ایک عظیم شخصیت کی خودنوشت سوانح عمری

میرا کالم سید امتیاز الدین
مجھے اپنے بچپن سے جن اہم شخصیتوں کے نام یاد ہیں اُن میں ایک نام دلیپ کمار کا بھی ہے قصہ یوں ہے کہ ہم کو اُن دنوں سال میں صرف دو فلمیں دکھائی جاتی تھیں ۔ ایک رمضان کی عید کے موقع پر اور دوسری بقر عید کے موقع پر ۔ اتفاق سے ان دونوں موقعوں پر نئی اور اہم فلمیں ریلیز ہوتی تھیں اور اخبار میں اُن کے اشتہار پر جلی حروف میں عید کا شاندار پروگرام بھی لکھا ہوتا تھا ۔ اب تو عرصے سے دلیپ صاحب نے فلموں میں کام کرنا چھوڑ دیا او رہم نے بھی فلمیں دیکھنا چھوڑ دیں ۔ شاید ہماری آخری فلم شکتی تھی ۔ ہم 1952 ء میں اسکول میں چوتھی جماعت میں شریک کرائے گئے تھے ۔ اُس سال اتفاق سے رمضان کی عید بھی مئی کے آخر یا جون کے شروع میں آئی تھی ۔ اُس موقع پر دلیپ صاحب کی فلم آن لگی تھی ۔ ہم نے وہ فلم دیکھی اور شاید اُسی ہفتے ہمارا اسکول میں داخلہ بھی ہوگیا ۔ ہم نے اُس سے پہلے اسکول کی صورت بھی نہیں دیکھی تھی ۔ اس لئے مدرسوں کے ڈسپلن اور اصول و قواعد سے یکسر ناواقف تھے ۔ پہلے ہی دن ہماری دوستی ایک نووارد طالب علم سے ہوگئی اور ہم اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد اُسے فلم آن کی کہانی سنانے لگے ۔ ہمارے ٹیچر پڑھانے کی بجائے کسی اور کام میں لگے ہوئے تھے ۔ ہم اطمینان سے کہانی سنانے میں مصروف تھے کہ کسی اور ہم جماعت نے چیخ مارکر ٹیچر سے کہا ’’ سر یہ لڑکا کلاس میں فلموں کی باتیں کر رہا ہے ‘‘ ۔ ہمارے ٹیچر نے غیظ و غضب کے عالم میں ہمارا نام پوچھا اور بنچ پر کھڑے ہوجانے کو کہا ۔ اس طرح دلیپ کمار کی وجہ سے ہم کو کم و بیش ایک گھنٹے تک بنچ پر کھڑا رہنا پڑا ۔ اس واقعے کے بعد اصولاً ہمیں دلیپ صاحب سے شکایت پیدا ہوجانی چاہئے تھی کیونکہ ہماری سزا کے پس پردہ محرک وہی تھے ،لیکن جوں جوں ہماری عمر بڑھتی گئی ہم اُن کے اور زیادہ گرویدہ ہوتے گئے اور یہ شیفتگی آج بھی قائم ہے ۔

اِس لمبی چوڑی تمہید کا حاصل یہ ہے کہ ہم نے پچھلے دنوں اخبار میں پڑھا کہ 10 جون 2014 کو ممبئی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں دلیپ صاحب کی آٹو بایو گرافی کی رسم اجراء انجام پائی ۔ اس کتاب کا نام ہے ۔ The Substance and the Shadow ہم ترجمے کے فن سے نابلد ہیں، لیکن کتاب کو پڑھنے کے بعد جو ترجمہ ہماری سمجھ میں آیا تھا ۔ ’’شخص اور اُس کا سایہ ‘‘ اِس کتاب کو اُودے تارہ نایر نے مرتب کیا ہے جس سائرہ بانو کی سہیلی ہیں اور بہت اچھی صحافی ہیں ۔ کتاب میں اودے تارا نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ دلیپ صاحب وہ شخص ہیں جن کی پرچھائیںاُن کے قد سے کہیں لمبی ہے ۔ یہ حقیقت بھی ہے اور کتاب کے مطالعے سے یہ سچائی کُھل کر سامنے آتی ہے ۔ کتاب کی رسم اجراء میں امیتابھ بچن ، عامر خان ، دھرمیندر ، جتیندر ، سلیم خان ، جاوید اختر ، زینت امان ، ڈینی ڈینزپا ، فریدہ جلال ، پرینکا چوپڑا ، وجینتی مالا ، سبھاش گھئی ، مادھوری ڈکشٹ ، رٹیش دیشمکھ ، آنندجی ، پریم چوپڑا ، انوملک ، بپی لہری ، جاوید علی ، ٹینا منیم ، انیل امبانی ، اُستاد امجد علی خان ، ایان علی خان ، پنڈت شیو کمار شرما ، آدتیہ پنچولی ، سنجے خان ، علی اصغر اور دوسری کئی مشہور ہستیاں شریک تھیں ۔ اِس رنگارنگ تقریب میں تمام شرکاء نے اس عظیم فنکار کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا ۔

اِس کتاب کی تحریک بہت دلچسپ طریقے سے ہوئی ۔ دلیپ صاحب کو اردو اور انگریزی کتابوں کے مطالعے کا بہت شوق ہے ۔ 2004ء میں ایک دن سائرہ بانو اور اودے تارا نایر اُن کی کتابوں کو سلیقے سے الماریوں میں رکھ رہی تھیں ۔ ا دلیپ صاحب بھی اُن کے ساتھ تھے ۔ دلیپ صاحب کی نظر اتفاقاً ایک کتاب پر پڑی جو کسی کی لکھی ہوئی خود دلیپ کمار کی سوانح تھی ۔ دلیپ صاحب اُس کی ورق گردانی کرتے ہوئے ناراضگی کا اظہار کرنے لگے ۔ انہوں نے کہا کہ لوگ بے سند باتیں لکھ دیتے ہیں اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں ۔ پھر یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ مجھے قریب سے جانتے ہیں ۔ سائرہ بانو نے کہا ’’ جب ایسی بات ہے تو آپ اپنی سوانح خود کیوں نہیں لکھ دیتے ‘‘ ۔ دلیپ صاحب نے جواب دیا ’’ کوئی ایسا لکھنے والا ملے جو میری باتوں کو احتیاط سے دائرہ تحریر میںلائے تو میں اِملا کروادوں ‘‘ ۔ سائرہ بانو نے کہا کہ اودے تارا اس کام کیلئے بہت موزوں ہیں ۔ بس اُسی دن سے یہ کام شروع ہوگیا ۔ کتاب کو دلیپ صاحب نے اپنے والدین کے نام معنون کیا ہے ۔ اِن اشعار کے ساتھ
سکون دل کیلئے کچھ تو اہتمام کروں
ذرا نظر جو ملے پھر انہیں سلام کروں
مجھے تو ہوش نہیں آپ مشورہ دیجے
کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں
دلیپ کمار 11 ڈسمبر 1922 ء کو پشاور میں محلہ قصہ خوانی بازار کے ایک مکان میں پیدا ہوئے ۔ عجیب اتفاق ہے کہ عین اُسی دن پشاور کے سُناروں کے محلے میں زبردست آگ لگی جس سے کئی مکانات جل گئے ۔ دلیپ صاحب کے والد کا میوے کا کاروبار تھا ۔ دلیپ کمار کا اصلی نام محمد یوسف خان ہے ۔ عام طور پر ہم نے سُنا ہے کہ فلم سے وابستہ بہت سے ستارے گھر سے بھاگ کر بمبئی آئے تھے لیکن دلیپ صاحب کے والد اپنے خاندان کے ساتھ بمبئی آگئے تھے ۔ کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ وہ میوے پشاور سے بذریعہ ٹرین بمبئی منگوائیں گے اور زیادہ منافع سے بیچیں گے ۔ دوسری جنگ عظیم تک یہ کاروبار اچھا اور فائدہ مند رہا لیکن جنگ کے دوران نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ ٹرینیں فوجیوں کا سامان لانے لے جانے میں مصروف ہوگئیں ۔گھر میں مالی تنگی ہونے لگی ۔ انہی دنوں ایک دن اُن کے والد اُن سے کسی بات پر ناراض ہوگئے ۔ اِس سے دلیپ صاحب اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ انہوں نے گھر چھوڑ دینے کا فیصلہ کرلیا اور کسی کو بتائے بغیر پونے چلے گئے ۔

