت کے پہلے بجٹ سے مایوسی ہوئی ہوگی کیونکہ اس بجٹ میں انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کیلئے خاطرخواہ رقومات مختص نہیں کئے گئے ہیں۔ اس بجٹ کے ذریعہ ریاست کو درپیش مسائل کی یکسوئی کس طرح کی جائے گی۔ یہ تو خود حکمراں طبقہ ہی بہتر جانتا ہے۔ عوام اپنی ہی مرضی سے تشکیل کردہ حکومت کی کوتاہیوں کا ماتم کریں گے لیکن چیف منسٹر نے گورنر کے خطبہ پر تحریک تشکر کا جواب دیتے ہوئے یہ ضرور کہا ہیکہ ان کی حکومت غریب عوام کی بہبود کے لئے کام کرے گی اور اس سال مختلف اسکیمات پر 25000 کروڑ روپئے مختص کئے ہیں۔ تلنگانہ ریاست کی ترقی شرح پر غور کرتے ہوئے مالیاتی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی غرض سے چیف منسٹر نے کہا کہ آئندہ پانچ سال کے دوران منصوبہ جاتی مصارف کے طور پر 6 لاکھ کروڑ روپئے خرچ کئے جائیں گے۔ حیدرآباد میں سرکاری اراضی کو فروخت کرنے کی تجویز کو مؤخر کردیا گیا۔ مالیہ کو متحرک کرنے کیلئے اراضی کو فروخت کیا جانے والا تھا اب یہ مالیہ دیگر ذرائع سے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ تلنگانہ کو مثالی ریاست بنانے اور دارالحکومت حیدرآباد کو عالمی درجہ کا شہر بنانے کیلئے چیف منسٹر نے بجٹ میں گنجائش پیدا کی ہے۔ اس حکومت کے اسمارٹ منصوبوں سے امید رکھنے والوں کو ابھی صبر کا دامن یوں چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔

بجٹ میں فوڈ سیکوریٹی اور سبسیڈی کے طور پر ریاست کے 218 کروڑ عوام کو فی کس ایک روپیہ کیلو میں 6 کیلو گرام چاول دیا جائے گا۔ اس کے لئے 2,200 کروڑ خرچ کریں گے۔ بجٹ میں اقلیتوں کے لئے صرف 1,105 کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں تو اس کے حق میں اسکیمات کو روبہ عمل لانے میں ابھی سے ہی گنجائش دکھائی گئی ہے۔ آئندہ چار سال تک عوام الناس کو حکومت کے تیقنات کو ہی تکیہ بنا کر سوجانا پڑے گا۔ انہیں عملی سچ کے آگے ہاتھ جوڑنا سیکھنا ہوگا۔ انگلش فلم میں ایک کردار دوسرے سے کہتا ہے تمہیں معلوم ہے۔ اس شہر کا کیا حال ہوچکا ہے۔ حکومت کے ہر عہدے کی کرسی پر بیٹھے ہوئے لوگ اختیارات کی دوش اور غرور پر پاگل ہوچکے ہیں۔ وہ صرف بکواس کرتے اور انتہائی سطح پر ذاتی زندگی انجوائے کرتے ہیں۔ جب کبھی اس فلم کا یہ منظر اور مکالمے یاد آتے ہیں تصورات میں تلنگانہ خصوصاً شہر حیدرآباد کے کونے کونے کی تصاویر دل پر اترنا شروع ہوجاتی ہے۔ بلدیہ کو اتنی بھاری رقم دی جارہی ہیکہ وہ شہر کو خوبصورت بنا کر اسے عالمی درجہ دیں گے لیکن اس شہر کی ابلتی ہوئی موریوں، بہتے ڈرینج، تیڑھے میڑے سڑکیں، تاریک گلیاں اس سچائی کی گواہی ہیں کہ حکومتوں نے اس کو بری طرح نظرانداز کردیا ہے۔ چارمینار پیدل راہرو پراجکٹ گذشتہ 20 سال سے واقعی کچھوے کی مانند بھی رینگتا تو آج پورا ہوچکا ہوتا بلکہ یہ پراجکٹ کاغذی سطح پر پیسہ پانی کی طرح بہا کر بھی جوں کا توں ہے تو شہریوں کو حقیقتاً یہ کہنے میں کوئی پس و پیش نہیں ہوگا کہ حکومت نے پراجکٹ کے نام پر پیسہ ہڑپ لیا ہے۔ تلنگانہ میں کل تک معاشی نظام آندھرا قائدین کے تابع تھا اب 9 ماہ سے یہ نظام تلنگانہ کے سپوتوں کے ہاتھ میں ہے تو انہوں نے اب تک کوئی تیر کیوں نہیں مارا۔ ریاست کا ہر شہری خودکفیل کب ہوگا۔

