ایک چیف منسٹر شاہ خرچ اور دوسرا تکیہ پسند

تلنگانہ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھرراؤ کی شاہ خرچیوں کے بارے میں گذشتہ ہفتہ اس کالم میں لکھا گیا تھا کے ان کے پاوں زمین پر نہیں پڑتے ہیں بلکہ وہ ہواؤں میں اڑ رہے ہیں ۔ شہر میں ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک سفر کرنے کیلئے ہیلی کاپٹر کا استعمال کر رہے ہیں ۔ ریاست بھر میں دورے بھی ہیلی کاپٹرس کے ذریعہ ہو رہے ہیں ۔ اس کے بل اب ہوا بازی کارپوریشن کو وصول طلب ہیں ۔ ستمبر 2014 سے تلنگانہ کے مختلف اضلاع کا دورہ کرنے کے لئے ہیلی کاپٹرس کے استعمال پر 6 کروڑ روپئے خرچ ہوئے ہیں۔ اسپیشل چیف سکریٹری برائے حکومت تلنگانہ اور انڈسٹریز سکریٹری کے پردیپ چندرا نے احکام جاری کئے ہیں کہ ایک ماہ کے لئے ہیلی کاپٹرس کو کرایہ پر حاصل کرنے کا کرایہ تخمینہ 2 کروڑ روپئے ہے جو تقریباً 6 کروڑ روپئے ہوتے ہیں۔ چیف منسٹر چندرشیکھرراؤ شہر اور اضلاع کے فضائی دورے کرتے ہیں ۔ چیف منسٹر پر ان دنوں اپوزیشن کی تنقیدیں بھی توجہ طلب ہیں ۔ ان کے فرزند کے تارک راماراؤ کے ساتھ ان کی کشیدگی کی اطلاعات نے بھی ٹی آر ایس قائدین کو تشویش میں مبتلاء کر دیا ہے ۔ حکمرانی کے فرائض کی انجام دہی میں جب یکطرفہ فیصلے اور من مانی ہوتی ہے تو اسے کوئی بھی برداشت نہیں کرتا ۔ سناگیا ہے کہ کے ٹی راماراؤ کو بھی اپنے والد کے من مانی فیصلوں پر اعتراض ہے ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پنچایت راج کے وزیر کی حیثیت سے کے ٹی آر نے کئی ایک اہم فیصلے کئے ہیں ۔ مگر وہ اپنے والد کی جانب سے منظوری کے منتظر ہیں ۔ ٹی آر ایس حکومت میں پیدا ہونے والی ناراضگیوں کا غبارہ کب پھٹ پڑے گا یہ وقت ہی بنائے گا ۔ چیف منسٹر نے بعض ایسے بھی فیصلے کئے ہیں جو عوام کے لئے قابل قبول نہیں ۔ بعض فیصلوں کو منتازعہ بنا دیا گیا ہے ‘ کچھ فیصلے اچھے بھی ہوتے ہیں ۔