پونہ میں دلیپ صاحب نے ایک کینٹین میں نوکری کرلی جہاں زیادہ تر برطانوی فوجی آتے تھے ۔ ایک بار ایک انگریز فوجی نے دلیپ صاحب سے ہندوستان کی آزادی کیلئے جدوجہد کے بارے میں کچھ سوالات کئے ۔ انہوں نے مدلل جوابات دئے ۔ اُس انگریز نے اُن سے اپنے کلب کے دوسرے ممبرس کے سامنے تقریر کرنے کو کہا ۔ دلیپ صاحب نے جدوجہد آزادی کی تائید میں ایک تقریر کردی ۔ پولیس انہیں ہتھکڑیاں پہناکر لے گئی اور یرواڈا جیل میں قید کردیا ۔ دوسرے دن ایک انگریز فوجی جس سے دلیپ صاحب کی جان پہچان تھی ، انہیں رہا کراکر لے گیا ۔ برطانوی پولیس ایسے قیدیوں کو گاندھی والا کہتی تھی چنانچہ دلیپ صاحب کو بھی گاندھی والا کہہ کر پکارا گیا ۔کچھ عرصہ پونہ میں نوکری کرنے کے بعد دلیپ کمار کے پاس پانچ ہزار روپئے جمع ہوگئے تھے ۔ رمضان کا مہینہ شروع ہوگیا تھا ۔ اس خیال سے کہ تنگی کے دنوں میں گھر کی کچھ مدد ہوجائے گی ۔ دلیپ صاحب بمبئی لوٹ آئے ۔ اُن دنوں پانچ ہزار اچھی خاصی رقم تھی ۔
ایک دن تلاشِ روزگار کے سلسلے میں دادر جانے کیلئے دلیپ کمار چرچ گیٹ اسٹیشن پر ٹھہرے ہوئے تھے کہ اُن کی ملاقات ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر مسانی سے ہوئی جو انہیں پہلے سے جانتے تھے ۔ ڈاکٹر مسانی نے اُن سے پوچھا کہ وہ آج کل کیا کر رہے ہیں ۔ دلیپ کمار نے بتایا کہ وہ نوکری کی تلاش میں ہیں ۔ ڈاکٹر مسانی نے اُن سے کہا ’’ میرے ساتھ چلو ، میں جہاں جارہا ہوں شاید تمہارا کام بھی بن جائے ‘‘ ۔ ڈاکٹر مسانی انہیں بامبے ٹاکیز کے اسٹوڈیو لے گئے، جہاں انہوں نے دلیپ صاحب کو اُس زمانے کی مشہور ایکٹریس دیویکا رانی سے متعارف کرایا ۔ دیویکا رانی نے جب دلیپ صاحب کو دیکھا تو اُس کی آنکھوں میں ایک چمک سی پیدا ہوگئی ۔ اُس نے پوچھا کیا آپ اچھی اردو جانتے ہیں ۔ دلیپ صاحب کو بچپن سے ہی اردو سے شغف رہا ہے اور وہ فارسی بھی جانتے ہیں ۔ دیویکارانی نے اُن سے پوچھا کیا وہ ایکٹر بننا پسند کریں گے ۔ دیویکا رانی نے یہ بھی کہا کہ میں آپ کا تقرر ساڑھے بارہ سو روپئے تنخواہ پر کرسکتی ہوں ۔ مجھے آپ میں وہ ساری خوبیاں نظر آرہی ہیں جو ایک اچھے ایکٹر میں ہونی چاہئیں ۔ دلیپ کمار نے فوراً فیصلہ کرلیا کہ یہ موقع گنوانے کا نہیں ۔ انہوں نے اپنی رضامندی ظاہر کردی اور خوشی خوشی گھر آگئے ۔ چونکہ اُن کا گھرانہ مذہبی تھا اور اُن کے والد چاہتے تھے کہ بیٹا سرکاری نوکری کرے اور نام کمائے ۔ اس لئے دلیپ صاحب نے یہ بات دیگر افراد خاندان سے مخفی رکھی ۔ صرف اپنے بھائی ایوب خان کو شریک راز بنایا ۔ ایوب خان کو فوراً ایک شبہ پیدا ہوا کہ ساڑھے بارہ سو روپئے تنخواہ ماہانہ ہے یا سالانہ اس شبہ سے دلیپ کمار کی خوشی کافور ہوگئی ۔ وہ بھاگے بھاگے ڈاکٹر مسانی کے گھر گئے اور اُن سے کہا ’’ ذرا دیویکارانی سے پوچھیے کہ یہ تنخواہ ماہانہ ہے یا سالانہ ‘‘ ۔

