بانگ درا میں شامل اقبال کی ایک نظم ’’رام‘’

سید یعقوب شمیم

شری رام ہندوستانی تہذیب کا وہ عظیم نمونہ ہیں جن کی شخصیت پاکیزگی ، محبت ، ایثار اور شجاعت کا حسن امتزاج تھی ۔ ہندو عقائد کے مطابق ’’رام ‘‘ وشنو بھگوان کا ساتواں اوتار تھے ، جنہوں نے اس سرزمین پر عفریت یا (Rakshas) راکشس راون کی صورت میں نشو ونما پانے والے ظلم و استبداد اور بے دینی کے رجحان کو ختم کرنے کیلئے ایودھیا کے راجا دسرتھ کے گھر جنم لیا تھا ۔
“A  Calsical Dictionary of Hindu Mythology and Religion” کے مرتب John Dowson لکھتے ہیں’’سنسکرت کی قدیم رزمیہ نظم رامائن جو 500 ق م کی تصنیف ہے، میں شاعر والمکی نے رام کو ایک ایسے مثالی انسانی کردار کے روپ میں پیش کیا جن کی عظمت ، بہادری ، ایثار اور اخلاق کا ہر کوئی قائل تھا ۔ رام کی بہادری کے سلسلہ میں سب سے پہلے وہ قصہ ملتا ہے ، جو ان کے بچپن سے متعلق ہے، ’رام‘ ابھی کمسن ہی تھے کہ مشہور رشی وشوا مترا ان کے والد راجا دسرتھ کے پاس آئے اور اس بہادر راجکمار کو اپنے ہمراہ جنگل لے جانے کی خواہش ظاہر کی تاکہ اس راکشس عورت تاریکا کا خاتمہ کیا جاسکے جو اُن رشی کی ریاضت میں خلل انداز ہورہی تھی ۔ ’رام‘ کی کمسنی کے پیش نظر راجا دسرتھ نے پہلے تو رام کو وشوا مترا کے ساتھ بھجوانے سے انکار کیا لیکن جب وشوا مترا جیسے مہا رشی نے انہیں یہ یقین دلوایا کہ یہ عظیم کارنامہ ’ رام‘ ہی انجام دے سکتے ہیں تو راجا دسرتھ نے اپنی رضامندی ظاہر کردی اور اپنے دونوں راجکماروں رام اور لکشمن کو اُن کے ہمراہ کردیا اور اس طرح ’رام‘ نے مہا رشی کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے عفریت تاریکا کو اپنے ہاتھوں سے قتل کردیا۔
’رام‘ کے حلم اور اخلاص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ طبعاً اتنے نرم خو اور خوش مزاج تھے کہ ہر ایک چھوٹے ، بڑے سے گفتگو کرنے میں پہل کرتے اور انہوں نے اپنے راج کمار ہونے پر کبھی بھی فخر نہیں کیا۔ ماں باپ کی فرمانبرداری کے جذبے کے تحت چودہ برس کے لئے تخت و تاج کو چھوڑ کر بن باس قبول کرلینے کا واقعہ رام کے ایثار کی بہترین مثال ہے  اور رام چندرجی کی شخصیت کی اس سحر انگیزی ، رنگا رنگی اور عظمت کے پیش نظر ہندو مذہب میں انہیں دیوتا یا بھگوان کا اوتار مانا گیا ہے اور رام بھکتی کو اواگون (تناسخ) کے چکر سے نکال کر نروان (نجات دلوانے کا واحد راستہ سمجھا گیا ہے۔ اقبال ’رام‘ کو قدیم ہندوستانی تہذیب کے ایک عظیم انسانی نمونے کی حیثیت سے سر زمین ہند کیلئے باعث فخر سمجھتے ہیں اور ان کی شخصیت اقبال کے نزدیک ہندوستان کیلئے مایہ ناز ہے اور وہ انہیں ’’امامِ ہند‘‘ قرار دیتے ہیں ۔ اقبال کا یہ طرز فکر ان کی ہندوستان تمدن سے گہری وابستگی اور اُن کے یکجہتی پسند مزاج کا آئینہ دار ہیں۔ خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں۔ ’’اقبال نہایت فراخدلی اور وسیع المشربی سے اس کا اقرار کرتا ہے ، اس کا دل نہ ہندوستان سے برداشتہ ہے اور نہ وہ ہندو قوم سے نفرت کرتا یا اس کی تحقیر کرتا ہے ۔ بلند پایہ نفوس کا یہ شیوہ نہیں ہے کہ وہ دوسری ملتوں کے مذہبی پیشواؤں کی تذلیل کریں اور اپنی متعصبانہ ملت پرستی میں دوسری ملتوں کے دینی اور تہذیبی کارناموں کی داد نہ دیں۔ اقبال ’’رام‘‘ کے عنوان کے تحت بانگ درا میں شامل اپنی اس نظم میں سرزمین ہند کی اس عظیم المرتبت شخصیت کو اس طرح اپنا خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
ہے رام کے وجود یہ ہندوستان کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند
اعجاز اس چراغ ہدایت کا ہے یہی
روشن تراز سحر ہے زمانہ میں شام ہند
تلوار کا دھنی تھا ، شجاعت میں مرد تھا
پاکیزگی میں جوش محبت میں فرد تھا