ایک طلاق بائن کے بعد مزید تین طلاق

سوال : زید کی شادی ہوئے چند سال ہوئے، وہ چار ماہ کے اندر دوسری شادی کرلیا۔ پہلی بیوی سے ایک لڑکا ہے اور دوسری بیوی سے بھی ایک لڑکا ہے۔ دوسری شادی کرنے کے بعد پہلی بیوی کے لوگ دوسری بیوی کو چھوڑدو کہہ کر بہت جھگڑا کرنے لگے۔ لڑکا پہلی بیوی جو خاندان سے ہی تعلق رکھتی تھی اس کو قضاء ت کے دفتر جاکر طلاق دے دیا کیونکہ پہلی بیوی گھر چھوڑ کر چلی گئی تھی ۔ 4 ماہ کے بعد پہلی بیوی اور ان کے لوگوں سے ایک دعوت میں ملاقات ہوئی۔ وہاں پر بھی پہلے طلاق کو لیکر جھگڑا ہوگیا ۔ پھر وہاں پر لڑکے نے غصہ میں پھر ایک بار تین غلطیوں پر تین بار الگ الگ طلاق دے دیاہے جس کے سب لوگ گواہ ہیں۔ اب لڑکا پھر اس سے نکاح کر کے مکان میں رکھ لیا ہے اور جہاں پر نکاح خوانی پڑھائی گئی ہے ان کو بھی یہ نہیں معلوم ہے۔ لڑکا پہلے ایک طلاق دیا ہے، پھر دوسری بار الگ الگ تین طلاق دیا ہے ۔ شرعاً کیا حکم ہے ؟

ولی عادل، مراد نگر
جواب : بیوی کو قید نکاح سے آزاد کرنے کا نام طلاق ہے ۔ اس لئے طلاق کے واقع ہونے کے لئے بیوی کا نکاح میں یا عدت میں ہونا ضروری ہے ۔

پس دریافت شدہ مسئلہ میں شوہر نے جس وقت بیوی کو دفتر قضاء ت سے رجوع ہوکر ایک طلاق دی اسی وقت بیوی پر ایک طلاق واقع ہوگئی۔ بعد ازاں شوہر نے ایک دعوت میں جھگڑے کے بعد تین مرتبہ طلاق دیا ہے تو یہ طلاقیں عدت طلاق (پہلی طلاق سے تین حیض) کے دوران دی گئی ہیں تو اسی وقت مابقی دو طلاق واقع ہوکر شوہر سے تعلق زوجیت بالکلیہ منقطع ہوگیا ۔ اب وہ دونوں بغیر حلالہ آپس میں دوبارہ عقد بھی نہیں کرسکتے۔ تین طلاق کے بعد بغیر حلالہ دوبارہ ازدواجی زندگی گزارنا شرعاً حرام ہے۔ اگر شوہر نے ایک طلاق کے بعد عدت طلاق (تین حیض) گزرنے کے بعد مزید تین طلاقیں دی ہیں تو عدت کے گزرتے ہی عورت طلاق کا محل باقی نہیں رہی۔ اس لئے بعد کی طلاقیں واقع نہیں ہوئیں۔ دفتر قضاء ت سے دی گئی طلاق ، طلاق بائن تھی تو دونوں کا تجدید نکاح کرنا شرعاً درست ہے ۔
نوٹ : دفتر قضاء ت سے جاری طلاقنامہ کی کاپی اور بعد میں دی گئی تین طلاقیں عدت طلاق میں دی گئی یا نہیں اس کی وضاحت کی جائے تو شرعی مسئلہ من و عن بیان کیا جاسکتا ہے۔