جب دیویکا رانی نے ہنس کر تصدیق کردی کہ تنخواہ ماہانہ ساڑھے بارہ سو روپئے ہے تو دلیپ کمار کی جان میں جان آئی اور وہ بہت خوش ہوگئے ۔ یہ 1942 کی بات ہے ۔ فلمی دنیا میں وہ سب سے پہلے جس شخصیت سے ملے وہ اشوکمار تھے ۔ پوری کتاب میں چار شخصیتیں ایسی ہیں جن کا ذکر نہایت احترام سے کیا گیا ہے ۔ اشوک کمار ، ایس مکھرجی ، محبوب خان اور نوشاد ۔
ایک دن جب وہ کام پر پہونچے تو انہیں بتایا گیا کہ دیویکا رانی نے انہیںیاد کیا ہے ۔ دیویکا رانی اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھیں ۔ اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد انہوں نے کہا ’’ یوسف ! میں چاہتی ہوں کہ فلموں کیلئے تمہارا نام الگ ہونا چاہئے ۔ ایک شاندار مستقبل تمہارا انتظار کر رہا ہے ۔ ایسے میں کئی اعتبار سے یہ ضروری لگتا ہے کہ تمہارا ایسا نام ہو جو لوگوں میں مقبول ہو ۔ میں نے تمہارے لئے دلیپ کمار نام چُنا ہے ۔ دلیپ صاحب اس تجویز کیلئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھے ۔ انہوں نے دیویکا رانی سے وقت مانگا ۔ دن بھر دلیپ کمار سوچ میں رہے ۔ ایس مکھرجی نے جب انہیں فکرمند دیکھا تو وجہ پوچھی۔ دلیپ صاحب نے پوری بات بتادی ۔ ایس مکھرجی نے بھی فلمی نام کی تائید کی ۔ انہوں نے بتایا کہ خود اشوک کمار کا اصلی نام کمد لال کنجی لال گنگولی ہے ۔ دلیپ کمار اپنی پہلی فلم کے کام سے مطمئن نہیں تھے ۔ انہیں ہر چیز مصنوعی سی لگ رہی تھی ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ایس مکھرجی نے بہت اچھی صلاح دی ۔ انہوں نے کہا کہ اسٹار بننا آسان ہے لیکن ایکٹر بننا مشکل ہے ۔ ایکٹر مصنوعی اور غیر حقیقی حالات کو حقیقت میں بدلتا ہے ۔ ایکٹر ریل لائف کو رئیل لائف میں بدلتا ہے ۔ وہ اپنے آپ کو ’’ اس کردار کے سانچے میں ڈھالتا ہے جسے وہ نبھارہا ہے ۔ دلیپ صاحب نے ایس مکھرجی کی بات گرہ میں باندھ لی اور انہیں اپنا گرو مان لیا ۔ خود ایس مکھرجی سائنس کے پروفیسر تھے اور بامبے ٹاکیز میں ٹیکنیکل مشورے دینے کیلئے آئے تھے ۔ لیکن فلمی دنیا کے ہوکے رہ گئے اورکئی کامیاب فلمیں بنائیں ۔

