باتیں کتابوں کی

میرا کالم مجتبیٰ حسین
معروف انگریزی ہفتہ وار ’آؤٹ لُک‘‘ کے ادبی سیکشن کی ایڈیٹر شیلا ریڈی کا ایک مضمون رسالے کی تازہ اشاعت میں انگریزی کتابوں کی پبلشنگ کے کاروبار کے بارے میں شائع ہوا ہے جس میں انگریزی ادب سے متعلق کتابوں کی نکاسی اور دیگر اُمور کے علاوہ اس نکتے کو بھی اُجاگر کیا گیا ہے کہ جب ایک نیا ادیب اپنی پہلی کتاب چھپوانا چاہتا ہے تو اسے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اسی جستجو کے نتیجے میں بعض سینئر اور پختہ کار ادیبوں کو نمایاں حیثیت اور اہمیت حاصل ہوگئی ہے جن کی رائے یا سفارشی کلمات کو نئے ادیب اپنی کتاب کی کامیابی، اس کی فروخت اور ادب میں اس کے مرتبے کے تعین کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ چنانچہ بیشتر نئے ادیب، سینئر ادیبوں جیسے خوشونت سنگھ، وی ایس نائپال، سنیل کھلنانی، امرتیا سین اور رسکن بانڈ کے تعاقب میں لگے رہتے ہیں کہ اگر ان کی کتاب کے بارے میں ان مقتدر ہستیوں کے چند کلمات خیر حاصل ہوجائیں تو شاید ان کی کتاب کی نکاسی کی راہیں خودبخود ہموار ہوجائیں۔ ایسی تحریروں کو انگریزی میں Blurb اور اردو میں عموماً توصیفی کلمات یا فلیپ نگاری کہا جاتا ہے۔

یہ تحریریں بظاہر ناقدانہ ہوتی ہیں لیکن بباطن ان کا مقصد کتاب اور صاحب کتاب دونوں کی تشہیر کرنا ہوتا ہے تاکہ بھولے بھالے قارئین ان توصیفی کلمات کے فریب میں آکر کتاب کو خریدلیں اور بالآخر پبلیشر کی تجارتی ساکھ مستحکم ہوجائے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ ہم شیلا ریڈی کی تحریریں ہمیشہ بڑے اشتیاق سے پڑھتے ہیں۔ اس کی بھی کئی وجوہات ہیں۔ اول تو یہ کہ انگریزی ادب پر ان کی نظر بہت گہری اور ان کی رائے بڑی معتبر ہوتی ہے۔ دوم یہ کہ حیدرآبادی ہیں۔ سوم یہ کہ دہلی میں ہماری پڑوسن ہیں۔ چہارم یہ کہ اُردو سے انہیں بڑی محبت ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ تین چار سال پہلے ہمارے کرم فرما خوشونت سنگھ کے کہنے پر انہوں نے ہماری معرفت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مراسلاتی اُردو کورس میں داخلہ لیا تھا اور بسااوقات وہ ہم سے اُردو کے بعض ایسے الفاظ کے معنی بھی پوچھ لیا کرتی تھیں جن سے ہم خود واقف نہیں ہوتے تھے۔ اس بات سے اُردو میں ان کی بڑھتی ہوئی استعداد اور اہلیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

بہرحال شیلا ریڈی کے اس دلچسپ مضمون کو پڑھ کر ہمیںپتہ چلا کہ انگریزی میں بزرگوں کے توصیفی کلمات کے باعث نوجوان مصنفین کی کتابیں دھڑ ادھڑ فروخت ہوجاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس مضمون کو پڑھتے ہوئے ہمیں اپنی پیاری زبان اُردو کا بھی خیال آگیا اور بے خیالی میں ہمارا دھیان اس زبان میں ہونے والے اشاعتی کاروبار کی طرف بھی گیا۔پھر اس کے حوالے سے ہمیں بے ساختہ ابن انشاء کا مشہور مصرعہ ’’ہم ہنس دِیئے، ہم چپ رہے ، منظور تھا پردہ ترا‘‘ نہ صرف یاد آگیا بلکہ ان کا ایک مضمون بھی یاد آیا، جس میں انہوں نے اسی موضوع کو لے کر بزرگ اور مستند شاعر حضرت حفیظ جالندھری سے جو شکایت کی تھی اسے ملاحظہ فرمائیں : ’’ہمارے مخدوم حضرت حفیظؔ جالندھری کا ایک سرٹیفکیٹ آج کل ایک چورن کے اشتہار کے ساتھ باقاعدگی سے چھپ رہا ہے۔ یہ ایک خط ہے جو انہوں نے اس چورن کے موجد حکیم صاحب کو لکھا ہوگا کہ ’مکرمی! آپ نے جو ہاضمے کی گولیاں تیار کی ہیں، سبحان اللہ! ان سے مجھے بہت آرام ہے، براہِ کرم ایک ڈبہ ان گولیوں کا اور بھیج دیجئے‘، حفیظؔ صاحب سے اگر ہمیں شکایت ہے تو یہ کہ ہم ان کے بہت قریب رہے ہیں۔ نہایت نیاز مند بلکہ فیضان کے لحاظ سے شاگردِ رشید۔ کئی بار ان سے درخواست کی کہ قبلہ ہماری شاعری کے تعلق سے کوئی سرٹیفکیٹ عنایت ہو، اسی قسم کا کہ میں نے حضرت ابن انشاء کا کلام استعمال کیا۔ اس سے مجھے بہت افاقہ ہے۔ چربی سے پاک ہے اور وٹامن سے بھرپور۔ براہِ کرم اپنے مجموعہ کلام کی دس جلدیں وی پی سے بھیج دیجئے تاکہ بیٹھا پڑھتا رہوں۔ اور استفادہ کرتا رہوں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ہماری اپنی سرکیولیشن تو خاصی ہے، جگہ جگہ مارے پھرتے ہیں لیکن اس قسم کا سرٹیفکیٹ نہ ہونے کے باعث ہماری شاعری رہی جارہی ہے۔ محض اس وجہ سے کہ ہم شعر بناتے ہیں، چورن نہیں بناتے۔ نتیجے میں ہم حفیظؔ صاحب کی نظروں میں بار نہ پاسکے‘‘۔

