بات پکوڑے کی

مزمل گلریز
تلہن کے ذریعہ تیار کی جانے والی نمکین اشیاء میں پکوڑی کو خاص مقام حاصل ہے جسے کافی پسند کیا جاتا ہے جو اکثر شام کی چائے کے ساتھ کھائی جاتی ہے ۔ عام طور پر پکوڑی پیاز اور پالک سے تیار کی جاتی ہے ۔ پکوڑی کو ہم مونث کہہ سکتے ہیں ۔ کیونکہ تھوڑے ردوبدل کے ذریعہ تیار کی جانے والی دوسری شئے کو ہم پکوڑا یا پکوڑے کہہ سکتے ہیں ۔ پکوڑے عام طور پر مٹھائی کی دوکانوں یا بازار میں لگائی جانی والی بنڈیوں پر تیار کئے جاتے ہیں اور کیا بچے ‘ کیا بوڑھے سبھی شوق سے کھاتے ہیں ۔ پکوڑے عام سی نمکین شئے ہے لیکن جب جب کسی مشہور آدمی نیتایا فلم ایکٹر نے اس کا استعمال کیا یا اس کے بارے میں اظہار خیال کیا تو اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔ جیسے ڈمپل کپاڈیہ کی پہلی فلم ’’بابی‘‘ میں ڈمپل کو چنے کھاتے دکھایا گیا تو اس وقت چنے بیچنے والے چنے کو ڈمپل کپاڈیہ کے نام سے فروخت کرتے تھے اور یہ سلسلہ کئی سال تک چلتا رہا ۔ پکوڑے کو ملک گیر بلکہ عالم گیر سطح پر شہرت اس لئے ہوگئی کہ ہمارے وزیراعظم نریندر مودی نے بیروزگار نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ بازار میں پکوڑے فروخت کر کے روزآنہ 200روپئے کماسکتے ہیں ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ نوجوانوں کو روزگار تو فراہم نہ کرسکے تو کم از کم پکوڑے بیچنے کا ’’ زرین ‘‘ مشورہ تو دیا جس کی وجہ سے پکوڑے ’’ ٹاک آف دی کنٹری ‘‘ بن گئے اور ہرکس و ناکس پکوڑے پر دل کھول کر تبصرہ کرنے لگے بلکہ پکوڑے کھاکھاکر تبصرہ کرنے لگے اور پکوڑوں کی فروخت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ۔ پکوڑے بیچنے والوں کے چہرے خوشی سے دمکنے لگے ۔ ہمارے ملک میں اپوزیشن پارٹیوں کا کام حکومت پر صرف تنقید کرنا ہے کیونکہ اس کے سوا انہیں کوئی اور کام نہیں آتا ۔ وزیراعظم کی جانب سے بیروزگار نوجوانوں کو پکوڑے بیچنے کا مشورہ ‘ حزب مخالف کو گویا ایک نیا مشغلہ ہاتھ آیا اور وہ وزیراعظم پر تنقیدوں کے تیر برسانے لگے ۔
یہ اور بات ہے ان تنقیدوں کا وزیراعظم پر کوئی اثر نہیں ہوا ‘ وہ ان سب باتوں سے بے نیاز دوبارہ بیرونی ممالک دوروں پر مصروف ہوگئے ‘یہی تو وہ اہم کام ہے جسے وہ بخوبی انجام دے رہے ہیں ‘ خواہ اس کے بہتر نتائج حاصل ہوں یا نہ ہوں ۔ عام طور پر پارلیمنٹ میں اہم مسائل پر مباحث ہوتے ہیں ‘ قانون بنائے جاتے ہیں لیکن پکوڑوں کی گونج پارلیمنٹ میں بھی زور و شور سے سنائی دینے لگی تھی اور اپنے وزیراعظم کی حمایت میں بی جے پی قائد امیت شاہ نے خوب زبان چلائی تھی ۔ پکوڑوں کا استعمال فلموں میں بھی دکھایا گیا ۔ کامیڈین محمود کی فلم ’’ بمبئی ٹو گوا ‘‘ پکوڑے کھاتے ہوئے مزاحیہ منظرپیش کیا گیا تھا ۔ اسی طرح فلم ’’ جگنو‘‘ میں بھی محمود پر ایک گیت فلمایا گیا تھا جس میں پکوڑی کا ذکر ہے ۔ بہرحال پکوڑے انسانی زندگی کا ایک لازمی جز ہیں جسے آدمی اپنے موڈ اور ضرورت کے تحت اکثر و بیشتر استعمال یا کھاتا رہتا ہے ۔ خاص طور پر دوپہر کے کھانے میں اکثر آفس کے بابو اور دیگر افراد پکوڑی کو ضرور شامل کرتے ہیں جس سے کھانے کا لطف بڑھ جاتا ہے اور کھانا آسانی سے پیٹ میں منتقل ہوتا رہتا ہے ۔ اکثر اخبارات کے کارٹونسٹ حضرات نے بھی پکوڑوں پر کارٹون بنائے ہیں ۔ ایک کارٹون میں دکھایا گیا کہ ایک لڑکا ٹیبل لیمپ کی روشنی میں پڑھائی میں مصروف ہے کہ اس کی ماں کہتی ہیکیا پاگلوں کی طرح کتابیں پڑھتا رہتا ہے ۔ جا دو گھنٹے روزانہ پکوڑے بیچ لیا کر‘ تاکہ بیروزگاری میں کچھ کمی ہوسکے ۔ پکوڑوں کی جب بات چلیہے تو یہاں اردو کے نامور افسانہ نگار کرشن چندر کا ذکر ضروری ہے ۔ آنجہانی کرشن چندر کو بھی پکوڑے بیحد پسند تھے لیکن ڈاکٹر نے انہیں منع کر رکھا تھا اور ان کی اہلیہ سلمیٰصدیقی پرہیز کے بارے میں ان پر کڑی نظر رکھتی تھیں ۔ ایک بار کرشن چندر کو ان کے دوست کے ہمراہ بازار جانے کا موقع ملا اور ساتھ میں ان کی اہلیہ نہیں تھیں ۔ کرشن چندر کی نظر جب پکوڑے کی دوکان پر پڑی تو وہ بے چین ہوگئے اور فوراً اپنے من پسند پکوڑے کھانے لگے کہا جاتا ہے کہ اس وقت ان کے چہرے پر خوشی دیکھنے کے قابل تھی ۔ بہرحال پکوڑے ہے ہی ایسی چیز جسے عام آدمی سے لیکر اردو کے عظیم مصنف بھی کافی شوق سے کھاتے ہیں اور یہ ہمیشہ کھائے جاتے رہیں گے ۔ ہمارے وزیراعظم خود تو پکوڑے نہ کھاتے ہوں گے لیکن بیروزگار نوجوانوں کو پکوڑے کھانے کا نہیں بلکہ بیچنے کا مشورہ دیا تاکہ ملک سے بیروزگار ی کا خاتمہ ہوسکے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب دیش کے نوجوان اس مشورہ پر آنکھ بند کر کے عمل کریں ‘ ورنہ یہ کام تو ٹھیلہ بنڈی والوں کے مقدر میں لکھا ہے ۔