بال نوچ لینے والی غلطیاں اور اسکیمات

 

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کی بد نصیب غریب خواتین ، آپ کے ساتھ واردات ، دھوکہ دہی اور ایک دوسرے کے بال نوچ لینے والی اسکیمات کا سامنا ہے ۔ کے سی آر حکومت نے ریاست تلنگانہ کے قدیم تہوار بتکماں کے موقع پر غریب خواتین میں ایک کروڑ ساڑیاں تقسیم کرنے کی اسکیم بناکر اس پر عمل کرنا چاہا مگر 222 کروڑ سے خریدی گئی ساڑیوں کو ناقص اور تلنگانہ کی غریب خواتین کے ساتھ مذاق و توہین قرار دے کر بعض مقامات پر احتجاجی مظاہرے کئے گئے تو کہیں ان ساڑیوں کو نذر آتش کیا گیا ۔ احتجاجیوں نے کے سی آر حکومت کی خرابیوں کی پول کھول کر رکھدی لیکن حکومت نے اسے اپوزیشن کی شرارت قرار دے کر اپنی خرابیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ۔ حکومت اکثر غلطیاں کرتی ہے لیکن ٹی آر ایس حکومت نے فاش غلطیاں کرنا عادت بنالی ہے ۔ موجودہ سیاسی تلخی کا کچھ نہ کچھ خرابا ضرور ہوگا ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے لئے وقت آن پہونچا ہے کہ وہ سرکاری اداروں کے کام کاج اور اپنی حکومت کی اسکیمات کو روبہ عمل لانے والے عملہ کا جائزہ لیں ۔ عوام کے ووٹوں کی بے حرمتی کا عمل فوری بند کردیں ۔ حکومت کے گناہ و ثواب ، اہلیت و نا اہلی کا تعین ضروری ہے ۔ معاملہ نازک ہے ۔ غریب خواتین کے ساتھ جس طرح کا رویہ رکھا گیا اور 50 روپئے کی ساڑی کے لیے خواتین کا ایک دوسرے کے بال پکڑ کر لڑنا ایک خراب نظم و نسق کی نشاندہی کرتا ہے ۔ صدق دل سے رائے ہے کہ تلنگانہ کے قیام کے وجہ وجود ، غرض و غایت ، نظریات اور مقاصد کو ملحوظ رکھ کر کام کیا جائے ۔ چیف منسٹر نے بہ نفس نفیس عنان اقتدار سنبھالا ہے ۔ حکومت پر راست ان کی ہی گرفت ہے تو خرابیاں کیوں پیدا ہورہی ہیں ۔ حکومت کے نااہل کارندوں کی خرابیوں نے ایسے مواقع پیدا کردئیے ہیں کہ اپوزیشن پارٹیاں گدھیں بن کر حکومت کو نوچنے کے لیے منڈلا رہی ہیں ۔ سیاسی افراتفری پیدا کرنے کا موقع تلاش کیا جارہا ہے ۔ چیف منسٹر کو ماضی کی حکومتوں کی غلطیوں اور تلنگانہ عوام کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کا اندازہ ہے ۔ اس کے باوجود وہ بھی اقتدار پر پر آنے کے بعد جب تلنگانہ عوام کے ساتھ زیادتیاں ہوتی ہیں تو اس پر افسوس ہوتا ہے ۔ بات غور طلب ہے ۔ چیف منسٹر کو ذہنی بلوغت کا مشورہ تو نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ ان کے اندر سیاسی پختگی پائی جاتی ہے ۔ حالانکہ چیف منسٹر کی حیثیت سے انہوں نے اچھی قسمت پائی ہے کہ سب ان پر نثار ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کی حکومت کے وزراء نے بھی کیا قسمت پائی ہے ہزار خرابیوں کے باوجود اپنا الو سیدھا کرلیتے ہیں ۔ یہ نئی ریاست کس کس بلا کی زد میں ہے اس کی تفصیل میں جانا بھی ایک بلا سے ٹکرانا ہے ۔ سردست بی جے پی کے بڑھتے عزائم اور حکومت کی گرتی ساکھ چاروں طرف دکھائی دے رہی ہے ۔ تھوڑی دیر کے لیے یہ تصور کرلیں کہ اس حکومت میں کسی کو کوئی تکلیف نہیں ۔ ہر انسان خوش ہے ۔ خراب ناقص ساڑیاں لینے کے لیے خواتین امڈ پڑتی ہیں اور 50 روپئے کی خاطر ایک دوسرے کو نوچ لینے کے لیے دوڑ پڑتی ہیں ۔ حکمران ٹی آر ایس کو اپنی غلطیوں کا جائزہ لینے کے بجائے اپوزیشن پارٹیوں کانگریس ، تلگو دیشم اور بی جے پی کے ساتھ لفظی جنگ میں مصروف دیکھا جارہا ہے ۔ اصل اپوزیشن پارٹی کانگریس کا یہ الزام ہے کہ ریاستی حکومت نے غریب خواتین کی توہین کی ہے ۔ ان غریبوں کو غیر معیاری ساڑیاں دے کر ان کے ساتھ مذاق کیا گیا ہے ۔ صدر پردیش کانگریس این اتم کمار ریڈی ہوں یا تلگو دیشم تلنگانہ یونٹ کے کارگزار صدر اے ریونت ریڈی اور بی جے پی ترجمان کولی مادھوی نے یہی الزام عائد کیا ہے کہ ٹی آر ایس حکومت غیر معیاری اور ناقص ساڑیاں سربراہ کرنے عوام کے پیسہ کو ضائع کیا گیا ہے ۔