یہ ایک اہم سوال ہے۔ تلنگانہ تحریک کے گمنام شہدا کو یاد کرکے ایوان اسمبلی میں خراج پیش کرنے والے وزیرفینانس نے شہدا کے خاندان والوں کے ساتھ کسی خاص ہمدردی کا ذکر نہیں کیا۔ ایسے میں یہ خیال ضرور آنا چاہئے کہ سیاستدانوںکا دل نہیں ہوتا۔ وہ کسی سے ہمدردی نہیں رکھتے صرف سیاسی مفادات کو ملحوظ رکھ کر اپنی پارٹی کی آبیاری کرتے ہیں۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے نئے زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بجائے دقیانوسی سوچ کے ساتھ تلنگانہ میں واستو کے مطابق عمارتیں، سڑکیں اور صنعتوں کے قیام کیلئے ماہرین کی خدمات حاصل کرنا شروع کی ہے۔ واستو کے ماہر کو ماہانہ 75 ہزار روپئے تنخواہ دے کر رکھا گیا جس کا کام ریاست تلنگانہ کی ہر ایک عمارت اور سڑک کو ہندوستانی معماری کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہئے۔ واستو سائنس کا دعویٰ ہیکہ ریاست تلنگانہ کی کئی عمارتوں کا رخ بدلنے کی ضرورت ہے ورنہ حالات حکومت کے غیرموافق ہوں گے۔ اس لئے چیف منسٹر تمام سرکاری عمارتوں اور اپنے کام کاج کے مقامات کی ازسرنو تعمیر کا منصوبہ رکھتے ہیں تو اس طرح سرکاری خزانہ کا دیوالیہ نکال دیا جائے گا۔ واستو پر چلنے والے چیف منسٹر توہمات میں مبتلاء ہوکر نت نئے مسائل میں محصور ہوجائیں گے اور عوام کو بھی اپنی غلطیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کا شکار بنادیں گے۔ واستو کے ماہر سدالا سدھاکر تیجا کی خدمات حاصل کرنے کے بعد چیف منسٹر کی حکومت تقدیریں بدلنے کا کام کرے گی تو یہ عوام الناس کیلئے فائدہ مند ہوگی مگر واستو سے کسی کو فائدہ یا نقصان ہو نہ ہو ان بیچارے ماہرین کو کچھ مہینوں کیلئے روزگار تو مل جائے گا۔ ایک سال کیلئے واستو کے ماہرین کا تقرر کرتے ہوئے ماہانہ 75 ہزار روپئے تنخواہ دی جائے گی۔

گاڑی اور ڈرائیور بھی فراہم کیا جائے گا جو انہیں تعمیرات کے مقام پر لے جاکر واستو کے مطابق تعمیرات کو یقینی بنائے گا مگر دلچسپ بات یہ ہیکہ اس واستو کے چکر میں چیف منسٹر نے مرکزی فنڈس کے حصول کیلئے کوئی کوشش نہیں کی جس کے نتیجہ میں مرکزی امداد کے بغیر ہی انہوں نے اپنا پہلا بجٹ پیش کیا اور اس میں کئی کروڑ روپیوں کے پراجکٹس اور اسکیمات کا بھی اعلان کیا۔ بجٹ کے مطابق ان پراجکٹس اور اسکیمات کیلئے رقومات کہاں سے آئیں گے واضح نہیں ہے۔ چیف منسٹر کا دعویٰ ہیکہ ان کا یہ بجٹ انتخابی وعدوں اور ٹی آر ایس کے انتخابی منشور کا مظہر ہے۔ انہوں نے وزیرفینانس ایٹالا راجندر اور سینئر آئی اے ایس عہدیداروں کو مبارکباد دی کہ انہوں نے ٹی آر ایس پارٹی کے منشور کے مطابق بجٹ تیار کیا ہے۔ مختلف شعبوں کو مختص کردہ بجٹ پرفیکٹ اور حق بجانب ہے۔ اس میں شک نہیں کہ چیف منسٹر نے عوامی بہبود، زراعت، صنعت، انفراسٹرکچر سہولتوں کیلئے اولین ترجیح دی ہے۔ اس بجٹ نے اپوزیشن پارٹی کانگریس کے عزائم کو بھی دھکہ پہنچایا ہے اس نے پارٹی کو مضبوط بنانے کیلئے حال ہی میں تلنگانہ پردیش کانگریس صدر کی حیثیت سے اتم کمار ریڈی کو منتخب کیا تھا اب کانگریس کے نئے صدر بھی ٹی آر ایس کی حکومت کے بال وپر کترنے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہوں گے۔

کانگریس نے اسمبلی بجٹ سیشن میں حکومت کے خلاف 28 مسائل پر آواز اٹھانے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہیکہ کانگریس ان مسائل کے حوالے سے حکومت کو گھیرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ اپوزیشن کی صفوں میں انحراف پیدا کرنے ٹی آر ایس کی کوششوں کو آشکار کرنے کا تھا۔ اس مسئلہ کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ اپوزیشن میں پھوٹ پڑتی ہے تو اسے سیاسی حالات کا بدلتا رجحان تصور کیا جارہا ہے۔ کانگریس کے اندر ہی ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے کا رجحان فروغ پا رہا ہے تو یہ پارٹی دوسروں کی پگڑی اچھالنے میں کامیاب نہیں ہوگی۔ حال ہی میں کانگریس اجلاس میں ایم رنگاریڈی نے راجیہ سبھا رکن وی ہنمنت راؤ کے خلاف احتجاج کیا تھا اور کہا تھا کہ آخر، پارٹی کے اندر ہونے والی باتوں کو برسرعام لارہے ہیں۔ ہنمنت راؤ نے جواب میں کہا تھا کہ انہیں ایم رنگاریڈی سے درس حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور دھمکی دی تھی کہ وہ رنگاریڈی کے کرتوتوں کو آشکار کردیں گے۔ جب کانگریس قائدین ہی ایک دوسرے کے گریبان کو چاک کرنے میں مصروف ہیں تو حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کو کوئی نقصان کیونکر پہنچے گا۔
Kbaig92@gmail.com