بات پھولوں کی

میرا کالم سید امتیاز الدین
پھولوں سے ہماری وابستگی واجبی واجبی سی ہے ۔ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے تو تاریخ کی کتاب میں اکثر مغل بادشاہوں کی تصویر دیکھتے تھے ، جس میں بادشاہ گلاب کا پھول سونگھتے ہوئے دکھایا جاتا تھا ۔ ہم سوچتے تھے کہ اگر بادشاہ پھول سونگھنے میں وقت گنواتا تھا تو حکومت کب کرتا تھا ۔ بہادر شاہ ظفر کے زمانے تک کیمرہ ایجاد ہوچکا تھا ، لیکن اس وقت تک مغلیہ سلطنت سوکھ کر کانٹا ہوچکی تھی ۔ البتہ ہم نے اپنے پہلے وزیراعظم جواہرلال نہرو کو ہمیشہ شیروانی کے کاج میں گلاب کا پھول سجائے ہوئے دیکھا ۔ سچ پوچھئے تو نہرو جیسا وزیراعظم صدیوں میں کبھی پیدا ہوتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ نہرو جب صبح میں اپنے دفتر کے لئے نکلتے تھے تو ایک بچّی گلاب کا پھول اُن کی شیروانی کے کاج میں لگادیتی تھی ۔ نہرو کو بچوں سے بھی محبت تھی اور پھولوں سے بھی ۔ اُن کو گلاب کا پھول بہت پسند تھا ۔ اس طرح گلاب کا پھول اور شیروانی ان کی شناخت بن گئے ۔ دنیا میں جتنے قسم کے پھول ہوتے ہیں ان میں گلاب سب سے زیادہ خوبصورت پھول سمجھا جاتا ہے ۔

اس ساری تمہید کی اصل وجہ یہ ہے کہ آج سے آٹھ دس دن پہلے ہمارے بزرگ اور کرم فرما نواب شاہ عالم خان صاحب نے ہمیں فون پر بتایا کہ 2 ڈسمبر منگل کے دن اُن کے فارم ہاؤس پر گلابوں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا ہے ، جس میں مجتبیٰ حسین صاحب کو اور ہمیں شرکت کرنی ہے۔ انھوں نے یہ شرط بھی رکھی کہ ہم عصر کی نماز ان کے باغ میں پڑھیں اور عشاء کے بعد عشائیہ میں شرکت کرکے واپس ہوں ۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ گلابوں کی یہ نگری یعنی ان کا فارم ہاؤس کہاں واقع ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ یہ فارم چیوڑلہ سے آگے مَنّے گوڑہ میں واقع ہے ۔ اس سے پہلے کہ ہم ہکلاتے ہوئے دوری کا بہانہ کرتے انھوں نے ہماری معلومات میں مزید اضافہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کو اور مجتبیٰ حسین صاحب کو گھر سے بحفاظت لے جانے اور واپس چھوڑنے کا انتظام میں نے افتخار حسین صاحب (نوری ٹراویلس) کے سپرد کردیا ہے ۔ اس لئے آپ دونوں کے لئے بہانہ بازی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ ابھی نواب صاحب کا فون ختم ہوا تھا کہ افتخار حسین صاحب کا فون آگیا کہ 2 ڈسمبر کو دوپہر دو بجے گاڑی آپ حضرات کو لینے پہنچ جائے گی ۔ تیار رہئے ۔ ہم نے ان سے کہا کہ ہمیں عصر تک وہاں پہنچنا ہے ۔ پھر اتنی جلدی کیا ہے کہ آپ دو بجے گاڑی بھیج دیں ۔ افتخار صاحب نے کسی جہاں دیدہ بزرگ کی طرح فرمایا ’’قبلہ آپ کو فاصلے کا اندازہ نہیں ہے ، ستّر اسّی کیلومیٹر کا سفر ہے ۔ پہنچتے پہنچتے دو گھنٹے تو لگ ہی جائیں گے‘‘ ۔ ہم کو یہ بات کچھ عجیب سی لگی ۔ دو تاریخ ، دو مسافر ، دو بجے دن وقت روانگی اور دو گھنٹے کا سفر‘‘ ۔ ہم نے مجتبیٰ حسین صاحب کو فون کیا تو وہ بھی ان ساری تفصیلات سے پہلے سے باخبر تھے ۔ کہنے لگے ’’بھئی کیا بتاؤں ، تم جانتے ہو میری صحت اچھی نہیں ہے ۔ زیادہ چل پھر نہیں سکتا ۔ مُرغن غذاؤں سے رغبت مطلق نہیں ہے ۔ نواب شاہ عالم خاں صاحب کی بات ٹال نہیں سکتا ۔ چلوں گا لیکن باغ میں گھوم نہیں سکتا ۔ کچھ کھاؤں گا بھی نہیں‘‘ ۔ لیکن کمال دیکھئے کہ تاریخِ مقررہ پر ہم سے پہلے مجتبیٰ صاحب تیار تھے ۔ فارم ہاؤس میں انھوں نے گلاب کے پھولوں کا بھی بغور مشاہدہ کیا اور شاندار ضیافت کا بھی کماحقہ لطف اٹھایا ۔ ہم نے مصلحت اسی میں سمجھی کہ نہ اُن کی صحت کے بارے میں اُن سے بات کریں اور نہ مُرغن غذاؤں کے تعلق سے اُن کی بے رغبتی کا ذکر چھیڑیں ۔

