ایک محفل میں متعدد بار نام پاک آئے تو درود کا حکم

سوال : جب بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک آئے، درود و سلام پڑھنا چاہئے لیکن بسا اوقات ایک ہی محفل اور مجلس میں کئی دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک لیا جاتا ہے تو کیا ہر دفعہ نام مبارک سننے پر درود وسلام کہنا لازم و ضروری ہے۔ ساتھ میں ایک اور اہم بات آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جس طرح درود و سلام کا پڑھنا امت کیلئے ہے اسی طرح کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اس کا کوئی حکم ہے؟ بعض مساجد میں میں نے دیکھا ہے کہ بعض حضرات اقامت کے دوران اشھد ان محمد رسول اللہ کے وقت صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے ہیں۔ اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
مجاہد حسین، رین بازار
جواب : ایک ہی مجلس میں ایک سے زائد مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک کا ذکر ہو تو ہر دفعہ نام مبارک سننے پر درود شریف پڑھنا چاہئے ۔ بعض فقہاء نے ایک مجلس میں متعدد مرتبہ نام مبارک سننے پر ایک ہی دفعہ درود پڑھنا کافی کہا ہے ۔ تاہم امام طحاوی کے نزدیک درود و سلام کی تکرار واجب ہے۔ در مختار برحاشیہ رد ا لمحتار جلد اول صفحہ 555 میں ہے : (وہی فرض مرۃ واحدۃ فی العمر و اختلف) الطحاوی والکرخی فی وجوبھا) علی السامع الذاکر (کلما ذکر) صلی اللہ علیہ وسلم (والمختار) عندالطحاوی (تکرارہ) ای الوجوب (کلما ذکر) ولو اتحد (المجلس فی الاصح)آیت قرآنی کے مطابق یایھاالذین آمنوا صلو علیہ و سلموا تسلیما ۔ ترجمہ : اے ایمان والو ! آپ پر درود بھیجو اور کثرت سے سلام بھیجا کرو۔ امت پر زندگی میں ایک دفعہ درود پڑھنا واجب ہے ۔ لیکن حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا وجوب نہیں۔ اسی کتاب میں ہے : وفی المجتبی: لایجب علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان یصلی علی نفسیہ۔
فقہاء کرام نے چند مقامات میں خصوصیت کے ساتھ درود و سلام کے مستحب ہونے کا ذکر کیا ہے ۔ اس میں اقامت بھی شامل ہے ۔ رد المحتار جلد اول صفحہ 558 مطلب : نص العلماء علی استحباب الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی مواضع میں ہے : قولہ : (و مستحبۃ فی کل اوقات الامکان) ای حیث لامانع ، ونص العلماء علی استحبا بھا فی مواضع: یوم الجمعۃ و لیلتھا … و عقب اجابۃ المواذن و عند الاقامۃ۔ لہذا اقامت کے دوران ’’اشھد ان محمد رسول اللہ ‘‘ کہنے پر امام و مقتدی سب کو درود کہنا چاہئے ۔

