بجرنگ دل کی مسلح آرمی

ملک میں فرقہ وارانہ ماحول کو پراگندہ کرنے اور نفرت کا ماحول گرم کرنے کی کوششیں مسلسل تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ اتر پردیش جیسی حساس نوعیت کی ریاست کو اب نشانہ بنانے کا سلسلہ اور بھی شدت اختیار کر گیا ہے ۔ یہاں بجرنگ دل کی جانب سے ہندووں کو ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت دی جا رہی ہے ۔ ایک کیمپ اس سلسلہ میں منعقد ہوچکا ہے اور مزید کیمپس منعقد کرنے کی تیاریاں بھی شروع ہوگئی ہیں ۔ حیرت اس بات کی ہے کہ ان کیمپس میں ریوالورس اور لاٹھیوں وغیرہ کا کھلے عام استعمال ہو رہا ہے اور نفاذ قانون کی ایجنسیاں ‘ ریاستی پولیس ‘ این آئی اے یا مرکزی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ بجرنگ دل کا کہنا ہے کہ یہ تربیت ہندووں کو دوسرے فرقوں سے بچانے کی کوشش ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک میںہندووں کو خطرہ کس سے لاحق ہے ؟ ۔ یہاں کسی بھی فرقہ کو کسی دوسرے فرقہ یا طبقہ سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے اور اگر کبھی کسی کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا بھی ہے تو اس سے نمٹنے کیلئے پولیس ‘ نیم فوجی دستے اور نفاذ قانون کی ایجنسیاں موجود ہیں اور اگر انتہائی صورت میں یہ بھی موثر ثابت نہ ہوسکیں تو اس کیلئے فوج کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔ ایسے میںخود بجرنگ دل کو ہندووں کو ہتھیاروں کے استعمال کی ٹریننگ دینے کی ضرورت کیا ہے ؟ ۔ کیا بجرنگ دل کی جانب سے اپنی خانگی سینا تیار کی جا رہی ہے ؟۔ اگر ایسا ہے تو یہ انتہائی خطرناک رجحان ہے اور اس کو فوری طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومتیں اگر اس سلسلہ میں کچھ بھی نہیں کرتی ہیں تو صورتحال ان کے قابو سے باہر ہوجائیگی اور یہ بھی سمجھا جائیگا کہ خود حکومتیں ایسا کروانا چاہتی ہیں اور اسی لئے خاموشی اختیار کر رہی ہیں۔ اتر پردیش کی اکھیلیش سنگھ یادو کی حکومت ہو یا مرکز کی نریندر مودی کی حکومت ہو دونوں کو چاہئے کہ وہ ہتھیاروں کی تربیت کے ان کیمپس پر دھاوا کرے اور ایسے کیمپس منعقد کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے ۔ اگر حکومتیں ایسا نہیں کرتی ہیں تو یہی سمجھا جائیگا کہ انہیں خاموشی سے تائید فراہم کی جا رہی ہے اور اس کے پس پردہ محرکات سرکاری نوعیت کے ہی ہیں۔ یہ صورتحال ملک کے مفاد میں نہیں ہوگی اور اس سے فرقہ وارانہ حالات بگڑسکتے ہیں۔

بجرنگ دل کا کہنا ہے کہ اسے ہندووں کے دفاع کی فکر ہے ۔ ہندوستان میں ہندووں کی کسی سے لڑائی ہے نہ کوئی خطرہ درپیش ہے ۔ محض دفاع کے نام پر کسی کو خانگی فوج تیار کرنے یا ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ اس کا جواز چاہے کچھ بھی پیش کیا جائے ۔ ایسی سرگرمیوں کیلئے کوئی بھی جواز قابل قبول نہیں ہوسکتا ۔ نکسلائیٹس نے بھی قبائلی اور دیہی عوام کی زمینات کا تحفظ کرنے کے نام پر مسلح جدوجہد شروع کی تھی ۔ اس کو بھی قبول نہیں کیا گیا اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کی گئی ۔ اسی طرح بہار میں ایک زمانہ تھا جب رنویر سینا قائم کی گئی تھی ۔ یہ زمینداروں کی فوج تھی ۔ اس نے بھی اپنے مفادات کیلئے جدوجہد کرنے کا عذر پیش کیا تھا جو ناقابل قبول تھا اور اسے بھی قبول نہیں کیا گیا تھا ۔ دستور ہند کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے غیر مسلح جدوجہد ضرور کی جاسکتی ہے لیکن دستور ہند کسی کو بھی اپنے ہی ملک میں مسلح جدوجہد کی اجازت ہرگز نہیں دیتا چاہے اس کیلئے ہندووں کے تحفظ اور دفاع کا ہی عذر کیوں نہ پیش کیا جائے ۔ نہ یہ عذر قابل قبول ہوسکتا ہے اور نہ مسلح ٹریننگ کو برداشت کیا جاسکتا ہے ۔ سب سے پہلے تو یہ عذر ہی ناقابل قبول ہے کیونکہ اس ملک میں ہندووں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے ۔ حکومتیں ہوسکتا ہے کہ اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے اس پر خاموشی اختیار کرلیں اور ایسا کرنے والوں کے خلاف کسی کارروائی سے گریز کرتے ہوئے ان کی خاموش تائید کریں لیکن یہ طریقہ کار خطرناک ضرور ہے ۔ بجرنگ دل کی جانب سے جو ٹریننگ شروع کی گئی ہے اس کو بہرحال روکنا چاہئے ۔

بجرنگ دل نے جو ٹریننگ شروع کی ہے وہ ایک طرح سے ملک کی پولیس اور نیم فوجی دستوں پر بھروسہ نہ کرنے کی بھی ایک مثال ہے ۔ بجرنگ دل کا اب تک کا جو ریکارڈ ہے وہ بھی ٹھیک نہیں ہے ۔ فرقہ وارانہ فسادات میں اس کے کارکنوں نے جو رول ادا کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ گجرات کے مسلم کش فسادات میں بجرنگ دل کے کارکن قتل و غارت گری میں سب سے آگے رہے اور عدالتوں میں بھی اس حقیقت کو پیش کیا گیا ہے ۔ اس کے باوجود اگر حکومتیں اس تنظیم کو مسلح ٹریننگ دینے کی خاموشی سے اجازت دیتی ہیں تو یہ حکومتوں کا بھی مجرمانہ تغافل ہوگا اور بجرنگ دل جیسی تنظیم کوئی شر انگیزی کرتی ہے اور فرقہ وارانہ حالات بگڑ جاتے ہیں تو اس کیلئے اس تنظیم کے ساتھ ساتھ اس کی خاموشی سے تائید کرنے والی حکومتیں بھی ذمہ دار ہونگی ۔ اس مسلح ٹریننگ کے خلاف سبھی گوشوںکو متحدہ طور پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ۔