ابن انشاء کے اظہارِ خیال کے بعد اب ہم اُردو میں اشاعتی کاروبار کے بارے میں اپنی ناچیز رائے کا کیا اظہار کریں۔ دیکھا جائے تو خود ہماری حیثیت بھی ایک سینئر ادیب کی ہوگئی ہے اور یہ کوئی تعلّی نہیں کہ کئی جونیر اردو ادیب ہماری اِک نگاہ التفات کے منتظر رہتے ہیں۔ نہ جانے کتنوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہم ان کے رشحاتِ قلم کے بارے میں کوئی تبصرہ کریں تو نہ صرف ان کی شہرت چار دانگ عالم میں پھیل جائے بلکہ ان کی کتابوں کے نسخوں کی مفت تقسیم کے کاروبار میں بھی دن دونی رات چوگنی ترقی ہو۔ مانا کہ دنیا کی دیگر زبانوں کے ادیبوں کے کتابیں فروخت ہوتی ہیں اور یہ ادیب مال و دولت میں کھیلتے رہتے ہیں لیکن اردو زبان کا ادیب غالباً اکیلا ایسا ادیب ہے جس کی قسمت میں فقر و فاقہ اور توکل و قناعت کی دولت لکھی ہوتی ہے۔ پتہ نہیں اُردو ادب میں یہ جو اتنا سارا اشاعتی کاروبار انجام پاتا ہے تو اس سے ہونے والے فائدے سے کون استفادہ کرتا ہے۔ ہم نے تو اُردو ادیب اور شاعر کو جب بھی دیکھا اس حالت میں دیکھا کہ نہایت عجز و انکسار کے ساتھ اپنی کتابوں کے نسخوں کو اپنے احباب اور صاحبانِ اقتدار و ثروت کے درمیان مفت تقسیم کرتا چلا جارہا ہے۔ بھلے ہی دیگر زبانوں میں کتابیں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہوں لیکن یہاں تو صرف ہاتھوں ہاتھ دی جاتی ہیں بلکہ ہم تو بعض کثیرالتصانیف اُردو شاعروں اور ادیبوں سے صرف اس لئے نہیں ملتے کہ کہیں وہ اپنی کتابوں کا بوجھ ہماری جھولی میں نہ ڈال دیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض اردو ادیب اور شاعر اپنی عزت و آبرو تک بیچ دیتے ہیں۔ ضرورت پیش آئے تو اپنا ضمیر بھی بیچ دیتے ہیں لیکن اپنی کوئی کتاب نہیں بیچ سکتے۔ حالانکہ موجودہ دور صارفین کا دور ہے۔ یہاں ہر چیز بکتی ہے اور شہرت کے بل بوتے پر مشہور آدمی غیرضروری اشیاء بھی فروخت کرنے کا اہل بن جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے مشہور اور نامی گرامی کھلاڑی بھلے ہی ایک منزل کے بعد اپنے کھیل میں نام پیدا کرنے کے قابل نہ رہ جائیں لیکن وہ اشیائے تعیش کی فروخت کے معاملے میں بڑے کارآمد اور کارگر ثابت ہوتے ہیں چنانچہ آپ نے ٹیلی ویژن اور اخباروں میں اکثر کھلاڑیوں کو دیکھا ہوگا کہ کوئی ریزر بلیڈ بیچ رہا ہے تو کوئی بالوں کا تیل بیچ رہا ہے، کوئی پنکھوں کی فروخت کے سلسلے میں توصیفی کلمات ادا کررہا ہے، کپڑے، پریشر کوکر، الیکٹریکل اشیاء، مصالحے، چائے، غرض کون سی ایسی چیز ہے جسے بیچنے میں مشہور و معروف ہستیاں مصروف نہ ہوں۔ اس وقت ہمیں ایک شخصی بات یاد آگئی۔ ہماری چھ سالہ پوتی ہما حسین بعض اوقات بڑی دلچسپ باتیں کرتی ہے۔ ٹیلی ویژن کے اشتہارات کو وہ بہت غور سے دیکھتی ہے اور ان پر عمل بھی کرتی ہے۔ فلمی اداکارہ جوہی چاؤلہ کو وہ بار بار ٹیلی ویژن پر ’’کُرکُرے‘‘ بیچتے ہوئے نہ صرف دیکھتی ہے بلکہ جب بھی دیکھتی ہے ’’کُرکُرے‘‘ ضرور کھاتی ہے۔ ایک زمانے میں جوہی چاؤلہ کی فلمیں بہت مقبول تھیں مگر ہماری پوتی نے اپنی کم عمری کے باعث اس کی کوئی فلم پہلے نہیں دیکھی تھی۔ اس نے جوہی چاؤلہ کو جب بھی دیکھا ’’کُرکُرے‘‘ بیچتے ہوئے ہی دیکھا۔ ایک بار ٹیلی ویژن پر جوہی چاؤلہ کی کسی پرانی فلم کی نمائش ہورہی تھی کہ ہماری پوتی نے حیرت سے جوہی چاؤلہ کو بغور دیکھا پھر بولی: ’’یہ کُر کُرے بیچنے والی تو اب فلموں میں بھی کام کرنے لگی ہے، کُرکُرے بھی اچھا بیچتی ہے اور ڈانس بھی اچھا کرلیتی ہے!‘‘ اصل میں صارفین کے معاشرے میں اب انسانوں کی پہچان بھی گڈمڈ ہوگئی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ شئے زیادہ قیمتی ہے یا انسان۔ چاہے کچھ بھی ہو، ادب بھی اب کاروبار کا حصہ بن گیا ہے۔