امامت کی اہلیت
سوال : شرائط امامت کیا ہیں ؟ کونسا شخص امامت کرسکتا ہے ؟
نام …

جواب : شرعاً ایسے شحص کی امامت درست ہے جو تمام شرائط صحت نماز کا جامع ہو۔ یعنی مسلم ہو، عاقل ہو ، بالغ ہو، طہارت وضوء ، غسل، شرعی طریقہ سے انجام دیتا ہو، صحیح الاعتقاد ہو، تلاوت قرآن صحیح تجویدکے موافق کرتا ہو، احکام صلاۃ فرائض واجبات سنن و مفسداتِ نماز سے واقف ہو ، ہیئت اسلامی و سنن نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا عامل ہو ۔ فاسق و فاجر معلن یعنی علانیہ احکام شریعت و سنن کی خلاف ورزی کرنے والا نہ ہو، نیز اخلاق ذمیمہ کا مرتکب نہ ہو۔
جیسا کہ تنویر الابصار میں ہے : اعلم باحکام الصلوۃ ثم الاحسن تلاوۃ و تجوید اللقرأۃ ثم الاورع ای اکثر اتقا ء للشبھات … ثم الاحسن خلقا … عالمگیری جلد اول باب الامامۃ میں ہے ۔ و یجتنب الفواحش الظاہرۃ۔

عورت کا دوران عدت مہندی لگانا
سوال : ہمارے عزیز کا انتقال ہوا ، وہ بہت بیمار تھے ۔ عرصہ سے ان کے افراد خاندان نا امید ہوچکے تھے لیکن قضاء و قدر کے سامنے سب عاجز و بے بس ہیں۔ ان کی سالی کی شادی فروری کے پہلے ہفتہ میں طئے ہے۔ لڑکا بیرون ملک سے آرہا ہے اور لڑکی کی بہن یعنی مرحوم کی بیوہ عدت میں ہے اور اس وقت تک بھی ان کی عدت ختم نہیں ہوگی۔ آپ سے معلوم کرنا یہ ہے کہ بیوہ اپنی عدت وفات کے آخری ایام میں مہندی وغیرہ لگاسکتی ہے یا نہیں ؟
یاسر ندیم ، ملے پلی

جواب : بیوہ کو عدت کے دوران زیب و زینت اور خوشبو و غیرہ کا استعمال منع ہے اور مہندی کو بھی خوشبو اور زینت میں شامل کیا گیا ہے ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عدت گزارنے والی خاتون کو مہندی کا خضاب لگانے سے منع کیا ہے ۔ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھی المعتدۃ ان تختضب بالحناء (ابوداود فی السنن کتاب الطلاق باب فیما تجتنبہ المعتدۃ فی عدتھا۔
اور ایک روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہندی کو خوشبو قرار دیا ہے ۔ ’’الحناء طیب‘‘ ۔
لہذا بیوہ کو ایام عدت کے اواخر میں بھی مہندی لگانے کی شرعاً اجازت نہیں رہے گی۔

قلب کے مریض اور تیمم
سوال : میری طبعیت ٹھیک نہیں رہتی ‘ ہاٹ کا پرابلم ہوگیا ہے کمزوری بہت ہے کیا میں تیمم کر کے نماز و قرآن شریف اور درود شریف پڑھ سکتی ہوں ‘ کیا قرآن مجید کی تلاوت کرسکتی ہوں ۔ براہ مہربانی آپ یہ مسئلہ کا فتویٰ دیجئے ۔
عالیہ فاطمہ، نور خاں بازار

جواب : وضو کرنے سے بیماری کے بڑھنے اور مزید شدید ہوجانے کا اندیشہ ہو تو تیمم کی اجازت ہے ۔ البحرالرائق جلد اول ص: ۲۴۵ ‘ و فی الکافی من قولہ بان یخاف اشتداد مرضہ لواستعمل الماء فعلم ان الیسیرہ لا یبیح التیمم لہذا آپ کو وضو سے بیماری بڑھنے کا اندیشہ ہو تو ایسے وقت میں تیمم کر کے نماز اور تلاوت کی اجازت ہے ‘ ورنہ وضو کرنا لازم ہے ۔