فلم جگنو 1947 میں ریلیز ہوئی اور بہت کامیاب ہوئی ۔ اُس وقت تک دلیپ کمار کے والد کو خبر ہی نہیں تھی کہ بیٹا ایکٹر بن گیا ہے ۔ وہ اکثر پرتھوی راج کپور کے والد بشیشورناتھ جی کو طعنہ دیا کرتے تھے کہ تمہارا بیٹا ( پرتھوی راج کپور ) اور پوتا ( راج کپور ) نوٹنکی کرتے ہیں ۔ ایک بار دلیپ کمار کے والد اور پرتھوی راج کے والد کرافورڈ مارکٹ میں ملے جہاں جگنو فلم کے پوسٹرس لگے ہوئے تھے ۔ بشیشور ناتھ جی کو بدلہ چکانے کا اچھا موقع ہاتھ آیا ۔ انہوں نے دلیپ کمار کے والد ( آغاجی ) کو وہ پوسٹر دکھائے اور کہا کہ آپ کا بیٹا بھی نوٹنکی کر رہا ہے ۔ دلیپ کمار کے والد کو سخت صدمہ ہوا اور وہ تھوڑے دن تک خاموش رہے ۔ بالاَخر ایک دن پرتھوی راج کپور اُن کے گھر آئے اور بڑی خوبی سے معاملہ رفع دفع کیا ۔ دلیپ کمار نے بعض غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کیا ہے ۔ اکثر یہ غلط فہمی پھیلائی گئی تھی کہ راج کپور اور دلیپ کمار میں معاصرانہ چشمک تھی ۔ یہ بات بالکل غلط ہے ۔ دونوں خالصہ کالج میں ہم جماعت ھے ۔ ساتھ کھیلتے تھے ۔ دلیپ کمار کے شرمیلے پن کو دور کرنے میں بھی راج کپور کا بہت حصہ رہا ہے ۔ مدھو بالا کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ ہمارے مزاجوں میں بہت فرق تھا اور ہماری شادی ممکن نہیں تھی ۔ دلیپ صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ بات غلط ہے کہ انہوں نے کسی فلم سے مدھو بالا کو نکلوا دیا تھا ۔ وہ حالات اور تھے اور بڑی حد تک مدھو بالا کے والد اس کے ذمہ دار تھے ۔
اکثر ایکٹریسوں کی مائیں ، نانیاں ، دادیاں شوٹنگ میں ہیروین کے ساتھ آجاتی تھیں اور ڈائرکٹر پروڈیوسر کو ان کی ناز برداری کرنا پڑتی تھی ۔ وجینتی مالا کے ساتھ اُن کی نانی آجاتی تھیں ۔ اپنی غذا میں وہ دودھ کا اتنا استعمال کرتی تھیں کہ سارا فلم یونٹ دنگ رہ جاتا تھا ۔ لیٹروں سے دودھ منگواتی تھیں اور شاید نہاتی بھی دودھ سے تھیں ۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر ایک بار دلیپ صاحب کے بھائی ناصر خان ایک فربہ بھینس لے کر اسٹوڈیو پہونچ گئے اور اُسے رسی سے باندھ دیا ۔ کہا کہ یہ بھینس صرف وجینتی مالا کی نانی کیلئے ہے ۔ پروڈیوسر نے وجینتی مالا کی ناراضگی کے اندیشے سے وہ بھینس وہاں سے ہٹوادی ۔

دلیپ کمار کے ابتدائی دنوں میں اُن کا سابقہ ایک غیر سنجیدہ صاحب سے پڑا تھا جن کا نام شاہ نواز خان تھا ۔ پہلی ہی ملاقات میں انہوں نے دلیپ صاحب سے پوچھا ’آپ کے کتنے بھائی ہیں؟‘ دلیپ کمار نے جواب دیا ’ پانچ ‘ شاہ نواز خان نے کہا کہ اگر چھ بھی ہوتے تو میرا کیا بگاڑ لیتے ۔ اُس کے کچھ ہی دنوں بعد انہوں نے ایک اور بے ہودہ حرکت کی جس کا دلیپ صاحب نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ۔ اِس کے بعد شاہ نواز خان کے اوسان درست ہوگئے ۔