شیلاریڈی نے اپنے اس مضمون میں انگریزی ادب کی کئی مقتدر ہستیوں کے بیانات بھی قلم بند کئے ہیں۔ خوشونت سنگھ کا بیان ہے کہ وہ نئے ادیبوں کی ہمت افزائی کی خاطر بسااوقات مبالغہ آرائی سے بھی کام لیتے ہیں۔ یوں بھی اشتہار اور توصیفی کلمات میں سچ اور جھوٹ کو الگ الگ کرنا بڑا دُشوار ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو اچھا ادب بھی کبھی پورا سچ نہیں ہوتا۔ جب تک پورے سچ میں تھوڑے سے جھوٹ کو اور پورے جھوٹ میں تھوڑے سے سچ کو شامل نہ کیا جائے ادب، ادب نہیں بن پاتا۔

ماشاء اللہ! اُردو ادب میں اب ہم ایسے منصب پر فائز ہیں جہاں بیٹھ کر ہم نے سینکڑوں نوجوان ادیبوں کی ہمت افزائی یا گمراہی کی خاطر ان کی کتابوں کے پیش لفظ، فلیپ اور تبصرے وغیرہ لکھے ہیں لیکن آج تک کسی ادیب نے یہ نہیں بتایا کہ ہمارے توصیفی اور سفارشی کلمات کے باعث اس کی کتاب کا کوئی نسخہ فروخت بھی ہوا ہو۔ اُردو ادب کی دُنیا ہی الگ ہے اور اس میں جینے کے انداز بھی مختلف ہوتے ہیں۔ یوں بھی کوئی سینئر ادیب اپنے توصیفی کلمات میں لاکھ زور مارلے لیکن اگر کتاب میں زور نہ ہو تو وہ کیا کرلے گا۔ ہمیں اس وقت ایک ادیب اور اس کے قاری کی بات یاد آگئی۔ ایک قاری نے کسی ادیب کی کسی کتاب پر اعتراض کیا تو ادیب نے کہا : ’’میں اس کتاب کا مصنف ہوں، مجھے معلوم ہے کہ اس کتاب میں کیا کیا نزاکتیں ہیں اور تخلیق کے کون کون سے جوہر اس میں پوشیدہ ہیں، تم صرف قاری ہو تم کسی ادبی شہ پارے کی خوبیوں کا اندازہ کیسے لگا سکتے ہو‘‘۔ اس پر قاری نے کہا تھا: ’’مرغی انڈا ضرور دیتی ہے لیکن اگر اس کے سامنے کئی انڈے ایک ساتھ رکھ دیئے جائیں تو وہ یہ پتہ نہیں چلا سکتی کہ ان میں کون سا انڈا گندہ ہے مگر میں انڈے اور کتاب دونوں کو کھول کر ضرور پتہ چلا لیتا ہوں کہ کون سا انڈہ اور کون سی کتاب گندہ ہے‘‘۔
(ایک پرانی تحریر)