شادی سے قبل لڑکے کا لڑکی کو دیکھنا
سوال : لڑکا لڑکی کے رشتہ کے مسئلہ ہے، اسلامی نقطہ نظر سے لڑکی کو لڑکے سے ملانا چاہئے یا نہیں ؟ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ زندگی لڑکا لڑکی کو گزارنا ہے، اس لئے پہلے اس کی رضامندی چاہئے ، دونوں کو ایک بار ملانا چاہئے۔
شرعی نقطہ نظر سے یہ کہاں تک درست ہے ؟ اور اس سلسلہ میں شرعی احکام کیا ہیں۔
حافظ عبدالمقتدر، شاہین نگر
جواب : جس لڑکی سے عقد نکاح کرنا طئے ہو اس کو شرعاً دیکھنے کی اجازت ہے ۔ چنانچہ ایک صحابی رسول نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ وہ ایک خاتون کو پیغام نکاح دینا چاہتے ہیں۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انظر الیھا فانہ احری ان یو دم بینکما۔
ترجمہ : تم اس کو دیکھ لو کیونکہ یہ تمہارے درمیان محبت کے دائمی رہنے کے زیادہ لائق و سزا وار ہے (ترمذی 1087 ، ابن ماجۃ : 1865 ۔ یہ روایت حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ)
ابن ماجۃ کی ایک اور روایت میں ہے : جب اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کے دل میں کسی عورت سے نکاح کو ڈالدے تو چاہئے کہ وہ اس کو دیکھ لے کیونکہ وہ ان کے درمیان محبت کے بقاء و دوام کیلئے زیادہ موزوں ہے ۔ اذا اوقع اللہ فی نفس احدکم من امرأۃ فلینظر الیھا فانہ احری ان یودم بینھما (ابن ماجۃ)
عورت کا سارا بدن اس کے چہرہ ،دونوں ہتھیلی اور قدم کے سوا سب قابل ستر ہے اور اجنبی کو چہرہ دکھانے کی اجازت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (اے محبوب ) آپ مؤمنین سے فرمادیجئے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں۔ اس کے بعد کی آیت میں ہے : آپ مومن عورتوں سے فرمادیجئے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں، اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور زینت کو ظاہر نہ کریں…الایۃ (سورۃ النور 31-30/24 )
اگرچہ عقد نکاح سے قبل عاقدہ، عاقد کے حق میں اجنبی ہے۔ اس سے پردہ کرنا لازم ہے لیکن مذکورالصدر حدیث کی روشنی میں عاقد کا عاقدہ کے چہرہ کو دیکھنے کی اجازت ہے ، بار بار ملنے کی قطعاً اجازت نہیں اور نہ ہی عاقدہ اپنی زیب و زینت کو عاقد پر ظاہر کرسکتی ہے ۔ وہ عاقدہ کیلئے بالکل اجنبی کے درجہ میں ہے اور وہ دونوں تنہا بھی نہیں مل سکتے کیونکہ اجنبی عورت کے ساتھ جبکہ اس کا محرم ساتھ نہ ہو تنہائی اختیار کرنا حرام ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من کان یؤمن باللہ والویم الآخر فلا یخلون بامراۃ لیس لھا محرم فان ثالثھما الشیطان۔ ترجمہ : جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے پس وہ کسی عورت سے خلوت اختیار نہ کرے جس کے ساتھ محرم نہ ہو کیونکہ ان کا تیسرا شیطان ہوتا ہے ۔

سجدۂ تلاوت کے دوران قہقہہ اور
وضوکا حکم
سوال : میں گھر میں قرآن مجید کی تلاوت کر رہا تھا، آیت سجدہ پر پہنچا اور بعد تلاوت سجدۂ تلاوت کیا ، میں سجدہ میں ہی تھا ۔ میرے اطراف بیٹھے میرے چھوٹے لڑکے ایک بات ایسی کہدی کہ بے اختیار مجھے سجدہ ہنسی آگئی اور بڑی آواز سے میں نے ہنسا۔ اس کے بعد میں نے دوبارہ سجدۂ تلاوت کیا ۔ میں نے ایک صاحب نے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ دوبارہ وضو کر کے سجدہ تلاوت کرنا چاہئے کیونکہ دوران نماز قھقھہ لگانے سے نہ صرف نماز فاسد ہوتی ہے بلکہ وضو بھی ٹوٹ جاتا ہے ۔ اس بارے میں شرعی احکام سے اگاہ فرمائیں تو مہربانی
محمد عثمان ، آصف نگر
جواب : نماز میں قہقہہ لگانے سے وضو ٹوٹتا ہے کیونکہ مطلق نماز سے متعلق نص وارد ہوئی ہے ۔ سجدۂ تلاوت صرف ایک سجدہ ہے کامل نماز نہیں ہے اس لئے سجدۂ تلاوت میں قھقھہ لگانے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ بدائع الصنائع جلد 2 ص : 58 میں ہے : لانا عرفنا القھقھۃ حدثا بالنص الوارد فی صلاۃ مطلقۃ فلا یجعل وارڈافی غیرھا۔

