بالآخر اسمبلی میں تلنگانہ پر مباحث کا آغاز اسمبلی انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں؟

محمد نعیم وجاہت
آزاد ہندوستان کی 29 ویں ریاست کی تشکیل کے لئے آندھرا پردیش اسمبلی اور کونسل میں بالآخر بحث کا آغاز ہو چکا ہے۔ ارکان اسمبلی و قانون ساز کونسل، تلنگانہ بل میں ترمیم یا اسے مسترد کرنے کا اختیار نہیں رکھتے، صرف مباحث میں حصہ لے کر اپنی رائے پیش کرسکتے ہیں یا بل کی خامیوں و نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے ترمیم کی سفارش کرسکتے ہیں۔ کسی بھی ریاست کی تقسیم کا مرکز کو مکمل اختیار ہے، دستور ہند کے آرٹیکل 3 کے تحت مرکزی حکومت پارلیمنٹ میں بل پیش کرتے ہوئے ریاستوں کی تقسیم کا اختیار رکھتی ہے، تاہم ریاستی اسمبلیوں کی منظوری مل جائے تو مزید بہتر ہو سکتا ہے۔

دستور سازوں نے 60 سال قبل ہی دُور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو ریاستوں کی تقسیم کا اختیار دیا ہے۔ انھیں اندازہ تھا کہ اکثریتی رائے ہمیشہ اقلیتی رائے پر غالب رہتی ہے، لہذا اقلیتی رائے سے انصاف کے لئے آرٹیکل 3 کو دستور ہند میں شامل کیا گیا۔ ہندوستانی دستور نے اظہار خیال کی مکمل آزادی دی ہے، ہر شخص اپنا خیال پیش کرسکتا ہے، لیکن کسی کے خیال کو غلط ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرسکتا۔

کانگریس، تلگودیشم اور وائی ایس آر کانگریس کی پالیسیاں ایک دوسرے سے جدا ہیں اور یہ تینوں جماعتیں ایک دوسرے کو برداشت بھی نہیں کرتیں۔ اسمبلی اور عوامی پلیٹ فارم پر ایک دوسرے پر تنقید کرکے سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مگر جہاں تک تلنگانہ کا معاملہ ہے تینوں جماعتیں اپنے اصولوں اور ایجنڈوں کو فراموش کرکے ایک دوسرے کو گلے لگا رہی ہیں، جب کہ علحدہ تلنگانہ ریاست کی تحریک کو پروان چڑھانے کے معاملے میں تینوں جماعتوں نے غیر معمولی رول ادا کیا تھا۔ آج یہ جماعتیں جس طرح متحدہ آندھرا کی تائید کر رہی ہیں، ماضی میں تلنگانہ کی بھی اسی طرح تائید کی تھی۔

2004ء میں کانگریس نے تلنگانہ کا واحد ایجنڈا رکھنے والی ٹی آر ایس سے اتحاد کرتے ہوئے تلنگانہ کی تائید کا اشارہ دیا تھا۔ تلنگانہ پر یو پی اے کی سب کمیٹی تشکیل دی، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدر جمہوریہ نے اپنے خطبہ میں تلنگانہ پر مناسب وقت پر صحیح فیصلہ کرنے کا اعلان کیا، سیما۔ آندھرا کے کانگریس قائدین نے 8 دسمبر 2009ء تک کوئی اعتراض نہ ہونے کا ادعا کیا، تاہم جیسے ہی 9 دسمبر 2009ء کو مسٹر پی چدمبرم نے علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کا اعلان کیا، اس کی مخالفت شروع ہو گئی۔