اب آیئے کچھ گلابوں کے اس عالمی میلے کی بات کریں جو 29 نومبر 2014 سے 2 ڈسمبر تک حیدرآباد میں منعقد ہوا ۔ ورلڈ فیڈریشن آف روز سوسائٹی کا یہ تیسرا علاقائی اجتماع تھا ، جو انڈین روز فیڈریشن اور حیدرآباد روز سوسائٹی کے اشتراک سے منعقد ہوا ۔ نواب شاہ عالم خان کے فرزند احمد عالم خان جو انڈین روز فیڈریشن کے صدر اور ورلڈ فیڈریشن آف روز سوسائٹی کے نائب صدر ہیں ، اس کنونشن کے کنوینر تھے ۔ چین ، جاپان ، امریکہ ، آسٹریلیا ، بلجیم ، اٹلی ، پاکستان ، یوروگوے ، ملیشیا ، سنگاپور ، مصر ، سوئٹزرلینڈ اور دیگر ممالک کے پچھتر نمائندے اس کنونشن میں شریک ہوئے ۔ خود ہمارے ملک کے مختلف شہروں سے آٹھ سو نمائندے اس موقع پر موجود تھے ۔ بیرونی ممالک کے نمائندے اس روز شو میں نمائش کے لئے رنگ برنگے گلابوں کے نمونے اپنے ساتھ لائے تھے ۔ ریاست تلنگانہ کے ڈپٹی چیف منسٹر نے اس کنونشن اور روز شو کا افتتاح کیا ۔ حکومت تلنگانہ نے اس کنونشن کا تعاون کیا ۔ مختلف اجلاسوں کو عالمی شہرت یافتہ مقررین نے مخاطب کیا ۔ اس کنونشن کا مرکزی خیال تھا ’’گلابوں کی قدیم دنیا کی نئی روشنی‘‘ ۔ مسٹر سی وی جونس صدر عالمی روز سوسائٹی نے اپنی اختتامی تقریر میں کہا کہ انھوں نے کئی کنونشن دیکھے ہیں ، لیکن حیدرآباد کا یہ کنونشن سب سے اچھا رہا ۔