رشتہ دار پڑوسی کی تکلیف دور کرنا
سوال :۔ ایک شخص اور ان کی بہن کے درمیان ان کی والدہ مرحومہ کے مکان کی تقسیم کے موقع پر حسب رضامندی ہر دو فریق یہ تحریر موجود ہے کہ بہن کے مکان کے چھت اور ہرسہ طرف چار انچ کی چسپیدہ دیوار ان کی ہے اور کھلی اراضی بھی ان کی ہے ۔ اب مرحومہ بہن کے فرزند کا ادعا یہ ہیکہ چار انچ کے علاوہ دیوار کے جس حصہ پر چھت ہے وہ بھی انہی کی ہے ۔ دوسری نزاع یہ ہے کہ مرحومہ بہن کے مذکورہ مکان کی چھت کا پانی بھائی کے گھر میں گررہا ہے ۔ بھائی کی خواہش ہے کہ اس تکلیف کا سدباب ہو لیکن مرحومہ کے لڑکے اس کو قبول کرنے سے انکار کررہے ہیں ۔
عبدالاحد، چنچل گوڑہ

جواب : ۔ مذکورہ درسوال دیواروں سے متعلق جب فریقین کی رضامندی کا ثبوت تحریراً موجود ہے تو اب نزاع کی کوئی گنجائش نہیں‘ حسب تصفیہ ہرسہ طرف چار انچ کی دیوار بہن کی رہے گی اس لئے ان کے ورثاء کو اس سے اتفاق کرلینا چاہیئے اگر وہ دیوار کا حجم بڑھانا چاہتے ہوں تو چار انچ کی دیوار سے متصل اندرونی حصہ میںمزید دیوار اٹھالینے کا ان کو اختیار حاصل ہے ۔ قطع نظر دیواروں کی نزاع کے ہر صورت میں بہن کے مکان کی چھت کا پانی بھائی کے حصہ مکان میں گررہا ہو تو اس کی شرعاً اور قانوناً بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ اس لئے اس امر کے سدباب کئے جانے کی بھائی کی طرف سے کی جانے والی خواہش حق بجانب ہے ۔ مرحومہ بہن کے لڑکے پر لازم ہے کہ وہ اس کا سدباب کرے کیونکہ پڑوس کو جبکہ وہ رشتہ دار بھی ہو دوگنا حق رکھتا ہے ‘ اپنی طرف سے کوئی تکلیف دینا تو بڑی بات ہے ۔ پڑوسی ہونے کا حق یہ ہے کہ اس کو کوئی تکلیف ہو تو اس کو بھی دور کرنے میں پڑوسی کو تعاون عمل کرنا چاہیئے ۔

خون کا عطیہ ، فروختگی اور بلڈ بینک کا قیام
سوال : میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان سے شہر میں جہاں بے جا نامناسب افعال کی بہتات ہے وہی بعض دانشمندوں کی جانب سے علماء کی نگرانی میں چار سال قبل ایک انقلابی اقدام بلڈ ڈونیشن سے متعلق کیا گیا جو آج صرف شہر ہی نہیں اضلاع اور پورے ہندوستان میں عام ہوگیا ہے۔عام مسلمانوں میں خون دینے سے متعلق شکوک و شبہات پائے جاتے تھے۔ حالیہ عرصہ میں علماء کرام کی وضاحتوں کے بعد یہ شکوک و شبہات کچھ حد تک دور ہوئے اور کچھ شکوک شبہات ابھی ذہنوں میں باقی ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ خون کا عطیہ کن کن صورتوں میں دیا جاسکتا ہے؟ کیا غیر مسلم کو خون دے سکتے ہیں؟ کیا کوئی آدمی اپنا خون فروخت کرسکتا ہے۔اس طرح بلڈ بینک میں خون کو اسٹور کیا جاتاہے ۔ کیا ہم بلڈ بینک قائم کرسکتے ہیں۔ کیا بلڈ بینکس خون فروخت کرسکتے ہے ۔ اس موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالیں تو مہربانی ہوگی ؟