2004ء کے عام انتخابات میں متحدہ آندھرا کا انتخابی منشور جاری کرنے والی تلگودیشم نے 2009ء کے عام انتخابات میں تلنگانہ مسئلہ کو اپنے ایجنڈا میں شامل کیا اور ٹی آر ایس سے اتحاد کرکے مقابلہ کیا۔ جس طرح 2004ء میں سیما۔ آندھرا کے کانگریس قائدین نے ٹی آر ایس سے اتحاد پر کوئی اعتراض نہیں کیا، اسی طرح 2009ء کے عام انتخابات میں تلنگانہ کی تائید کرنے پر سیما۔ آندھرا کے تلگودیشم قائدین نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ مذکورہ دونوں انتخابات کے موقع پر تلنگانہ کی تائید یا ٹی آر ایس کے ساتھ اتحاد پر سیما۔ آندھرا میں کانگریس اور تلگودیشم کو عوامی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، بلکہ دونوں جماعتوں کے ارکان اسمبلی اور ارکان پارلیمنٹ کامیاب ہوئے۔

جگن موہن ریڈی جب کانگریس کے رکن پارلیمنٹ تھے تو انھوں نے پارلیمنٹ میں تلنگانہ کے خلاف پلے کارڈ تھام کر مظاہرہ کیا تھا، جب کہ وائی ایس آر کانگریس کی تشکیل کے بعد تلنگانہ پر کوئی اعتراض نہ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے انھوں نے تلنگانہ کے لئے جان قربان کرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا اور مرکز کو دستور ہند کے آرٹیکل 3 کے تحت ریاست کی تقسیم اور تلنگانہ ریاست کی تشکیل کا مشورہ دیا تھا، تاہم آج وہ ریاست کی تقسیم کی نہ صرف مخالفت کر رہے ہیں، بلکہ آرٹیکل 3 کے بیجا استعمال کا مرکزی حکومت پر الزام عائد کر رہے ہیں۔
کانگریس نے سی ڈبلیو سی کے اجلاس میں علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کا فیصلہ کیا۔ بعد ازاں یو پی اے حکومت نے تلنگانہ مسودہ بل تیار کیا، جس کو صدر جمہوریہ نے اسمبلی روانہ کرتے ہوئے 23 جنوری تک اپنی رائے پیش کرنے ارکان اسمبلی کو مہلت دی ہے۔ چیف منسٹر کا عہدہ قبول کرتے ہوئے تلنگانہ معاملے میں کانگریس ہائی کمان کا فیصلہ قبول کرنے اور اس پر عمل آوری کا وعدہ کرنے والے کرن کمار ریڈی نے تلنگانہ کا فیصلہ ہوتے ہی اس کی مخالفت شروع کردی اور تلنگانہ مسودہ بل کو اسمبلی میں شکست سے دوچار کرنے کی حکمت عملی کے علاوہ سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔

مرکزی حکومت کی جانب سے تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے اعلان کے بعد سربراہ تلگودیشم این چندرا بابو نائیڈو نے اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے سیما۔ آندھرا کی ترقی کے لئے 5 لاکھ کروڑ روپئے کے پیکیج کا مرکز سے مطالبہ کیا تھا، تاہم چیف منسٹر اور سیما۔ آندھرا کے کانگریس قائدین کی بغاوت دیکھ کر وہ بھی متحدہ آندھرا کی تائید کرنے لگے۔ اسی طرح وائی ایس آر کانگریس نے پہلے مساویانہ تقسیم کا مطالبہ کیا، پھر متحدہ آندھرا کی تائید کرنے لگی۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ تینوں جماعتیں عوامی جذبات سے فائدہ اٹھانے کے لئے اصولوں، اقدار اور رہنمایانہ خطوط کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ یعنی جس وقت تلنگانہ کا جذبہ تھا، اس وقت تلنگانہ کی تائید کی گئی اور جب تلنگانہ ریاست کی تشکیل کا اعلان ہو گیا تو سیما۔ آندھرا عوام کی تائید حاصل کرنے کے لئے متحدہ آندھرا کی تائید کی جا رہی ہے۔