2 ڈسمبر کے فنکشن جس میں ہم شریک ہوئے وہ کنونشن کا آخری دن تھا ۔ ہم شام ساڑھے چاربجے منّے گوڑہ پہنچے ۔ شام بہت سہانی تھی ۔ مہمانوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے ماحول بہت بارونق لگ رہا تھا ۔ ہم جب فارم ہاؤس میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ تقریباً دو یا تین ایکڑ کے رقبے پر گلاب ہی گلاب دکھائی دے رہے ہیں ۔ یہ احمد عالم خان کا تیار کردہ خصوصی گلاب گارڈن کا دل فریب منظر تھا ۔ ہم نے بھی بعض گلاب کے باغیچے دیکھے ہیں لیکن یہاں بات ہی کچھ اور تھی ۔ گلابوں کی پچیس ہزار قسمیں یہاں لگائی گئی تھیں ۔ گلابوں کے اس وسیع و عریض قطعے کے بیچوں بیچ ایک دل کش فوارہ نہایت بھلا لگ رہا تھا ۔ گلابوں کی اتنی قسمیں ہم نے اب تک دیکھی نہیں تھیں ۔ ہم نے سمجھا کہ شاید حیرت کا یہ عالم ہمیں پر گزر رہا ہے ، لیکن ہم نے دیکھا کہ کئی جہاں دیدہ لوگ جنھوں نے دنیا بھر کے گلابوں کے باغ دیکھے ہیں ، اُن پر بھی حیرت کا عالم طاری تھا ۔ ڈاکٹر شمشاد حسین جو خود بھی پھولوں کے شائق ہیں اور دنیا بھر کے باغات دیکھ چکے ہیں مجھ سے کہنے لگے کہ انھوں نے یوروپ اور امریکہ کے باغات کی سیر کی ہے ، لیکن ایسا دلفریب منظر پہلی دفعہ دیکھ رہے ہیں ۔ کمال یہ ہے کہ یہ سارا باغ چار مہینے کی مختصر مدت میں تیار ہوا تھا۔ احمد عالم خان نے بتایا کہ اس حیرت انگیز کارنامے کی تکمیل میں ان کے معتمد خاص وجئے کانت کی شبانہ روز محنت کا بھی بڑا دخل ہے ۔ انھوں نے شریمتی گرجاویر راگھون کا بھی شکریہ ادا کیا ۔ ہم نے سوچا کہ احمد عالم خاں صاحب کو یہ سلیقہ اور ایسا ذوق کہاں سے ملا ہوگا ۔ عام مشاہدہ ہے کہ بیٹا بہت کچھ باپ سے حاصل کرتا ہے ۔ نواب شاہ عالم خان صاحب کو بھی گلابوں کا نہایت شوق ہے ۔ شاہ عالم صاحب نے مجھے بتایا تھاکہ وہ کئی برسوں تک روزسوسائٹی کے پریسیڈنٹ رہے ۔ ایک بار سابق چیف منسٹر چناریڈی صاحب نے ان سے کہا کہ گلابوں کے تعلق سے آپ کا تجربہ اتنا وسیع ہے کہ بعض گلاب آپ کے نام سے معنون کئے گئے ہیں اور کئی بین الاقوامی روز شوز کے آپ جج رہ چکے ہیں ۔ اب مناسب ہے کہ آپ کسی نوجوان کو تربیت دیں اور اسے تجربہ حاصل کرنے دیں ۔ کیا پتہ شاہ عالم خان صاحب نے احمد عالم خان کو اپنی تربیت کا فیض پہنچایا ہو کہ آج احمد عالم اس مقام پر ہیں ۔