محمد مطہر حسین قادری، پرانی حویلی
جوا ب: مطلق خون حرام ، ناپاک و نجس ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انما حرم علیکم المیتۃ والدم (سورہ بقرہ 173 ) اود مامسفوحا (سورہ انعام 145 )
حرام شئی سے علاج و معالجہ کرنا شرعاً منع ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔ ولا تتداووا بحرام (فتح الباری جلد 10 ص : 135 )
خون انسان کے بدن کا بہتا جز ہے جو کہ ناپاک ہے، اس لئے خون کے بدنِ انسانی کا جز اور ناپاک ہونے کی وجہ اس کو فروخت کرنا شرعاً منع ہے ۔ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن ثمن الدم (صحیح البخاری بشرح فتح الباری جلد 10 ص : 314 )

البتہ بفحوائے آیت قرآنی ’’ الاما اضطر رتم الیہ‘‘ بوقت ضرورت بقدر ضرورت حرام چیز سے علاج کی اس وقت اجازت ہے جبکہ مریض کو بطور خود اس بات کا یقین ہو کہ اس کے استعمال سے شفاء ہوگی یا کوئی مسلمان طبیب اس کو یہ بات کہے اور حرام شئی کے علاوہ اس بیماری کے لئے کوئی اور جائز دوابھی نہ ہو، ورنہ شئی حرام سے علاج کرنا شرعاً حرام ہے ۔ رد المحتار جلد 4 ص : 224 میں ہے : صاحب الخانیۃ والنھایۃ اختار الجوازہ ان علم فیہ شفاء ولم یجد دواء غیرہ قال فی النھایۃ و فی التھذیب یجوز للعلیل شرب البول والدم والمیتۃ للتداوی اذا اخبرہ طبیب مسلم ان فیہ شفاء ولم یجد من المباح ما یقوم مقامہ ۔

پس صورت مسئول عنہا میں حسب صراحت بالا بوقت ضرورت کسی کی جان بچانے انسان کا خون چڑھانا خواہ وہ مسلمان کا ہو یا غیر مسلم کا، مرد کا ہو یا عورت کا ’’الاامور بمقاصد ھا کے تحت شرعاً درست ہے ، اسی طرح بلا معاوضہ خون کا عطیہ دینا بھی شرعاً جائز ہے ۔ چونکہ بلڈ بینک میں خون کو صفائی ، تحقیق اور معائنہ کے بعد ضرورت مند کو دیا جاتا ہے ۔ اس لئے کسی مسلمان کا ضرورت مند کو بوقت ضرورت کام آنے کیلئے وقت سے پہلے بلڈ بینک کو خون کا عطیہ دینا تاکہ وہ اس کی صفائی اور معائنہ کرسکے ، شرعاً درست ہے اور ’’وتعاو نوا علی البروالتقوی‘‘ ( تم آپس میں ایک دوسرے کی نیک اور تقوی پر مدد کرو) کے تحت مستحسن ہے ۔ بلڈ بینک اگر صرف معائنہ اور محنت کے اخراجات وصول کرتا ہے تو اس کا یہ عمل درست ہے اور اگر وہ فروخت کرتا ہے تو شرعاً درست نہیں۔

عقیقہ میں چاندی خیرات کرنا
سوال : اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بچوں کا سر منڈھانے کے بعد ان کے بال کا وزن کر کے اتنے مقدار میں چاندی خیرات کی جاتی ہے۔ شرعی لحاظ سے چاندی خیرات کرنا کیا حکم رکھتا ہے ؟
مختار احمد ، ٹولی چوکی
جواب : عقیقہ کی حجامت کے بعد چاندی یا سونے کو بالوں سے وزن کر کے فقراء کو دینا مستحب ہے : فتاوی شای جلد 5 ص : 231 میں ہے : و یستحب ان یحلق رأسہ و یتصدق عند الائمۃ الثلاثۃ بزنۃ شعرہ فضۃ أو ذھبا۔