یہ خواتین غیر معیاری ساڑی حصول کرنے کے لیے گھنٹوں قطار میں کھڑی رہیں تھیں جب کہ کہا گیا تھا کہ راشن شاپس پر ساڑیوں کی تقسیم عمل میں لائی جائے گی ۔ یہ فیصلہ درست تھا کیوں کہ راشن شاپس پر اس علاقہ کے غریب عوام کا ریکارڈ رہتا ہے اور اس دکان کے ذریعہ ساڑیوں کی تقسیم کا نظم پرسکون طور پر پورا ہوسکتا تھا مگر سیاسی تشہیر اور خواتین کے ہجوم کو کھلے میدانوں میں جمع کر کے ساڑیاں دینے کا اعلان تکلیف دہ ثابت ہوا ۔ حیدرآباد کے علاقہ سعید آباد میں مفت ساڑیوں کی تقسیم کے ایک کاونٹر کے قریب خواتین کو لڑتے ہوئے ویڈیو کو وائرل کیا گیا ۔ اس ویڈیو کو بعض مقامی نیوز چیانلوں نے بار بار بتایا ۔ اس واقعہ کو چیف منسٹر نے اپوزیشن کی شرارت قرار دے کر معاملہ کو غیر اہم قرار دیا ۔ 31 اضلاع کے کلکٹرس کو ساڑیوں کی تقسیم پروگرام کا انچارج بنایا گیا تھا ۔ ٹیکسٹائیل کمشنر شیلاجہ رام ائیر نے ساڑیوں کی بیرون ریاست سے خریدی کے بارے میں بتایا کہ سرسلہ میں بافندوں سے 50 لاکھ ساڑیاں خریدی گئیں تھیں جب کہ ماباقی ساڑیاں سورت سے خریدی گئیں ۔ حکومت کی سطح پر ہونے والی اس طرح کی دھاندلیوں اور اسکام کا فائدہ اٹھانے کا اپوزیشن کو موقع مل گیا ہے اب اپوزیشن ، حکمراں پارٹی کی خرابیوں سے کو واقف کروانے کے لیے خاص کر کانگریس پارٹی نے ریاستی کسانوں کو متحرک کرنے پر توجہ دی ہے ۔ اس کے کیڈرس کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ کسانوں کی مدد کرتے ہوئے حکومت کی متعدد اسکیمات سے استفادہ کرانے میں رہنمائی کریں ۔ اس پروگرام کو اندراماں رعیتو باٹا کا نام دیا گیا ۔ جس میں 100 روز کے لیے کیڈر ٹریننگ بھی دی جائے گی ۔ پارٹی کے قائدین ریاست کے تمام 31 اضلاع کا دورہ کریں گے اور ورکرس ، کسانوں اور عوام سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کی ناکامیوں کی جانب توجہ مبذول کرائیں گے ۔ کانگریس نے تو اپنا محاذ کھول دیا ہے ۔ جب کہ تلنگانہ تلگو دیشم کا ریاستی یونٹ ہنوز موثر رول ادا کرتے ہوئے ناکام ہے اور بی جے پی کے ریاستی قائدین کو مایوسی ہورہی ہے کہ وہ حکمراں ٹی آر ایس کے خلاف مورچہ بندی کررہے ہیں ۔ مگر ان کی مرکزی قیادت تلنگانہ حکومت کی پالیسیوں کی ستائش کر کے ریاست میں بی جے پی کے علاقائی قائدین کی محنت پر پانی پھیر رہے ہیں ۔ آنے والے 2019 کے انتخابات میں کامیابی کے لیے بی جے پی کو اچھا کام کرنا ہے ۔ اگر مرکزی وزراء کا ریاستی حکومت کے تئیں مثبت رویہ ہے تو پارٹی کی امیج متاثر ہوگی ۔ واضح رہے کہ حال ہی میں ڈپٹی چیف منسٹر بہار سشیل کمار اور ان کے ساتھی وزیر صحت منگل پانڈے نے ٹی آر ایس حکومت کی صحت اسکیمات کی ستائش کی تھی ۔ ایک طرف بی جے پی صدر امیت شاہ تلنگانہ بی جے پی قائدین پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنی کوششوں کے ذریعہ بی جے پی کو کامیاب بنانے کو یقینی بنائیں ، تلنگانہ میں اپوزیشن پارٹیوں کی صورتحال مختلف ہوتی جارہی ہے ۔ حکمراں پارٹی اپوزیشن کے ساتھ خواہ مخواہ کی جنگ لڑتے اور زخم کھاتے ہوئے اپنے امکانات کو موہوم کرتے جارہی ہے ۔ درحقیقت چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے منشاء کے مطابق پالیسیوں کو روبہ عمل لایا جارہا ہے ۔ مگر اس میں بڑے پیمانے کی دھاندلیوں کا جائزہ لینے کے لیے چیف منسٹر کے پاس وقت نہیں ہے ممکن ہے کہ آئندہ عام انتخابات سے پہلے حکمراں ٹی آر ایس اپنی فعالیت کو درست سیدھ میں لے جائے تو اپوزیشن کا مشورہ ماند پڑ جائے گا ۔۔
kbaig92@gmail.com