انہوں نے حال ہی میں ایک فیصلہ کیا تھا کہ اسکولوں اور کالجوں میں طلبا اور اساتذہ کی جانب سے سیل فون کا استعمال نہیں کیا جائیگا ۔ ریاست تلنگانہ کے تمام تعلیمی اداروں میں موبائیل فونس کے استعمال پر پابندی ایک اچھا قدم ہے ۔ اس فیصلے سے تعلیمی اداروں میں طلبا کی جانب سے موبائیل فونس کے غلط استعمال کو روکنے میں مدد ملے گی ۔ حکومت کے فیصلے کے مطابق کوئی بھی طلبا اور اساتذہ اپنے کلاس روم میں موبائیل فونس نہیں لے جاسکیں گے ۔ کمشنر اسکول تعلیم تلنگانہ نے 31؍ ڈسمبر 2014 سے نافذ العمل احکام جاری کر دیئے ہیں ۔ اس فیصلہ سے طلبا برادری ‘ اساتذہ اور سرپرستوں کے ملے جلے ردعمل بھی آ رہے ہیں ۔ والدین کی اکثریت نے اسے درست فیصلہ قرار دیا تو بعض نے تشویش کا ظاہر کیا ہے ۔ اسکول مینجمنٹ کی جانب سے طلبا کو اپنے موبائیل رکھنے کے لئے محفوظ لاکرس بھی فراہم کئے جانے کا منصوبہ بنا یا جا رہا ہے ۔ پرنسپل سکریٹری حکومت زراعت پونم مارکنڈنے کی چیرمین شپ میں تلنگانہ میں لڑکیوں و خواتین کے تحفظ کے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے ۔یہ کمیٹی ریاست کے 100 سے زائد خانگی اور سرکاری تعلیمی اداروں کے سربراہوں سے بات چیت کرے گی ۔ اسکولوں کی تعلیمی صورتحال بہتر بنانے انفراسٹرکچر کو عصری تقاضوں سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان باتوں کو نظرانداز کر کے حکومت دیگر کاموں اور نئے اقدامات کے ذریعہ مسائل پیدا کرر ہی ہے ۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس کے اثر کو کمزور کرنے کی کوششوں کے درمیان بی جے پی صدر امیت شاہ کا دورہ تلنگانہ اہمیت کا حامل بن گیا ہے ۔ وہ تلنگانہ بی جے پی کے لئے 20 لاکھ ارکان کو رکن بنانے کا نشانہ مقرر کیا گیا ہے ۔ ریاست تلنگانہ میں اس وقت پارٹی 4.5 لاکھ ارکان ہیں۔ نریندر مودی اور امیت شاہ کی حکمت عملی اب تک تمام ریاستوں میں کامیاب ہو رہی ہے۔ جہاں کہیں اس جوڑی نے سیاسی منصوبے بنائے ہیں کامیاب ہوئے ہیں۔ اب ان دونوں کی نظر تلنگانہ پر ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی اور امیت شاہ کے منصوبے کے حصہ کے طور پر 2019 کے عام انتخابات میں تلنگانہ اور آندھراپردیش میں اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ پارٹی ہائی کمان کے اس جراتمندانہ اقدام سے حوصلہ پا کر بی جے پی تلنگانہ کارکنوں نے ریاست سے ٹی آر ایس کے صفایا کا عہد کرلیا ہے ۔

امیت شاہ کا ایک نکاتی ایجنڈہ بی جے پی کو طاقتور بنانا ہے ۔ ادھر ٹی آر ایس بھی اپنی طاقت میں اضافہ کرتے ہوئے تلگودیشم اور کانگریس کے سابق وزراء ‘ کاپوریٹرس اور ارکان کو ترغیب دے رہی ہے ۔ نلگنڈہ کے ضلع پریشد چیرمین بابو نائیک کی ٹی آر ایس شمولیت کے ساتھ ہی تلگودیشم کے دیگر 21 کارپوریٹرس کو بھی ٹی آر ایس میں شامل کئے جانے کی تیاری ہو رہی ہے ۔ کانگریس کے 5 کارپوریٹرس کو بھی ٹی آر ایس میں جگہ دی جا رہی ہے ۔ اس طرح کانگریس اور تلگودیشم میں پرانے کیڈرس جا رہے ہیں تو نئے لیڈروں کو نئے عہدے مل رہے ہیں ۔ کانگریس کے اقلیتی ڈپارٹمنٹ کے صدر کا انتخاب بھی پارٹی کے لئے کارکردگی اور وفاداریوں کا استعمال ہوگا ۔ تلنگانہ میں بی جے پی کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لئے امیت شاہ کا دورہ جس وقت ہو رہا تھا اس وقت کے چندرشیکھراؤ کو دہلی میں وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کے لئے وقت نہیں دیا گیا ۔ تلنگانہ چیف منسٹر کو مودی سے ملاقات کے بغیر ہی ریاست واپس ہونا پڑا تھا ۔ مرکز اور ریاست کے درمیان کشیدگی کے ساتھ ہی وزیراعظم مودی نے چندرشیکھرراؤ کو نظرانداز کر دیا ہے ۔ اپریل ۔ مئی کے عام انتخابات کے بعد اقتدار پر آنے کے 6 ماہ کے دوران مودی اور کے سی آر کے درمیان دوبدو خوشگوار ملاقات نہیں ہوئی ۔ ان کے تعلقات پہلی مرتبہ اس وقت کشیدہ ہوگئے تھے