تلنگانہ اور متحدہ آندھرا کی تحریک میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ تلنگانہ تحریک میں شدت پیدا کرنے کے لئے ہزاروں نوجوانوں نے اپنی زندگیاں قربان کی ہیں، جب کہ سیما۔ آندھرا تحریک میں کوئی دم خم نہیں ہے۔ حیدرآباد اور علاقہ تلنگانہ میں سرمایہ کاری کرنے والے چند سیاسی قائدین اس تحریک کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور سیما۔ آندھرا کے نوجوانوں اور طلبہ کو گمراہ کرتے ہوئے انھیں متحدہ آندھرا کی تحریک میں زبردستی شامل کر رہے ہیں۔ چیف منسٹر بھی غیر جانبدار ہونے کی بجائے متحدہ آندھرا کی تائید کرتے ہوئے تحریک کو فروغ دے رہے ہیں اور سرکاری ملازمین و نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، جب کہ تلنگانہ تحریک میں شامل رہنے والے کانگریس ارکان پارلیمنٹ کو گرفتار کیا گیا تھا، نوجوانوں اور طلبہ کے خلاف مقدمات درج کئے گئے، تلنگانہ کی عام ہڑتال ختم کرانے کی سازش کی گئی، تاہم اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی تلگانہ کی تشکیل میں کوئی رکاوٹ نہیں پیدا کرسکے۔ اب اسمبلی میں تلنگانہ مسودہ بل کو شکست ہو یا کامیابی، تلنگانہ ریاست کی تشکیل پر اس کا کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے۔ پہلے تلنگانہ بل راجیہ سبھا میں پیش ہوگا اور اگر حالات سازگار رہے تو فروری کے تیسرے ہفتہ میں پارلیمنٹ میں بھی منظور ہوگا۔
یہ بھی پتہ چلا ہے کہ 2014ء میں صرف پارلیمانی انتخابات ہوں گے، جب کہ اسمبلی انتخابات 6 ماہ تک کے لئے ملتوی ہو سکتے ہے، تاکہ ریاست کی تقسیم کے تمام مراحل پورے ہو سکیں۔ کانگریس ذرائع کے بموجب تلنگانہ ریاست کی تشکیل میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، سب کچھ شیڈول کے مطابق ہوگا۔ کانگریس ہائی کمان کے پاس حکمت عملی موجود ہے، صرف چیف منسٹر کو چھوٹ دی جا رہی ہے، تاہم کس سے کیا کام لینا ہے؟ کانگریس نے پہلے ہی منصوبہ بندی کرلی ہے۔
چیف منسٹر کرن کمار ریڈی ریاست کی تقسیم کے خلاف ہیں، وہ عام انتخابات تک ریاست کی تقسیم روکنے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔ چیف منسٹر نے تلنگانہ بل پر مباحث کے لئے جان بوجھ کر تاخیر کی اور ایک منظم سازش کے تحت تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے ریاستی وزیر سریدھر بابو کو امور مقننہ کے عہدہ سے ہٹاکر تلنگانہ کے مخالف شیلجہ ناتھ کو امور مقننہ کی زائد ذمہ داری سونپ دی، تاکہ اسمبلی میں تلنگانہ کے خلاف من مانی کی جاسکے۔ یہ بھی سنا جا رہا ہے کہ کرن کمار ریڈی 23 جنوری کے بعد کانگریس سے مستعفی ہوکر نئی سیاسی جماعت تشکیل دیں گے، جس کی توثیق کانگریس وزراء اور ارکان اسمبلی نے تو کی ہے، تاہم چیف منسٹر ان افواہوں کی تردید یا توثیق نہیں کر رہے ہیں۔
ایک پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ چیف منسٹر 23 جنوری کے بعد صدر جمہوریہ سے مباحث کے لئے مزید وقت طلب کرسکتے ہیں اور وقت نہ ملنے کی صورت میں گورنر سے اسمبلی کی تحلیل کی سفارش کرسکتے ہیں، جس کے بعد وہ عام انتخابات تک انچارج چیف منسٹر کی حیثیت سے برقرار رہیں گے، جب کہ کانگریس پارٹی کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ ریاست میں صدر راج کے نفاذ کی سفارش کرسکتی ہے۔
nayeem_wajahat@yahoo.co.in