بہرحال ایک صنعت کار کا یہ ذوق سلیم حیرت انگیز بھی ہے اور قابل تعریف بھی ۔ ہم کو خیال آیا کہ اردو کے ادیب شاعر بھی پھولوں کی مدح سرائی میں کسی سے پیچھے نہیں ، لیکن کیا کسی ادیب یا شاعر نے گلابوں کے باغ لگائے ہیں ۔ ہم کو یاد آیا کہ اردو کے مشہور ادیب رشید احمد صدیقی کو گلابوں کا بہت شوق تھا۔ ان کے بچپن کے دوست اور ہم جماعت ڈاکٹر ذاکر حسین جب کسی کام سے جرمنی جانے لگے تو رشید صاحب نے ان سے خواہش کی کہ واپسی میں ذاکر صاحب ان کے لئے جرمنی سے گلاب کی قلمیں لائیں ۔ رشید صاحب کو گلابوں کا اتنا شوق تھا کہ انھوں نے ذاکر صاحب کے جانے کے بعد انھیں یاد دہانی کا خط بھی بھیجا ۔ ذاکر صاحب نے جواب میں لکھا ’’مجھے اِن دنوں گُل رُخوں سے فرصت نہیں ہے ۔ گلابوں کو کیا یاد رکھوں‘‘ ۔ اس کے باوجود بھی ذاکر صاحب نے دوست کی فرمائش کو یاد رکھا اور لوٹتے ہوئے رشید صاحب کے لئے گلاب کی قلمیں لادیں ۔ اس کے برخلاف میر تقی میر کسی نواب کے مہمان ہوئے تو نواب صاحب نے انھیں ایسا کمرہ رہنے کے لئے دیا تھا جس کے کھڑکی نواب کے باغ میں کھلتی تھی ۔میر صاحب ہمیشہ کمرے کی کھڑکی بند رکھتے تھے ۔ نواب نے وجہ پوچھی تو میر صاحب نے جواب دیا کہ ’’مجھے چمنستانِ شعر و ادب سے فرصت نہیں ہے آپ کا باغ کیا دیکھوں‘‘ ۔

بہرحال اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے سوچا کہ کچھ بیرونی مہمانوں سے بھی بات کرلی جائے ۔ ہمارے قریب دو جاپانی ڈیلیگیٹ بیٹھے تھے ، جن میں سے ایک خاتون تھیں ۔ ہم نے جاپانی خاتون سے اس کے تاثرات پوچھے ۔ اس نے نہایت خوشی سے جواب دیا کہ اس نے ایسے نادر و نایاب گلاب اب تک نہیں دیکھے تھے ۔ ممکن تھا کہ بات پھولوں کی دیر تک چلتی لیکن اچانک اُسے احساس ہوا کہ اس کا آئی پیڈ I-Pad کہیں گُم ہوگیا ہے ۔ اس نے اپنا بیگ ٹٹولا اور پریشانی کے عالم میں کسی میزبان سے معاملے کی رپورٹ کرنے چلی گئی ۔ جب وہ واپس آئی تو ہم سوچ میں پڑگئے کہ اس سے آئی پیڈ کے بارے میں بات کی جائے یا گلابوں کا ذکر چھیڑا جائے ۔ لیکن وہ ہمیں اتنی پریشان لگی کہ ہم نے خاموش رہنا مناسب سمجھا ۔

جلسے کے آخر میں کلچرل پروگرام پیش کیا گیا ، جس میں ایک خوش گُلو فنکار نے ابتدا میں محمد رفیع کے نغمے پیش کئے ۔ ہم نے سوچا کہ رفیع موسیقی کی دنیا کا ایسا گلاب ہے جو شاخ سے ٹوٹ کر بھی نہیں مُرجھایا ۔
عشائیہ میں نواب شاہ عالم خان صاحب نے ہم طعامی کے لئے اپنے شامیانے میں بلوالیا ۔ میز پر اتنے لوازمات چنے ہوئے تھے کہ اگر ہم ہر چیز کھاتے تو آج یہ کالم لکھنے کے قابل نہ رہتے ۔ ہر چیز نہایت عمدہ تھی ۔ میٹھے پانچ تھے ۔ چونکہ ہم شکر کے مریض ہیں اس لئے ہم نے صرف چار میٹھے کھائے (پانچویں میٹھے پر ہماری نظر اُس وقت پڑی جب ہم دسترخوان سے اُٹھ چکے تھے) بادلِ ناخواستہ دل کو سمجھایا کہ ضبطِ نفس بدپرہیزی سے بہتر ہے ۔ رات کے ساڑھے نو بج رہے تھے ۔ سردی شباب پر تھی لیکن میزبانوں کی گرم جوشی ہمارے ساتھ تھی ۔ آرام سے ساڑھے گیارہ بجے گھر پہنچے اور لمبی تان کر سوگئے ۔