ایک بار دلیپ صاحب مدراس میں شوٹنگ کر رہے تھے ۔ معلوم ہوا کہ پنڈت جواہر لعل نہرو بھی تھوڑی دیرکیلئے آنے والے ہیں ۔ پنڈت جی ہال میں داخل ہوئے اور سیدھے دلیپ کمار کی طرف آئے اور کہا ’ یوسف مجھے معلوم ہوا کہ تم یہاں شوٹنگ کر رہے ہو ۔ میں صرف تمہارے لئے آیا ہوں ‘ اِسی طرح پنڈت جی نے خود فون کرکے دلیپ صاحب کو کرشنا مینن کی انتخابی مہم میں حصہ لینے کیلئے کہا تھا ۔ دلیپ کمار کی ایک فلم سنسیر بورڈ میں رکی پڑی تھی جسے پنڈت جی کی مداخلت کے بعد نمائش کی اجازت ملی تھی ۔ دلیپ صاحب نے اٹل بہاری واجپائی کی بھی تعریف کی ہے ۔ محبوب خان کی اعلی ظرفی کی بھی دلیپ صاحب نے تعریف کی ہے ۔ جب بی آر چوپڑا فلم نیا دور بنارہے تھے تو محبوب صاحب کا خیال تھا کہ فلم نہیں چلے گی ۔ لیکن فلم کامیاب رہی فلم کے 100دن مکمل ہونے پر تھیٹر میں ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی ۔ بی آر چوپڑا نے محبوب خان کو اسٹیج پر بلایا ۔ محبوب خان نے فلم کو بہت سراہا اور اعتراف کیا کہ انہوں نے ابتداء میں بی آر چوپڑا کو غلط رائے دی تھی ۔

لتا منگیشکر کو دلیپ صاحب اپنی چھوٹی بہن کی طرح سمجھتے ہیں ۔ ایک بار دلیپ کمار کسی ہوٹل میں تھے اور انہیں نیند نہیں آرہی تھی ۔ انہوں نے دیر رات لتا کو فون کیا اور کہا کہ مجھے نیند نہیں آرہی ہے ۔ مجھے اللہ تیرو نام سناؤ ۔ لتا نے فون پر وہ بھجن اپنی دل نشیں آواز میں سنایا جس سے دونوں کی ایک دوسرے کیلئے قدر و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ دلیپ صاحب نے امیتابھ بچن کا بھی اچھے انداز میں ذکر کیا ہے ۔ کتاب کا آخری حصہ زیادہ تر سائرہ بانو کے ذکر سے روشن ہے ۔ دلیپ صاحب نے لکھا ہے کہ ہم بہت مطمئن زندگی گذارتے ہیں۔ گو ہماری عمروں میں شادی کے وقت بھی بہت فرق تھا ۔ دلیپ صاحب نے کہا ہے کہ وہ اور سائرہ بانو قناعت کی زندگی گذار رہے ہیں ۔ انہوں نے اس سلسلے میں رچرڈ برٹن کا حوالہ دیا جس نے ایک مرتبہ کسی سے کہا تھا ’’ ذرا ایلزبتھ ( ایلزبتھ ٹیلر ) کے حال پر رحم کھائیے جو اس سال بھی گذشتہ سال کے ہیرے پہنے ہوئے ہے‘‘۔ خود سائرہ بانو نے کتاب کا ابتدائیہ لکھا ہے اور دلیپ کمار کی وسیع النظری اور بے تعصبی کے واقعات لکھے ہیں ۔ کتاب کے آخر میں مختلف اداکاروں کے تاثرات شامل ہیں اور تقریباً ہر ایک نے لکھا ہے کہ انہوں نے دلیپ کمار کی فلموں سے اداکاری سیکھی ہے ۔

ایک بات ا ور عرض کرنی ہے ۔ ہم نے اِس کتاب کو خود نوشت سوانح عمری لکھا ہے کیونکہ آٹو بائیو گرافی کا یہی ترجمہ ہوسکتا ہے ۔ دراصل یہ کتاب دلیپ صاحب نے بول کر لکھوائی ہے ۔ تحریر اودے تارا نایر کی ہے ۔ خود کتاب میں اودے تارا نایر نے کہیں یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ اُس نے دلیپ صاحب کے الفاظ کو پیش کیا ہے ۔ اِس لئے اس کتاب کو خود نوشت سوانح عمری ہی سمجھا جائے ۔ ویسے اودے تارا نایر کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ، جس نے کتاب کو شروع سے آخر تک دلچسپ بنادیا ہے ۔ شاید یہ دلچسپی اُس دل نشینی سے پیدا ہوئی ہے جو دلیپ کمار کی شخصیت میں سموئی ہوئی ہے ۔