نماز جنازہ میں تکبیرات کے بعد ہاتھ چھوڑنا
سوال : امام صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیرنے تک ہاتھ باندھے رکھا ۔ بعض اصحاب نے اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ نماز نہیں ہوئی ۔ ایسی صورت میں شرعاً نماز جنازہ ہوئی یا نہیں ؟
قاسم علی ، نامپلی
جواب : نماز جنازہ میں دو فرض ہیں۔ (1) چار تکبیرات یعنی چار مرتبہ اللہ اکبر کہنا (2) قیام یعنی کھڑے ہوکر نماز پڑھنا، نماز جنازہ میں تین امور مسنون ہیں۔ پہلی تکبیر کے بعد حمد و ثناء پڑھنا، دوسری تکبیر کے بعد درود شریف پڑھنا، تیسری تکبیر کے بعد میت کے لئے دعا کرنا۔ اس کے علاوہ جو امور ہیں وہ مستحبات و آداب سے تعلق رکھتے ہیں، فرائض کی تکمیل سے نماز ادا ہوجاتی ہے ۔
فقہاء کرام نے کن مواقع پر ہاتھ باندھے رہنا چاہئے اور کن مواقع پر ہاتھ چھوڑ دینا چاہئے، اس سلسلہ میں ایک قاعدہ بیان کیا ہے ، وہ یہ کہ ہر وہ قیام جس میں کوئی ذکر مسنون ہو ہاتھ باندھے رہیں اور جس قیام میں کوئی ذکر مسنون نہ ہو اس میں ہاتھ چھوڑدیں ، ذکر سے مراد ذکر طویل ہے ورنہ تحمید و تسمیع یعنی سمع اللہ لمن حمدہ ، ربنا لک الحمد بھی ذکر ہے ۔ اس کے باوجود قومہ میں ہاتھ باندھنا نہیں ہے۔
… و یضع یمینہ علی شمالہ تحت سرتہ کالقنوت و صلوٰۃ الجنازۃ و یرسل فی قومۃ الرکوع و بین تکبیرات العیدین فالحاصل ان کل قیام فیہ ذکر مسنون ففیہ الوضع و کل قیام لیس کذا ففیہ الارسال (شرح و قایہ جلد اول ص : 144) اس کے حاشیہ 7 میں ہے… فان قلت یخرج عنہ القومۃ لان فیھا ذکر امسنونا وھوالتحمید والتسمیع قلت المراد بالذکر الذکر الطویل …
مذکورہ در سوال صورت میں خاص طور پر امام صاحب کو اور ان کی اقتداء کرنے والوں کو نماز کے ارکان و شرائط مستحبات و آداب کی رعایت رکھتے ہوئے نماز ادا کرنا چاہئے ۔ مذکورہ صورت میں نماز ادا ہوگئی تاہم خلاف استحباب عمل ہوا ہے۔ مصلیوں کا اعتراض صحیح نہیں۔

بحالت احرام غلافِ کعبہ چومنا
پٹی باندھنا، عورت کا چہرہ ڈھانکنا
سوال : دریافت کرنا یہ ہے کہ حالت احرام میں کعبہ شریف کے غلاف کو چومنا اور سر پر رکھنا کیسا ہے۔ اگر ایسا کیا جائے تو کیا قربانی دینا ہوگا ؟ و نیز میرے ہاتھ میں موچھ ہے اور میں پٹی بن رہا ہوں ۔ کیا حالت احرام میں پٹی باندھنے کی اجازت ہے یا نہیں ؟ میری اہلیہ بھی شریک سفر ہے ، کیا وہ احرام کی حالت میں اپنے چہرے پر نقاب ڈال سکتی ہیں یا نہیں جبکہ وہ پردہ کی بہت پابند ہیں ؟
نام ……
جواب : محرم کو حالت احرام میں سر اور چہرے کو چھپانے سے بچنا چاہئے۔ عالمگیری ج : 1 ص : 224 میں ہے ۔ و یتقی سترالاس والوجہ ۔ لہذا اگر کوئی کعبہ شریف کے غلاف میں داخل ہوجائے اس طرح کے غلاف اس کے سر اور چہرے کو نہ لگے تو کوئی حرج نہیں اور اگر لگ جائے تو مکروہ ہے۔ و کذا لو دخل تحت ستر الکعبۃ حتی غطارا سہ او وجھہ کرہ ذلک لمکان التغطیۃ۔
لہذا احرام کی حالت میں کعبہ شریف کے غلاف کو اس طرح چومنا کہ جس سے چہرہ چھپ جائے یا سر چھپ جائے مکروہ ہے۔ احرام کی حالت میں پٹی باندھنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ ولاباس للمحرم ان یحتجم او یفتصد او یجبر الکسراو یختتن کذا فی فتا وی قاضی خان ۔ عورت احرام کی حالت میں اگر اجنبیوں سے پردہ کرنا چاہے تو اپنے چہرہ کو چھپا سکتی ہے ۔ بشرطیکہ پردہ یا نقاب اس کے چہرہ کو مس نہ کرے۔ کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ج : 1 ص : 645 میں ہے۔ و یجوز للمراۃ ان تسترو جھھا و یدیھا وھی محرمۃ اذا قصدت السترعن الاجانب بشرط ان تسدل علی و جھھا ساترالایمس وجھھا عندالحنفیۃ والشافعیۃ۔