جب کے سی آر نے نریندر مودی کو گذشتہ سال اگسٹ میں ’’فاشست‘‘ لیڈر قرار دیا تھا ۔ اس کے بعد موودی نے کے سی آر کو ہر مرحلہ پر نظرانداز کر دیا ۔ جنوری کے پہلے ہفتہ میں دہلی کا دورہ کرنے والے کے سی آر کو مودی نے خاطر میں نہیں لایا بلکہ گھنٹوں ملاقات کے لئے انتظار کروا کر مایوس کر دیا ۔ چیف منسٹر نے اپنا دورہ مختصر کر کے حیدرآباد واپس ہوئے ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ دہلی میں تلنگانہ کے قائدین کی مرکزی حکومت سے مراسم خوشگوار نہیں ہیں ۔ مرکز سے اچھے روابط استوار کرنے کی کوشش کرنا بھی ایک ہنر ہے ۔ کے سی آر کو اپنی دہلی کی ٹیم قابل اور چالاک پیروکاری میں ماہر لوگوں کو لے کر تشکیل دینی ہوگی تاکہ وہ انہیں وزیراعظم سے ملاقات کا وقت لینے میں آئندہ ناکام نہ ہونے پائے ۔ دراصل چیف منسٹر کیرالا میں ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے بعد دہلی جا کر نلگنڈہ میں 7500 میگاواٹ کے تھرمل پاور پلانٹ کی تجویز کو منظوری کرنا چاہے تھے ۔ اس پراجکٹ کے لئے 5300 کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری ہوگی اس کے علاوہ پرنہتا چیوڑلہ لیفٹ اریگیشن اسکیم کے علاقوں میں پراجکٹ حاصل کرنے کی کوشش تھی یہ ناکام ہوئی ۔ آئندہ مودی سے ملاقات کا پروگرام طئے کرنا ہے ۔

آندھراپردیش کے چیف منسٹر این چندرابابونائیڈو نے ریاست میں پولیس فورس کی طرز کارکردگی پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ یہ پولیس فورس ڈی جی پی سے لیکر کانسٹبل تک ریاستی حکومت کی سوچ کے مطابق کام نہیں کر رہی ہے ۔ ریاستی پولیس بہتر نتائج ظاہر کرنے میں ناکام ہے ۔ چندرابابونائیڈو کو ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر سمجھا جاتا ہے ۔ وہ اپنی ریاست میں ہونے والی خرابیوں کو برداشت کرنا نہیں چاہتے لیکن حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی کارکردگی پر کون سوال اٹھائے گا ۔ وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی ریاست کے علاقوں کا دورہ کرنے سے زیادہ تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں نظر آتے ہیں ۔ 10 سال تک حیدرآباد کو مشترکہ دارالحکومت بنانے کا مطلب یہ نہیں ہوسکتا کہ آندھراپردیش کے چیف منسٹر بھی ڈیرہ ڈال دیئے ۔ جب انہیں پولیس فورس کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے تو آندھراپردیش سے ان کی غیر حاضری کی وجہ سے سارا سرکاری نظام درہم برہم ہوسکتا ہے ۔ دیہی علاقوں میں ویلیج اکاونٹنٹ سے لیکر پرنسپل سکریٹری تک تمام کو احساس ‘ ہے کہ ان کا چیف منسٹر مست قلندر بن کر حیدرآباد میں تکیہ لگا بیٹھ گیا ہے ۔ جبکہ انہوں نے آئندہ جون تک ریاسی سطح کے دفاتر کو وجئے واڑہ منتقل کرنے کا خیال ظاہر کیا ہے ۔

مگر وہ خود اپنے سیاسی دفاتر دارالحکومت حیدرآباد کو ہی مسکن بنانے کے خواہاں ہیں ۔ 10 سال تک حیدرآباد کو استعمال کرنے کیلئے اسے پی ری آرگنائزیشن ایکٹ 2014 سے مکمل استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔ آندھرپردیش کے لئے مجوزہ دارالحکومت وجئے واڑہ یا اس کے قریب و جوار کو ترقی دینے کے لئے ابھی تیاریاں باقی ہیں ۔ مگر وہ ریاستی نظم و نسق کو وجئے واڑہ اور گنٹور سے چلانے کے لئے تیاری کرنا چاہتے ہیں مگر یہ اس وقت ممکن ہوسکے گا جب چیف منسٹر خود اپنا دفتر ان شہروں میں کسی ایک شہر میں لگا دیں ۔ ان کا دفتر حیدرآباد میں ہوگا اور ان کی پیشی کے لوگ اضلاع میں کام کریں گے یہ دکھائی نہیں دیتا ۔ چیف منسٹر کی اپنے درمیان عدم موجودگی کو دیکھتے ہوئے سرکاری کارندے کام کرنے سے زیادہ گھروں کی رکھوالی کریں گے ۔ چندرابابونائیڈو کوایک ترقی پسند چیف منسٹر مانا جاتا ہے مگر ان کی حالیہ کارکردگی اس کے برعکس دکھائی دے رہی ہے ۔
kbaig92@gmail.com